کینیڈا میں خالصتان تحریک کے سکھ رہنما ہر دیپ سنگھ نجار ‘سربراہ خالصتان ٹائیگر فورس(کے ٹی ایف )کے قتل کا معاملہ ابھی گرم ہی تھا کہ بھارتی حکومت کو ایک اور عالمی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔قطر کی عدالت نے جمعرات کے روز بھارتی بحریہ کے اُن آٹھ سابق افسران کو سزائے موت سنا دی جنہیں گزشتہ سال30اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔ان پر اسرائیل کیلئے جاسوسی کے سنگین الزامات تھے ۔ اگرچہ قطر نے سرکاری طور پر الزامات کی تفصیل بیان نہیں کی لیکن ایک اخباری خبر میں یہ کہا گیا ہے کہ ان بھارتی افسران کا رابطہ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ سے تھا اور انتہائی اہم اور خفیہ راز اسرائیل کے حوالے کیے گئے تھے۔ان کے ٹھوس ثبوت بھی قطر کے پاس موجود ہیں ۔ ویسے تو یہ بھی کہا گیا کہ یہ ثبوت پاکستان کے چوٹی کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے قطری انٹیلی جنس کو فراہم کئے تھے‘ لیکن قطر نے کسی بھی بیرونی ذریعے کے اس معاملے میں شامل ہونے کی تردید کی ۔کہا گیا ہے کہ یہ قطری انٹیلی جنس کی اپنی کارروائی ہے ۔ ان آٹھ افسران میں کمانڈر پورنیندو تیواری ‘ کیپٹن نوتیج سنگھ گل ‘کمانڈر بیرندر کمار ورما‘کیپٹن سوربھ وششت‘کمانڈر سوگنا کرپالا‘کمانڈر امیت ناگپال‘کمانڈر سنجیو گپتا اور سیلر راگیش شامل ہیں۔یہ سب جنگی جہازوں اور آبدوزوں کا تجربہ رکھتے تھے اور ان میں کمانڈر تیواری سمیت کئی کو بھاتی بحریہ نے اعزازات سے بھی نوازا تھا۔یہ کمانڈر تیواری ایک کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر بھی رہے ہیں ۔
اس عدالتی فیصلے سے بھارت کو شدید دھچکالگا ہے‘ جو یہ سمجھ رہا تھا کہ قطر بھارت سے تعلقات اور مفادات کا خیال کرتے ہوئے ان بھارتی افسران کو رہا کردے گا۔بھارتی وزارتِ امور خارجہ نے موت کی سزا کے فیصلے کی خبر ملنے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ '' ہمیں شدید دھچکہ پہنچا ہے اور ہم صدمے میں ہیں۔قانونی ٹیم اور ان افراد کے گھرانوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہمیں عدالت کے تفصیلی فیصلے کا انتظار ہے‘‘۔یہ ایک اہم معاملہ ہے جس میں قطر نے مصلحتوں کی پروا نہ کرتے ہوئے قومی سلامتی کے معاملے پر مضبوط مؤقف اختیار کیا‘ لیکن ذرا قطر کے اس عدالتی فیصلے کا پس منظر بھی سمجھ لیجیے۔
قطر ان دنوں اٹلی سے ایک جدید ترین آبدوز حاصل کرنے کے خفیہ منصوبے پر کام کر رہا ہے۔یہ آبدوز ایسے میٹریل سے بنی یا ڈھکی ہوگی جسے تلاش کرنا اور ڈھونڈنا ممکن نہیں ہوگا یا بہت مشکل ہوگا۔یوں سمجھیے کہ جیسے سٹیلتھ ( stealth)جنگی طیارہ ریڈار پر دکھائی نہیں دیتا اسی طرح یہ سٹیلتھ آبدوز ہوگی جو سونار ریڈار وغیرہ پر دکھائی نہیں دے گی۔قطری بحریہ کے اس پراجیکٹ میں ایک نجی کمپنی ''الظاہرہ العالمی کنسلٹینسی اینڈ سروسز‘‘کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں جو قطر کو تربیت اور ساز و سامان فراہم کرتی تھی ۔قطری اماراتی نیول فورس کو تربیت اور ساز و سامان فراہم کرنا اس کی ذمے داری تھی ۔یہ کمپنی ایک عمانی شہری خمیص العجمی کی ملکیت تھی جو عمانی فضائیہ کا ریٹائرڈ سکواڈرن لیڈر تھا۔مالک اس واقعے کے بعد جب دوحہ پہنچا تو اسے بھی گرفتار کر لیا گیالیکن دو ماہ بعد رہا کردیا گیا ۔کمپنی کی ویب سائٹ‘ جو اَب قابلِ رسائی نہیں ‘ اسے قطر کی وزارتِ دفاع اور دیگر سرکاری ایجنسیوں کا بزنس پارٹنر بتاتی تھی ۔یہ کمپنی دفاعی آلات چلانے اور ان کی مرمت اور دیکھ بھال کی ماہر سمجھی جاتی ہے ۔ کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں میں 75بھارتی شہری تھے جن میں سے بہت سے بھارتی بحریہ کی آبدوزوں کے منصوبوں پر کام کرچکے تھے۔یہ بات بھی معنی خیز ہے کہ یہ اہلکار قبل از وقت بھارتی بحریہ سے ریٹائر ہوئے تھے ۔ یہ بات بھی قطر کو شک میں ڈالتی ہے ۔ دراصل بھارت اور قطر کے ایک معاہدے کے تحت ان اہلکاروں کو یہ ملازمت دی گئی تھی ۔ ان سب اہلکاروں کو 30 اگست 2022 ء کو گرفتار کیا گیا اور قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔لیکن نہ قطر اور نہ بھارتی حکومت نے گرفتاری کی خبر دی ۔ معاملہ افشا اس وقت ہوا جب46 سالہ گرفتار کمانڈر (ر)پورنیندو تیواری کی بہن ڈاکٹر میتو بھارگہ نے اکتوبر 2022 ء کی ایک ٹویٹ میں یہ انکشاف کیا ۔اس کے بعد الظاہرہ العالمی نامی اس کمپنی نے اپنے تمام بھارتی شہریت والے ملازمین کی ملازمت ختم کردی جبکہ ان کی مدت ملازمت 2029ء تک تھی ۔مئی 2023 ء میں الظاہرہ العالمی کمپنی بند کردی گئی اور اس کے تمام اثاثوں کو قطر نے ایک فرانسیسی سربراہی کمپنی کی تحویل میں دے دیا جو اَب تربیت اور دیکھ بھال کی یہی ذمے داری سنبھالے گی ۔
اگرچہ قطر اور بھارت دونوں حکومتیں اس معاملے میں محتاط طرزِ عمل اختیار کیے ہوئے ہیں تاہم قطر نے گزشتہ دہائیوں میں ایک طاقتور اور اصولی مؤقف رکھنے والے‘ نہ ڈرنے والے ملک کی حیثیت بنائی ہے۔سعودی عرب جیسے طاقتور ملک سے ٹکر لینا آسان کام نہیں تھا لیکن قطر نے یہ بھی کردکھایا ۔ فیفا ورلڈ کپ کا انعقاد ہو‘ یا طالبان اور امریکہ کے بیچ مذاکرات‘حماس کے ہیڈ کوارٹر ہوں یا '' الجزیرہ‘‘ کی آزاد صحافتی پالیسی ‘ قطر نے اپنی طرف عالمی توجہ مبذول کروائی ہے ۔ بی جے پی کی رہنما نوپور شرما کے پیغمبر اسلامﷺ کے بارے شرمناک بیان پر بھی قطر کی آواز مذمت میں سب سے بلند تھی ۔موجودہ فلسطینی قضیے کے معاملے میں بھی قطر اسرائیل کی کھلی مذمت کر رہا ہے ۔ اس وجہ سے بھارتی سوشل میڈیا میں یہ بے بنیاد بات بھی اٹھنا شروع ہوگئی ہے کہ قطرنے مودی حکومت کو اسرائیلی مؤقف کی تائید کی سزا دی ہے ۔
اب اس معاملے کی طرف آئیے کہ اسرائیل کو قطر کی اس جدید ترین آبدوز سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے ۔ دراصل قطر ایران کا اچھا دوست ہے ۔اسرائیل کو شبہ ہے کہ ایران اس آبدوز میں دلچسپی رکھتا ہے ‘اس لیے اس کی معلومات اسرائیل کو لازمی چاہئیں ۔ اسرائیل براہ راست قطر میں جاسوسی نہیں کرسکتا‘ اس لیے قطر کو شبہ ہے کہ اس مقصد کے لیے بھارتی اہلکار استعمال کیے گئے ہیں ۔ قطر کے پاس وہ ٹھوس الیکٹرانک ثبوت موجود ہیں جن کی بنیاد پر اسے علم ہے کہ یہ راز اسرائیل کو دئیے گئے ہیں ۔ تجارتی حوالوں سے دیکھیں تو دونوں ملکوں کی باہمی تجارت 15 ارب ڈالر سے زیادہ ہے ‘ بھارت اپنی گیس کا 40فیصد قطر سے درآمد کرتا ہے ‘آٹھ لاکھ بھارتی قطر میں ملازمت کرتے اور رہائش پذیر ہیں ۔ اب یہ بھی امکان ہے کہ ان میں جو اہم اور حساس عہدوں پر ہیں انہیں برطرف کردیا جائے۔معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عرب ممالک میں جہاں بھارتی باشندے بہت بڑی تعداد میں ہیں ‘ کیا دیگر عرب ممالک بھی اس معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اپنے قومی اور خفیہ رازوں کے لیے فکر مند ہوں گے؟ ایسا ہوا تو عرب ممالک میں بھارتی عہدیداروں کا کوئی مستقبل نہیں۔
کینیڈا میں خالصتان تحریک کے رہنماہردیپ سنگھ نجار کے قتل پر کینیڈا کی حکومت نے تحقیقات کے بعد اس میں 'را ‘کے ملوث ہونے کا اعلان کیا تھا‘بھارتی سفارت کارکو جو کینیڈا میں 'را‘ کا سربراہ تھا‘ نکال دیا گیا اور بھارتی حکومت سے تحقیقات میں تعاون کا مطالبہ کیا ۔ جواب میں کینیڈا کے چند سفارتی اہلکار بھی دہلی سے نکال دئیے گئے۔اس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہیں ۔ ابھی اس واقعے کی ہلچل موجود تھی کہ قطر کا یہ تازہ معاملہ ایک اور بھارتی رسوائی کا سبب بنا ہے ۔ قطر کی حکومت کے مضبوط مؤقف کو دیکھتے ہوئے بہت امکان ہے کہ سزائے موت کے حکم پر جلد عمل کیا جائے گا‘اور یہ بھارت میں ایک نئے کہرام کا سبب ہوسکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved