تاریخ کی کتابوں میں پڑھا تھا کہ کس طرح صیہونیوں نے اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے کئی عشروں سے منصوبہ بندی کر رکھی تھی جس کا موقع انہیں جنگِ عظیم میں اتحادیوں کی فتح کی صورت میں میسرآیا۔ وسیع و عریض اور پرانے وقتوں کی عظیم سلطنت عثمانیہ اپنے دھڑے کے دیگر ممالک کے ساتھ شکست کھا چکی تھی۔ اس کے زوال کی کہانی اپنی جگہ مگر عربوں میں قومیت اور تعصب نے ایسا زور پکڑا کہ جب عثمانی ترک برطانیہ کے خلاف لڑ رہے تھے‘ ان کے عرب صوبے علیحدگی کی پر تشدد تحریک چلا رہے تھے‘ قبائلی سرداروں نے سوچا کہ مرکز کمزور ہے تو اب موقع ہے کہ اپنی اپنی سلطنتیں بنالیں‘ یوں عثمانی سلطنت بکھر گئی۔ ترکوں کے خلاف بغاوت میں وہ اکیلے نہیں تھے۔ برطانیہ اور فرانس‘ اور ان کے امریکی مددگار سلطنت کے حصے بخرے کر کے مشرق وسطیٰ میں ایک نیا جغرافیائی اور سیاسی نظام قائم کرنے کی سازش پہلے ہی تیار کر چکے تھے۔ عجیب بات ہے کہ عرب سرزمین پر کوئی خانہ جنگی ہوئی اور نہ آپس میں ٹکرانے کے لیے لشکر وجود میں آئے۔ آج کل جو آپ ریاستیں اور ان کی سرحدیں دیکھ رہے ہیں صرف دو سفارت کاروں نے یورپ میں کہیں بیٹھ کرطے کی تھیں۔ ایک برطانیہ سے تھا اور دوسرے کا تعلق فرانس سے تھا۔ ظاہر ہے کہ اُن کے بڑوں نے خاکہ بناکر لکیریں کھینچنے کی ذمہ داری انہیں سونپی تھی۔
علاقوں کی بانٹ طاقتور خاندانوں میں کر کے انہیں تاج پوشی کی فضیلتوں سے نوازا گیا۔ پس پردہ وہ ترک مخالف قوتیں تھیں جن کا مقصد وہ ریاستی نظام قائم کرنا تھا جو ہم ایک صدی سے دیکھتے آرہے ہیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ فلسطین دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ منظم صوبہ تھا۔تین مذاہب اور تہذیبی روایات کے لوگوں صدیوں سے قومی ہم آہنگی‘ امن و آشتی اور بھائی چارے کے ساتھ مل جل کر رہ رہے تھے۔ سب عرب تھے۔ مسلمان‘ یہودی اور عیسائی‘ سب ایک ہی زمین کے تاریخی رشتوں میں پروئے ہوئے تھے۔ ایک فعال ریاست کی سب خصوصیات فلسطین میں موجود تھیں۔ واضح اکثریت فلسطینی عربوں کی تھی۔ دیگر عرب ثقافت زبان اور تعریف کے حوالوں کے باوجود فلسطینی زمین کا رشتہ ان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا تھا‘ لیکن فاتح اتحادیوں نے کچھ اور ہی سیاسی نقشہ ذہن میں کھینچا ہوا تھا۔ یورپی صیہونیوں نے اپنی دولت اور تنظیم کی بنیاد پر جنگ میں زبردست سرمایہ کی تھی اور وہاں کے معاشی‘ علمی اور ادبی اداروں میں اپنی طاقت اور اختیار کو اس نقشے کی زمینی تعبیر کے لیے خوب استعمال کیا۔ انہوں نے ہزاروں سال پہلے کے مذہبی حوالوں کو تاریخ بنا کر عرب علاقوں سے ہجرت اورخروج کی مظلومی کی داستان نسل در نسل لکھی‘ پڑھائی اور مغربی درباروں میں تسلسل کے ساتھ پیش کی۔ جب نازی جرمنی نے ظلم کے پہاڑ توڑے جسے میں درست مانتا ہوں تو مغرب میں صیہونیوں کو کہیں آباد کرنے کے لیے سوچ پیدا ہونا شروع ہوگئی۔جنگ کے بعد کے معروضی حالات میں ان کی ریاست کے قیام کے لیے فضا سازگار تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکہ اور کینیڈا میں جہاں لاکھوں کی تعداد میں تارکین وطن جا رہے تھے ان کے لیے گنجائش نکالی جاتی‘لیکن ان کامنصوبہ کچھ اور تھا۔ وہ ایک اسرائیلی ریاست کو مذہب کا لبادہ پہنا کر قائم کرنے کے لیے سب وسائل پیدا کر چکے تھے۔ ایک بات میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ عربوں کی ریاست کا قیام پہلی عالمی جنگ کے بعد ایک لازمی تاریخی عمل تھا۔اس کی بنیادی وجہ سلطنت عثمانیہ میں اقتدار کی مرکزیت تھی۔ انہیں مغرب میں ہونے والی سیاسی اور آئینی تبدیلیوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے تھا‘ لیکن وہ نئے زمانوں میں پرانے سیاسی ہتھیار استعمال کر رہے تھے۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ بدقسمتی سے عربوں نے بھی سلطنتی امور اپنائے کیونکہ ان کے خیال میں ان کی سماجی اور قبائلی ساخت کے لیے وہی نظام موزوں تھا۔
حکومتوں کی طاقت کے دو ذرائع ہوتے ہیں‘ ایک ریاست کے نظام پر حاوی ہو کر سب وسائل کو اپنی کرسی کے استحکام اور فرمانبرداری کے لیے استعمال میں لانا۔ یہ پرانی روایات کا حصہ ہے جو ہمارے تمام مسلمان ممالک کا ابھی تک شیوہ ہے۔ دوسرے ذرائع آئین اور عوام کی طاقت سے پیدا کیے جاتے ہیں۔ حقیقی عوامی حمایت اورقانونی جائزیت ہو تو اتحاد کی زبردست قوت پیدا ہوتی ہے جو ریاستوں کو استحکام بخشتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ مغربی ممالک تو اب صدیوں سے عوامی اور آئینی راہ پر چل کر ترقی کی نہ صرف منزلیں طے کر تے آئے ہیں بلکہ دنیا پر حکمرانی بھی کی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ اس لیے راس نہیں آتا کہ عوام کی نظروں میں ان کی کوئی وقعت نہیں اور جن ناموں سے وہ انہیں یاد کرتے ہیں اور جو بد دعائیں ان کے دلوں سے نکلتی ہیں ہم ان کا ذکر نہیں کر سکتے۔ اس کا ذکر اپنے ملک کے حوالے سے نہ کریں لیکن آج فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور جس طرح اٹھاون مسلم ممالک کے حکمران صرف بیان بازی کر رہے ہیں تو کمزوروں اور طاقت کے توازن کی بات کا شاید آپ ادراک نہ کر سکیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد طاقت کا موجودہ توازن طے ہونا شروع ہوچکا تھا۔امریکہ نے آہستہ آہستہ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی اور ماضی کی دیگر استعماری ریاستوں کی جگہ لینا شروع کر دی تھی‘ مگر معاشی‘ صنعتی اور عسکری اعتبار سے ان کو دوبارہ تعمیر کر کے وسیع تر عالمی اتحاد پیدا کرنا ناگزیر تھا۔ دوسری طرف ان کی طے کردہ اسرائیلی ریاست کے قیام کی راہ میں کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ ہزاروں صیہونیوں کی فوج تیار کی جا چکی تھی۔ انہیں عسکری تربیت بھی دی جا چکی تھی۔ اسلحے اور جہازوں کی کمی نہ تھی۔ دنیا نے ان کا فلسطین پر حملہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ آج تو صرف غزہ کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے‘ اُس وقت سارے فلسطینیوں کو نیست و نابود کر کے ریاست کے قیام کا اعلان کرایا گیا اور گھنٹوں میں تسلیم کرکے اقوام متحدہ کا ممبر بنا کر اس کی بقا یقینی بنانے کے لیے سب مغربی قوتیں میدان میں آگئیں۔ فلسطینیوں کے پاس سوائے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے کچھ نہ تھا۔ نہتے عام دیہاتیوں پر فوجی حملوں میں انہیں اپنی زمینوں‘ بستیوں اور باغوں سے در بدر کیا گیا تاکہ صیہونیوں کو وہاں آباد کیا جائے۔ یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں۔ ساری دنیا اقوام متحدہ اور یہاں تک کہ اسرائیل کے مغربی حامی بھی جانتے ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں مغربی کنارے پر بسائی گئی بستیاں غیر قانونی ہیں مگر وہاں سے فلسطینیوں کو آج بھی بے دخل کیا جا رہا ہے۔فلسطینی گزشتہ 75 سالوں سے شہید ہو رہے ہیں اور ان کی زمینوں پر قبضہ ہو رہا ہے۔ غزہ سے بھی انہیں اس طرح نکالا جا رہا ہے جیسے دیگر علاقوں پر عسکری طاقت سے قبضہ کرکے نکالا گیا تھا۔ اب تو مظالم کی انتہاہوچکی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں بچے‘ بوڑھے عورتیں اور عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہمارے اپنے وطن کے حوالے سے جو دکھ ہیں اور جن پر دن رات افسردہ رہے ہیں‘ اب ان میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ہم یہ مناظر دیکھ نہیں سکتے۔ کمزور دل کو وہ برداشت کرنے کی ہمت نہیں جو مغربی اخبارات کے اداریوں اور مضامین میں جواز نکالے جاتے ہیں۔ انہیں پڑھ کر دل کڑھتاہے۔ یہ سب طاقت کے مزاج‘ حوالے اور زبان و کلام ہیں۔اگر اب بھی ہمیں معلوم نہیں کہ وہ طاقت مغرب میں کیسے پیدا ہوئی جس کا مقابلہ کرنے سے ہم قاصر ہیں اور ہم کیسے اس سے محروم رہے تو پھر ہم یوں ہی بدقسمت رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved