تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-10-2013

بینکار‘ اکائونٹنٹ اور عالمی مالیاتی اداروں کے ٹائوٹ

روشنی کی رفتار آواز کی رفتار سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں بہت سی صورتیں اور شکلیں خوبصورت لگتی ہیں تاوقتیکہ ہم انہیں بولتا ہوا نہ سن لیں۔ یہی حال جناب اسحق ڈار کا ہے۔ جب معاشی معاملات ازخود ٹھیک تھے‘ اسحق ڈار اعلیٰ ماہر معاشیات تھے۔ جونہی خراب حالات میں کام کرنا پڑا ساری صلاحیتیں کھل کر سامنے آ گئیں۔ اُن کی صلاحیتوں کا اتنا چرچا تھا کہ پیپلز پارٹی والے بجٹ کے دنوں میں جناب اسحق ڈار کو للچائی نظروں سے دیکھتے تھے۔ ان کے منہ سے رال ٹپکتی تھی کہ مسلم لیگ ن کے پاس ایسا نابغہ ماہر معاشیات ہے اور پیپلز پارٹی کسی ایسے بزرجمہر سے محروم ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ پیپلز پارٹی بوجوہ ڈار صاحب کی صلاحیتوں سے استفادہ نہ کر سکی۔ گزشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ ن کو اس طرح کے چیلنج درپیش نہ تھے۔ ڈالر تائید غیبی سے مستحکم تھا۔ لوڈشیڈنگ کا جن ابھی کسی حد تک قابو میں تھا۔ مسئلہ صرف سپلائی اور ڈیمانڈ میں موجود توازن کی وجہ سے نمایاں نہیں ہوا تھا۔ اس میں کسی کی کوئی خوبی نہیں تھی۔ نائن الیون وقوع پذیر نہیں ہوا تھا۔ طالبان صرف افغانستان میں تھے اور ہمارے دوست تھے۔ گیس کی کمی کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ سی این جی سٹیشنوں پر نہ تو گیس کی بندش کا تصور تھا اور نہ لمبی لمبی قطاروں کا رواج۔ مہنگائی عالمی منڈیوں میں ہونے والے اتار چڑھائو کے اثرات سے بڑھ کر نہ تھی۔ غریب کی زندگی ابھی اس قدر مشکل نہ ہوئی تھی۔ سفید پوشوں کا بھرم ’’غفور الرحیم‘‘ نے قائم رکھا ہوا تھا۔ معیشت کا قدرتی توازن اسحق ڈار جیسے نابغہ روزگار معیشت دانوں کے ہاتھ لگنے سے بچا ہوا تھا اور غریب پاکستانی نام نہاد ماہرینِ معاشیات و اقتصادیات کی دستبرد سے محفوظ تھا۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے پاس معیشت دان تھے۔ ماہرین اقتصادیات تھے۔ وہ ملک کی معاشی اور اقتصادی پالیسیاں وضع کرتے تھے۔ پانچ سالہ منصوبے بناتے تھے۔ دوسرے ممالک وہ منصوبے اپنے ہاں عمل میں لاتے تھے اور ان چوری کے منصوبوں کے طفیل ترقی کرتے تھے۔ تب ملکی معاشی بہتری کا کام ’’اکانومسٹ‘‘ کیا کرتے تھے۔ بعد میں یہ کام بینکاروں‘ اکائونٹنٹوں اور ورلڈ بینک کے ٹائوٹوں نے سنبھال لیا۔ یہ تبدیلی اتنی خاموشی اور مہارت سے کی گئی کہ کسی کو رتی برابر احساس تک نہ ہوا کہ انہیں کہاں سے کہاں لا کر مارا گیا ہے۔ کسی کو پتہ نہ چلا کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہوا ہے۔ انہیں ہمدردوں کے سایہ عاطفت سے نکال کر لٹیروں کے حوالے کردیا گیا ہے اور انہیں آئندہ عوام دوست اور غریب پرور معاشی منصوبوں کے بجائے استحصالی اور امیر پرور معاشی منصوبوں کے خالقوں سے پالا پڑے گا۔ ہمارے ہاں تصور یہ ہے کہ وزیر خزانہ کا بینکار‘ چارٹرڈ اکائونٹنٹ یا کسی عالمی مالیاتی ادارے کا تجربہ کار ہونا کافی ہے۔ لیکن حقیقتاً یہ غلط تصور ہے۔ ماہر معاشیات اور بینکار دو الگ الگ اور مختلف دنیائوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ معیشت دان کا کام ملک کے لیے ایسے معاشی منصوبے بنانا ہے جس سے ملک کی مجموعی معیشت ترقی کرے‘ اقتصادی معاملات بہتری کی طرف گامزن ہوں۔ خط غربت‘ نیچے جائے۔ ان اقتصادی منصوبوں کے طفیل فی کس آمدنی میں اضافہ ہو۔ جی ڈی پی (گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ یعنی کسی ملک کی ایک سال کی مجموعی پیداوار ’’بشمول اشیاء و خدمات Goods and Services‘‘ علاوہ غیر ملکی ادائیگیوں کے) میں اضافہ ہو۔ امیر اور غریب کے درمیان باہمی فرق کم ہو۔ عام آدمی کے لیے زندگی گزارنے کے عوامل کا حصول آسان ہو۔ ریاست کے ہر شہری تک بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے اور معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا جائے۔ یہ کسی معیشت دان کا مطمح نظر بھی ہے اور اس کا کام بھی۔ معیشت دان کا کام مجموعی اقتصادی بہتری ہے جس میں ہر شہری برابر کا حصہ دار ہو اور معاشرے کی مجموعی بہتری میں ریاست کا ہر طبقہ کسی نہ کسی طرح فیض یاب ہونے والوں میں شامل ہو۔ معیشت دان کا بنیادی کام غربت میں کمی اور ٹھوس بنیادوں پر اقتصادی بہتری ہے۔ دوسری طرف بینکار کو غریب سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس کا کام امیروں کی جمع شدہ رقم کو کمیشن پر کسی ایسے شخص کو فراہم کرنا ہے جو مزید امیر ہونے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ اس لین دین کے دوران وہ حاصل شدہ کمیشن میں سے کچھ حصہ‘ رقم کے اصل مالک کو دے کر باقی نفع اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے۔ کسی بینکار کو کبھی کسی غریب سے پالا نہیں پڑتا۔ بقول ایک ماہر معاشیات کے ’’بینک صرف ایسے شخص کو رقم دینے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے جو بینک کو یہ یقین دلا دے کہ اسے اس رقم کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ یعنی بینکار مالی طور پر مستحکم لوگوں کو مزید مستحکم کرنے کے لیے رقم فراہم کرنے والے لوگ ہیں۔ وہ اپنا پیسہ کسی ایسے شخص کو دینے کے قائل نہیں جہاں اس کے ڈوب جانے کا امکان ہو (پاکستان میں سیاسی رشوت والا معاملہ دوسرا ہے)۔ یہی حال اکائونٹنٹ نما ماہرین معاشیات کا ہے۔ بطور اکائونٹنٹ‘ خواہ وہ چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہی کیوں نہ ہوں وہ صرف اپنے پاس موجود رقم کے جمع خرچ پر مامور ہوتے ہیں یا کام چلانے کے لیے بینکوں کے قرضوں کے حصول کے لیے درکار صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ وہ کارپوریٹ سیکٹر کے ملازم ہوتے ہیں اور صرف کارپوریٹ سیکٹر کی بہتری کا کام جانتے ہیں۔ وہ جمع خرچ اور حساب کتاب کا علم رکھتے ہیں۔ غربت میں کمی‘ ضروریات زندگی تک عام آدمی کی رسائی اور مجموعی اقتصادی ترقی نہ تو ان کا دائرہ کار ہے اور نہ ہی انہیں اس سے کوئی غرض ہے۔ اپنے اسحق ڈار اسی قبیل کے آدمی ہیں اور ہم نے انہیں ماہر اقتصادیات سمجھ رکھا ہے۔ وہ ساری زندگی کارپوریٹ سیکٹر کے ملازم رہے ہیں اور ہر صورت میں بینک سے قرضہ حاصل کرنے کی صلاحیت سے مالا مال شخص ہیں۔ یاد رہے کہ بینک سے قرضے کے حصول کی بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ قرضے سے زیادہ قیمت کی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد بینک کے پاس گروی رکھی جائے۔ جناب اسحق ڈار نے آتے ہی اپنی بہترین صلاحیتوں کے طفیل آئی ایم ایف سے قرضہ لے لیا ہے اور پونے اٹھارہ کروڑ عوام کا سارا مستقبل‘ بچی کھچی سہولتیں اور ملکی وسائل گروی رکھ دیے ہیں۔ باقی کام وہ ملکی ادارے بیچ کر چلا لیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ بھائی صاحب تو سب کچھ بیچ باچ کر چار دن اچھے گزار لیں گے آئندہ آنے والے کیا کریں گے؟ ماہرین اقتصادیات کی تیسری قسم عالمی مالیاتی اداروں سے عارضی بنیادوں پر مستعار لیے جانے والے لوگ ہیں۔ ان کا کام صرف گزشتہ قرضوں کی وصولی اور آئندہ کے لیے مزید سنہری جال بچھانا ہے۔ یہ ماہرین اقتصادیات نہیں صرف اور صرف تحصیلدار ریکوری کے فرائض سرانجام دینے پر مامور ہوتے ہیں۔ افسوس ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے بینکاروں‘ اکائونٹنٹوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے ٹائوٹوں میں پھنسے ہوئے مظلوم لوگ ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی نہ تو غریب سے دلچسپی ہے اور نہ ملکی معاشی ترقی سے غرض ہے۔ یہ امیروں کے ایجنٹ ہوتے ہیں جو غریبوں کا خون چوس کر امیروں کی جیبوں میں نوٹ بنا کر ڈالنے کے علاوہ اور کسی کام سے یکسر عاری ہیں۔ یہ لوگ اس کے علاوہ اور کوئی کام جانتے ہی نہیں۔ ملک میں خط غربت اوپر جا رہا ہے۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ ڈالر اوپر سے اوپر اور روپیہ نیچے سے نیچے جا رہا ہے۔ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرول ا ور روز مرہ کی اشیاء کی قیمتیں راکٹ کی رفتار سے اوپر جا رہی ہیں تو اس میں اسحق ڈار کا کیا قصور ہے؟ یہ ان کا کام ہی نہیں ہے۔ انہیں جو کام آتا ہے وہ اسے عمدگی سے انجام دے رہے ہیں۔ قرضے لے رہے ہیں‘ ادارے بیچ رہے ہیں۔ اور وہ بھلا کیا کریں؟ موصوف نے ساری عمر اس کے علاوہ اور سیکھا کیا تھا اور کیا ہی کیا تھا؟ شاباش تو ان کو دیں جنہوں نے ڈار صاحب کو ملکی معیشت کا ٹھیکیدار بنادیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved