ہر انسان بیشتر معاملات میں آرام و سُکون چاہتا ہے۔ آپ بھی ایسا ہی چاہتے ہوں گے۔ ہر معاملے میں سُکون کی خواہش کا حامل ہونا کسی بھی درجے میں کوئی بُری بات نہیں۔ ہر انسان کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ زندگی سُکون سے گزرے، کوئی بے جا پریشانی لاحق نہ ہو، کوئی بے سر و پا قسم کی الجھن ذہن میں خلفشار پیدا نہ کرے۔ ہم زندگی بھر الجھنوں اور پریشانیوں سے لڑتے رہتے ہیں۔ مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ زندگی مزے سے گزرے۔ مزے سے زندگی بسر کرنے کے دو بنیادی طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسان اپنی راہ میں حائل ہونے والی تمام مشکلات کو ہٹانے کی تگ و دَو میں مصروف رہے اور اِس میں کامیابی کے نتیجے میں حاصل ہونے والے سُکون سے مستفید ہو۔ یہ طریقہ انسان سے بہت کچھ چاہتا ہے، محنت بھی اور ایثار بھی۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسان ایسی راہ پر گامزن رہے جس میں کسی رکاوٹ یا تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ طریقہ چونکہ آسان ہے اِس لیے اِسے اپنانے والے واضح یا غالب اکثریت میں ہیں۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ہمیں زندگی کا معیار بلند کرنا ہو اور کسی بھی نوع کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے؟ فطری طور پر اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص اعلیٰ معیار کی زندگی کا خواب دیکھے اور اُس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں اُسے غیر معمولی دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ دنیا کا کاروبار اِسی طور چلتا ہے۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ اگر اعلیٰ معیار کی زندگی خود بخود واقع ہو جایا کرتی تو پھر بات ہی کیا تھی۔ پھر تو ہر انسان مزے سے جی رہا ہوتا۔
زندگی کے تقاضے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ یہ ہم سے بہت کچھ چاہتی ہے۔ عمومی سطح پر زندہ رہنے کے لیے بھی تھوڑی بہت تگ و دَو تو کرنا ہی پڑتی ہے۔ ایسے میں بلند معیار کی زندگی ہم سے خصوصی تگ و دَو کا تقاضا کیوں نہیں کرے گی؟ اس معاملے میں کسی بھی انسان کے لیے قدرت کی طرف سے کوئی رعایت نہیں۔ قابلِ رشک انداز سے جینا کسی کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ جنہیں ہم بہت سُکون سے زندگی بسر کرتا ہوا دیکھتے ہیں وہ اِس پُرسکون زندگی کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگا چکے ہوتے ہیں۔ زندگی کو بہت آسانی سے بھی بسر کیا جاسکتا ہے۔ ہم اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو قدم قدم پر آسانیاں تلاش کرتے ہیں اور اِس تلاش میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔ طریقہ بہت آسان ہے۔ زندگی کی ایک خاص (نچلی) سطح طے کرلیجیے، اُس سے زیادہ کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیجیے اور پھر سُکون سے جیتے رہیے۔ ہر وہ انسان سُکون سے جیتا ہے جو کچھ زیادہ نہیں کرنا چاہتا۔ جب ایک بار طے کرلیا کہ ایک خاص حد سے آگے جانا ہی نہیں تو پھر کیسی الجھن اور کہاں کی پریشانی؟ ساری الجھنیں اور تمام پریشانیاں تو اُن کے لیے ہیں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، خود کو منوانا چاہتے ہیں۔ جب ایک بار طے کرلیا کہ کچھ کرنا ہی نہیں، زیادہ آگے جانا ہی نہیں تو پھر کوئی بھی پریشانی قریب کیوں آنے لگی؟
کمفرٹ زون کی زندگی ہر انسان کا خواب ہے۔ یہ بھلا کسے اچھی نہیں لگتی؟ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کی زندگی میں سُکون ہی سُکون ہو۔ سُکون سے جینے کے لیے انسان سو جتن کرتا ہے۔ لوگ دن رات دولت کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اپنا سکون غارت کرتے ہیں تو صرف 'سکون‘ کے لیے! دنیا میں ہر طرف ایک دوڑ سی لگی ہے۔ یہ دوڑ زیادہ سے زیادہ دولت اور بہتر سماجی حیثیت کے لیے ہے۔ لوگ آسانیوں کے لیے مشکلات سے لڑتے رہتے ہیں۔ ڈھنگ سے جینے کی معقول کوشش ایسی ہی ہوتی ہے۔ بہت سی مشکلات کو راستے ہٹانے کے بعد ہی انسان آسانی تک پہنچتا ہے۔ اِس طور ممکن بنائی جانے والی آسانی کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ جس نے زندگی بھر تگ و دَو کی ہو، مشکلات سے نبرد آزما ہوا ہو، بحرانوں کو پچھاڑا ہو اُس سے پوچھئے کہ جینے میں کیا لطف ہے۔ وہ بتائے گا کہ زندگی کس درجے کی نعمت ہے۔
ہر انسان اپنے لیے کمفرٹ زون چاہتا ہے۔ جن معاملات میں وہ آسانی محسوس کرتا ہے اُن پر زیادہ متوجہ ہوتا ہے۔ یہ معقول رویہ ہے مگر منطقی حدود میں رہنے کی حد تک۔ جب انسان کمفرٹ زون کا عادی ہو جاتا ہے تب مشکلات کے تذکرے سے بھی بِدکتا ہے۔ یہ فطری امر تو ہے مگر غلط بھی ہے۔ قدرت نے ہمیں اِس لیے خلق نہیں کیا کہ ہر معاملے میں اپنے کمفرٹ زون تک محدود رہیں۔ زندگی اصلاً تگ و دَو کے لیے ہے۔ اگر غار کے زمانے کے انسانوں نے غار کی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہوتا تو آج بھی ہم غار ہی میں جی رہے ہوتے۔ کمفرٹ زون میں رہنا انسان کے لیے بہت سُکون بخش ہوتا ہے۔ دل و دماغ معقول حد تک پُرسکون ہوں تو انسان کچھ نیا سوچنے اور کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ کمفرٹ زون اگر اِس مقصد کو پورا کرتا ہو تو ٹھیک وگرنہ معاملات خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ ہم اپنے ماحول کا بغور جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بیشتر کا یہ حال ہے کہ کسی نہ کسی حوالے سے طے شدہ زندگی بسر کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور اِس کے عادی ہی رہنا چاہتے ہیں۔ کمفرٹ زون سے باہر قدم رکھنا اُنہیں زیادہ پسند نہیں ہوتا۔
کمفرٹ زون میں رہنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان مشکلات سے بھاگتا ہے۔ کسی بھی بحرانی کیفیت میں اُس کا رِسپانس نیم دِلانہ ہوتا ہے جبکہ ہر بحرانی کیفیت انسان سے معقول یا موزوں ترین رِسپانس چاہتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ سُکون یقینی بنائے رکھنے کی خواہش اِنسان کو ہر بحرانی کیفیت سے دور رہنے پر اُکساتی ہے۔ ایسا کرنے میں بظاہر کوئی الجھن نہیں مگر مشکل یہ ہے کہ کوئی کوئی بحران ایسا بھی ہوتا ہے جو ہم سے معقول رِسپانس چاہتا ہے۔ ہم اُس لمحے کی کیفیت سے نظر نہیں چُراسکتے۔ ہر بحران اِس لیے نہیں ہوتا کہ اُس سے نظر چُراکر راستہ بدل لیا جائے۔ جو ناموافق تبدیلی ہماری زندگی سے تعلق رکھتی ہو وہ ہم سے رِسپانس چاہتی ہے تاکہ ہماری زندگی میں کوئی زبردستی کی الجھن واقع نہ ہو۔ کمفرٹ زون میں رہنے والے جب کسی ناگزیر بحران کے حوالے سے بھی معقول رِسپانس نہیں دیتے تب سُکون کی طلب پریشانی کا باعث بن جاتی ہے۔ کمفرٹ زون میں رہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ہم کسی بھی مشکل صورتِ حال یا بحرانی کیفیت کو دیکھنا بھی گوارا نہ کریں۔
جب کوئی انسان اپنے لیے کوئی معیارِ زندگی طے کرلیتا ہے اور باقی زندگی اُسے چمٹا رہنا چاہتا ہے تب زندگی محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔ ایسے میں انسان اپنی صلاحیت و سکت کو معقول انداز سے بروئے کار لانے کے قابل بھی نہیں ہو پاتا۔ کمفرٹ زون میں رہنے کا سب سے بڑا نقصان یہی تو ہے۔ آرام طلبی انسان کو اپنی قابلیت، تجربے اور صلاحیت سے مطابقت رکھنے والی تگ و دَو سے روکتی ہے۔ ہم زندگی بھر کمفرٹ زون تک محدود رہنے کے باعث ایسا بہت کچھ نہیں کر پاتے جو کیا جاسکتا ہے اور بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ دنیوی زندگی انتہائی نوعیت کی مسابقت سے عبارت ہے۔ قدم قدم پر لڑنا ہے۔ لڑے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ ہاں‘ اگر کوئی سُکون کو ترجیح دیتا ہے تو اُسے بہتر یہ محسوس ہوتا ہے کہ خود کو مسابقت سے الگ کرلے۔ ایسی صورت میں کوئی چیلنج درپیش نہیں ہوتا، کوئی مسئلہ حل نہیں کرنا ہوتا۔ جب کوئی مسئلہ حل کرنا ہی نہ ہو تو کیسی الجھن اور کہاں کی پریشانی؟ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسی زندگی کسی کام کی ہوتی ہے، اِس میں کشش ہوتی ہے، لطف ہوتا ہے۔ اِن سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔
ہوسکتا ہے کہ آپ بھی کمفرٹ زون میں رہنا پسند کرتے ہوں۔ یہ کوئی ایسی بُری بات نہیں مگر اِس بات کا خیال رکھیے کہ ہر معاملے میں کمفرٹ زون تک محدود رہنا کسی بھی درجے میں معقول اور پسندیدہ امر نہیں۔ بلند تر معیار کی زندگی اُسی وقت ممکن ہو پاتی ہے جب ہم کچھ زیادہ کرنے کا طے کرتے ہیں۔ اِس کے لیے کمفرٹ زون سے نکلنا پڑتا ہے، صلاحیت و سکت کو بطریقِ احسن بہ رُوئے کار لانے کا ذہن بنانا پڑتا ہے۔ زندگی کا حق ادا کرنے کی راہ پر گامزن ہونے کی معقول ترین صورت یہی ہے۔ کمفرٹ زون زندگی کا حتمی مقصد نہیں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved