کچھ نوجوان اپنے بیگ تھامے میانوالی کی ایک سڑک کے کنارے فریاد طلب نظروں سے ہر آنے جانے والے کو دیکھ رہے تھے۔ پوچھنے پر بتایا کہ جس ہاسٹل میں وہ رہتے تھے‘ اسے نجانے کس وجہ سے سیل کر دیا گیا ہے جس کے بعد وہاں رہنے والے تمام افراد بے ٹھکانہ ہو گئے ہیں۔
بلوچستان کے دور دراز اور انتہائی پسماندہ پہاڑی علاقے میں رہنے والے غریب اسماعیل خان کی دو بیٹیوں میں کینسر کی تشخیص ہوئی۔ ان میں سے ایک تو انتہائی تکلیف کی حالت میں کچھ عرصہ قبل انتقال کر گئی۔ اس کے عزیز جب جنازے میں شرکت اور میت کو دفنانے کیلئے آئے تو ان میں سے کسی نے پوچھا کہ بیٹی کو لے کر لاہور یا پشاور کے کینسر ہسپتال کیوں نہیں گئے؟ اسماعیل خان کو تو پتا ہی نہیں تھا کہ ایسا کوئی ہسپتال بھی ہے۔ جب دوسری بیٹی کے سر میں بھی مسلسل تکلیف رہنے لگی تو اس نے بچی کیساتھ فوری طور پر ہسپتال جانے کا سوچا۔ لاہور چونکہ اس کیلئے بہت دور تھا، اسلئے کسی نے بتایا کہ دسمبر میں کراچی میں بھی ایک کینسر ہسپتال مکمل ہونے والا ہے، ابھی ہسپتال کا کام تو جاری ہے مگر چند ماہ ہوئے واک اِن کلینک کو فعال کر دیا گیا ہے‘ اگر لاہور نہیں جا سکتے تو بچی کو لے کر وہاں چلے جائو۔ دو روز کا سفر کرنے کے بعد جب وہ کراچی پہنچا تو اسے پتا چلا کہ اس ہسپتال کا کام کسی وجہ سے التوا کا شکار ہے‘ دسمبر میں اس کا افتتاح نہ ہو سکے گا۔ بلوچستان کا اسماعیل خان اب کبھی لاہور تو کبھی پشاور کی جانب دیکھتا ہے کہ اتنی دور جا کر کون بیٹی کا علاج کرائے۔ سندھ اور بلوچستان کے کینسر کے ہزاروں مریض‘ جو دسمبر کی راہ دیکھ رہے تھے‘ اب کبھی اس ہسپتال کی ویرانی کو دیکھتے ہیں تو کبھی کینسر جیسے موذی مرض کو جو روز بروز پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہسپتال کی راہ میں نجانے کیا رکاوٹیں کھڑی ہو گئی ہیں کہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔
کوئی چار برس ہوئے‘ چونیاں کے قریب اینٹوں کے بھٹوں کے خلاف چائلڈ لیبر کی خلاف ورزی پر کارروائی کرتے ہوئے حکومت کے ایک سپیشل سکواڈ نے چھاپہ مارا اور کچھ بچوں کو بھٹوں سے برآمد کیا۔ میں نے اپنے ایک مضمون میں ایک یتیم بچے‘ جو آٹھویں جماعت سے سکول چھوڑ چکا تھا‘ کے متعلق لکھا تو ایک نیک اور خدا ترس بندے نے اس کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کی ہامی بھر لی۔ یہ سلسلہ ان صاحب کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ تک چلتا رہا۔ انٹر کرنے کے بعد چند احباب کی کوششوں سے اس کی ملازمت کا بندوبست ہو گیا اور اب یہ نوجوان اپنے گھر کا کفیل بن چکا ہے۔ یہ وہ صدقہ جاریہ ہے جو نجانے کتنی دہائیوں تک باقی رہے۔یہ کہانی مجھے اس لیے یاد آ گئی کہ کسی دوست کے ساتھ اس کا زیر تعمیر گھر دیکھنے کیلئے جانا ہوا۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ کام ختم ہونے کے بعد مزدور اپنے ہاتھ منہ دھو کر جا رہے تھے۔ جب ان میں سے ایک نوجوان لڑکا اپنا تھیلا اٹھا کر چلنے لگا تو اس کے تھیلے سے ایک کتاب نیچے گر گئی۔ یہ تھرڈ ایئر کی اکنامکس سے متعلقہ کتاب تھی۔ اس کے جانے کے بعد ٹھیکیدار نے بتایا کہ یہ لڑکا مہینے میں کچھ دن یہاں مزدوری کیلئے آتا ہے اور باقی دن کالج جاتا ہے۔ یہ دوسرے مزدوروں کی طرح کام چور نہیں۔ جب تک اسے کہتا ہوں‘ یہ کام کرتا رہتا ہے۔ کچھ مزید تفصیلات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ غریب والدین کے چھ بچوں میں یہ سب سے بڑا ہے، پڑھنے کا شوق ہے مگر گھر کے حالات یہ ''عیاشی‘‘ افورڈ نہیں کر سکتے۔ آج کل چونکہ سب سے آسان روزگار گھروں کی تعمیر سے منسلک ہے اس لیے یہ سارا دن اینٹیں ڈھوتے، ایک منزل سے دوسری منزل تک پہنچا کر اپنے گھر میں معاون ثابت ہو رہا اور اپنے تعلیمی اخراجات پورے کر رہا ہے۔
اب ذرا دو معاشروں کے چند واقعات کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ اس فرق کی نشاندہی ہو سکے جو کسی بھی معاشرے میں بنیادی تبدیلی کا محرک بنتا ہے۔ پاکستان کے ایک صنعتکار خاندان نے لندن کے پارک پلیس میں واقع 60 کمروں پر مشتمل ایک ہوٹل تقریباً ساٹھ ملین پونڈ میں خریدا۔ برطانیہ کی ایک پراپرٹی کمپنی کی وساطت سے ہوئے اس سودے کے مطابق ساٹھ کمروں پر مشتمل سینٹرل لندن کے اس عالیشان ہوٹل کے ہر کمرے کی قیمت تقریباً ایک ملین پونڈ ہے۔ پاکستان کی اس صنعت کار فیملی کے خریدے گئے اس ساٹھ کمروں کے اس ہوٹل کے ایک کمرے کی قیمت‘ دس برس پہلے کے پاکستانی روپوں میں 13 کروڑ چالیس لاکھ روپے بنتی تھی۔ اسے اس وقت کی ایک مہنگی ترین ڈیل بھی قرار دیا گیا۔ اس کے مقابلے میں ستمبر 2009ء میں لندن کے سٹافورڈ ہوٹل کی فروخت کے وقت اس کے ہر کمرے کی قیمت کا تخمینہ سات لاکھ چالیس ہزار پونڈ لگایا گیا تھا۔
ہمارے مشرقی ہمسایہ ملک بھارت میں ایک مشہور صنعتکار فیملی کے عظیم ہاشم پریم جی نے اپنے ملک کے غریب اور مستحق بچوں کو اعلیٰ تعلیم مفت دینے کیلئے ''ایجوکیشن فائونڈیشن‘‘ قائم کی تھی اور اس کے لیے سات سو کروڑ روپے کی لاگت سے سکولوں اور کالجوں کا ایک نیٹ ورک قائم کیا تھا۔ ہر سکول میں بہترین اور پُرکشش تنخواہوں پر پچاس سے ساٹھ اعلیٰ تعلیم یافتہ مرد و خواتین پروفیسر بھرتی کیے گئے اور غریبوں کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے کام کا آغاز ہوا۔ اب اس تعلیمی فائونڈیشن کیلئے مزید کئی سو کروڑ روپوں کا عطیہ دیا گیا ہے تاکہ بھارت کی نئی نسل بھی ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو میسر دورِ جدید کی تمام تعلیمی سہولتوں سے فیض یاب ہو سکے۔ اس سلسلے میں ان کی قائم کردہ تعلیمی فائونڈیشن کی طرف سے اس بات کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے کہ ان کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مذہب، ذات، پات، زبان یا کسی بھی دوسری وجہ سے کوئی تفریق نہ کی جائے اور سب کو ایک ہی نظر اور برابری کی بنیاد پر مراعات دی جائیں۔ سب سے یکساں سلوک کیا جائے۔ سکول میں سب کا لباس ایک ہی ہو، سب کے جوتے ایک جیسے ہوں۔ سب کو ہاسٹل میں یکساں سہولتیں میسر ہوں تاکہ امیر و غریب کا فرق مٹ سکے۔ یہ سب سہولتیں اور مراعات تعلیمی فائونڈیشن ان تمام زیر تعلیم طلبہ کو مفت مہیا کر رہی ہے جو پڑھنے لکھنے کا ذوق و شوق رکھتے ہیں مگر غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ عظیم پریم جی اپنی کمپنی‘ جس کی نیٹ ورتھ ساڑھے گیارہ ارب ڈالر ہے‘ میں اپنے 34 فیصد حصص پہلے ہی عطیہ کر چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اب تک وہ جتنی رقم عطیہ کر چکے ہیں یہ 20 ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے۔ بھارتی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ انہیں معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں ٹاٹا‘ برلا اور پریم جی جیسے مخیر صنعت کاروں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ عظیم پریم جی کی فائونڈیشن کے سبب کرناٹک‘ اتراکھنڈ‘ راجستھان‘ چھتیس گڑھ‘ تلنگانہ اور مدھیہ پردیش کے سرکاری سکول اب نجی اداروں سے بڑھ کر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تعلیمی منصوبہ 2014ء میں شروع ہوا تھا اور اب 150 سے زائد تنظیمیں اور ادارے اس نیٹ ورک کے تحت پورے بھارت میں تعلیم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔
ایک کروڑ پتی عیاش باپ اپنے سے تیس برس کم عمر لڑکی سے شادی کرنے کے بعد کینیڈا جا چکا ہے لیکن جاتے ہوئے پہلی بیوی اور اس کے پانچ بچوں کی چھت تک چھین لی اور ان کے زیر استعمال گھر کو بھی تمام سامان سمیت سات کروڑ میں بیچ دیا۔ سن کر شاید یقین نہ آئے مگر حلفاً کہتا ہوں کہ اس ظالم نے گھر کا سامان تک بیچ ڈالا‘ بچوں کے پاس سونے کیلئے ایک چارپائی تو دور‘ کوئی چٹائی تک نہیں چھوڑی۔ ہزاورں لوگ اس کے گواہ ہیں۔ اس گھر کا سب سے بڑا بیٹا بھوک اور فاقوں سے بچنے کیلئے ر وزگار کی تلاش میں نکلا تو بدقسمتی نے دوسرا وار کیا۔ وہ ایک ایسے حادثے کا شکار ہو گیا کہ جس سے اس کی کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی اور چلنا پھرنا تو دور‘ وہ کھڑے ہونے سے بھی قاصر ہو گیا۔ اس کی کہانی کا پتا چلا تو اپنے اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے ہڈیوں کے علاج کیلئے لاہور کے ایک ہسپتال میں داخل کرا دیا۔ اللہ نے دو دروازے سب کیلئے کھول رکھے ہیں۔ ایک دروازہ‘ جو اس کے باپ کا طرزِ عمل تھا‘ اسے جو بھی نام دیں مگر دوسرا دروازہ‘ جس کا راستہ خلقِ خدا کی خدمت سے ہو کر جاتا ہے‘ غالباً اسے ہی بہشتی دروازہ کہتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved