اسرائیل حماس تنازع میں اقوامِ متحدہ کہاں کھڑا ہے؟ یہ ایسا اہم سوال ہے جو ہر جگہ اٹھایا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر اقوامِ متحدہ دنیا کے اس سات دہائیوں پرانے اور شدید ترین تصادم میں بھی کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا تو پھر اس ادارے سے کسی سنجیدہ تنازعے کے حل کی توقع کیوں رکھی جا رہی ہے۔ خصوصاً کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے جو لوگ اقوامِ متحدہ سے آس لگائے بیٹھے ہیں‘ ان کیلئے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ جو لوگ اقوامِ متحدہ کی پرانی قرار دادوں میں مسئلہ کشمیر کا حل دیکھتے ہیں‘ ان کو اس صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ سے اسرائیل سخت نالاں اور ناراض ہے۔ فلسطینی اور دوسرے عام عرب لوگوں کو اس عالمی ادارے پر سخت غصہ اور شکوہ ہے۔ فلسطینی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ادارہ ان کی داد رسی کیلئے کچھ نہیں کر رہا ہے اور اسرائیلوں کو شکایت ہے کہ اس عالمی ادارے کو ان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف عالمی برادری اور رائے عامہ بھی اقوامِ متحدہ سے مایوس ہے اور اس کو بحیثیت مجموعی ایک ایسا عالمی ادارہ سمجھتی ہے جو اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اسرائیل فلسطین کے درمیان موجودہ تصادم کے تیسرے ہفتے اسرائیل کے ایک اخبار اسرائیل ٹائمز نے لکھا کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2022ء میں صرف اسرائیل کے خلاف جتنی تنقیدی قراردادیں پاس کی ہیں‘ وہ دنیا کے تمام ممالک کے خلاف پاس ہونے والی کل قرار دادوں سے زیادہ ہیں۔ اسرائیل کے حامی مانیٹرنگ گروپ یو این واچ کے ایک جائزے کے مطابق‘ جنرل اسمبلی نے پچھلے سال 15اسرائیل مخالف قراردادوں کی منظوری دی تھی جبکہ دیگر تمام ممالک پر تنقید کرنے والی کُل 13قراردادیں تھیں۔ یوکرین حملے کی مذمت کرنے والی چھ قرار دادوں کا مرکز روس تھا۔ شمالی کوریا‘ افغانستان‘ میانمار‘ شام‘ ایران اور امریکہ کے خلاف ایک ایک قرارداد پاس ہوئی۔سعودی عرب‘ چین‘ لبنان‘ ترکی‘ وینز ویلا اور قطر‘ جہاں انسانی حقوق کا ریکارڈ تسلی بخش نہیں ہے یا وہ علاقائی تنازعات میں اُلجھے ہوئے ہیں‘ کے خلاف کوئی تنقیدی قرارداد نہیں آئی۔ تھوڑا سا اور پیچھے جاکر جائزہ لیں تو 2015ء سے لے کر اب تک اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے خلاف 140قراردادیں منظور کی ہیں‘ جن میں بنیادی طور پر فلسطینیوں کے ساتھ اس کے سلوک‘ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات اور دیگر غلط اقدام پر تنقید کی گئی ہے۔ یو این واچ نے کہا کہ اسی عرصے کے دوران اس ادارے نے دنیا کے دیگر تمام ممالک کے خلاف کل ملا کر 68قراردادیں منظور کی ہیں۔ 2013ء تک اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے 45قراردادوں میں اسرائیل کی بطور ریاست مذمت کی گئی۔ 2006ء میں انسانی حقوق کی کونسل کی تشکیل کے بعد سے اس نے اسرائیل کی مذمت کرنے والی تقریباً اتنی ہی قراردادیں پیش کی ہیں جتنی باقی دنیا کے مشترکہ مسائل پر ہیں۔
اگر تاریخ میں اور زیادہ پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو 1967ء سے 1989ء تک اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے 131 قراردادیں منظور کیں جن میں عرب اسرائیل تنازع کو براہِ راست فوکس کیا گیا۔ سلامتی کونسل کی ابتدائی قراردادوں میں اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے باب VII کو براہِ راست شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس انہوں نے خطرے‘ امن کی خلاف ورزی یا جارحیت کے عمل کا واضح تعین کیا اور آرٹیکل 39یا 40کے مطابق کارروائی کا حکم دیا۔ سکیورٹی کونسل کی قرارداد 54نے طے کیا کہ چارٹر کے آرٹیکل 39کے مفہوم کے تحت امن کے لیے خطرہ موجود ہے‘ اس لیے اس نے جنگ بندی کی ضرورت کا اعادہ کیا اور چارٹر کے آرٹیکل 40کے مطابق جنگ بندی کا حکم دیا۔ لیکن دوسری طرف روایتی طور پر شروع دن سے اسرائیل کے خلاف پیش ہونے والی قراردادوں کو امریکہ کی طرف سے ویٹو کرنے کا ایک طویل ریکارڈ ہے۔ امریکہ کا یہ عمل عالمی برادری میں ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہا اور عالمی برادری نے مختلف انداز میں اس کے خلاف ردِعمل دیا۔ بیشتر مسلم ممالک میں امریکہ کے خلاف پائی جانے والی ایک خاص قسم کی مخاصمت اور نفرت کی دیگر کئی وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ امریکہ کی اسرائیل کے بارے میں یہ پالیسی ہے۔ خود اقوامِ متحدہ کے اندر اس امریکی پالیسی کے ردِعمل میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے امریکہ کے خلاف متعدد قراردادیں پیش کی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے امریکہ کے ساتھ تزویراتی تعلقات‘ ایک سپر پاور اور ویٹو پاور کے حامل سلامتی کونسل کے مستقل رکن کو جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں اور طریقوں پر عمل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اسرائیل فلسطین تنازع کو لے کر جب جنرل اسمبلی کا نواں ہنگامی اجلاس سکیورٹی کونسل کی درخواست پر بلایا گیا تو امریکہ نے اسرائیل کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی تمام کوششوں کو روک دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب نیگرو پونٹے ڈاکٹرائن سامنے آئی۔ امریکہ نے اقوامِ متحدہ کے اداروں کی جانب سے مسلسل تنقید کا جواب دیتے ہوئے نیگرو پونٹے نظریے کو اپنایا جس میں واضح کیا گیا تھا کہ امریکہ‘ اسرائیل پر تنقید کرنے والی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی کسی بھی ایسی قرار داد کی مخالفت کرے گا جس میں حماس کی عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کی بھی مذمت نہ کی گئی ہو۔ امریکہ کی اس پالیسی اور نظریے کو سمجھنے کیلئے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔
جولائی 2002ء کو اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے مندوب جان نیگرو پونٹے نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے بند اجلاس کے دوران اسرائیل عرب پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ‘ اسرائیل اور فلسطین تنازع کے بارے میں سلامتی کونسل کی ان قرار دادوں کی مخالفت کرے گا جو اسرائیل کی مذمت کرتی ہیں لیکن عسکریت پسندوں کی مذمت نہیں کرتیں۔ عسکریت پسند گروہوں کی مذمت‘ اسرائیل کی مذمت کے ساتھ لازم ہے۔ امریکہ کی اسرائیل عرب پالیسی کا یہ اصول نیگرو پونٹے نظریے کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسے امریکی حکام نے اسرائیل کی مذمت کرنے والی ان قراردادوں کے جواب کے طور پر استعمال کیا ہے جو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور ہوتی ہیں۔ اب چونکہ یہ ساری گفتگو بند اجلاس میں ہوئی تھی‘ اس لیے اس پالیسی بیان کا باضابطہ ٹرانسکرپٹ جاری نہیں کیا گیا لیکن نیگرو پونٹے کے بیان کا خلاصہ دنیا کے سامنے آگیا۔
نیگرو پونٹے کے بیان کے وسیع پیمانے پر رپورٹ کردہ خلاصے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف کوئی بھی ایسی قرارداد‘ جس میں بیک وقت دہشت گردی کی مذمت نہ کی گئی ہو‘ اسے امریکہ ویٹو کرے گا۔ اس لیے کسی قرار داد کو آگے بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ اس میں درج ذیل چار عناصر موجود ہوں۔ اول: قرارداد میں ہر قسم کی دہشت گردی اور دہشت گردی پر اکسانے کی سخت اور واضح مذمت کی گئی ہو۔ دوم: الاقصیٰ شہدا بریگیڈ‘ اسلامی جہاد اور حماس کے نام سے وہ تمام گروہ جنہوں نے اسرائیل پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے‘ ان کی مذمت کی گئی ہو۔ سوم: بحران کے سیاسی حل کیلئے تمام جماعتوں سے اپیل کی گئی ہو۔ چہارم: ستمبر 2000ء میں دوسری انتفادہ کے آغاز سے قبل اسرائیلی مسلح افواج کی ان کی اصل پوزیشنوں پر واپسی کے مطالبے کیلئے امن اور سلامتی کی صورتحال میں بہتری کا مطالبہ کیا گیا ہو۔ امریکہ اب تک نیگرو پونٹے ڈاکٹرائن کو عرب اسرائیل تنازعے پر اپنا رہنما اصول تسلیم کرتے ہوئے اپنی بیان کردہ پالیسی پر سختی سے کاربند ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان تازہ ترین تنازع پر امریکہ کی پوزیشن اسی پالیسی کا شاخسانہ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved