ہمارا تعلیمی نظام کیسے طالب علم تیار کر رہا ہے‘ یہ جاننے کیلئے کسی بھی ماسٹرز کرنے والے نئے طالب علم کا انٹرویو کر لیں‘ آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ انٹرویو تو بہت بعد کی بات ہے‘ نوکری کیلئے جو درخواست یعنی سی وی بنایا جاتا ہے‘ اسے دیکھ کر ہی اندازہ ہو جائے گا کہ امیدوار روزگار کے حصول کیلئے کس قدر سنجیدہ ہے۔ ضروری نہیں کہ چار جی پی اے لینے والا ہی اچھا سی وی بنانے کا ہنر رکھتا ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ دو‘ اڑھائی جی پی اے والا بہتر سی وی نہ بنا پائے۔ یہ تو اپنی اپنی تیاری پر منحصر ہے کہ کون مارکیٹ کی کتنی خبر رکھتا ہے اور ان عوامل اور ضروریات سے کس قدر آگاہ ہے جو کسی نوکری کے حصول میں کارآمد سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کیریئر کا انتخاب شوق سے نہیں بلکہ اس کی مانگ کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ چلیں‘ یہ اس لحاظ سے تو ٹھیک ہے کہ جو وقت چل رہا ہو اس میں مارکیٹ کی طلب و رسد کا خیال کرتے ہوئے فیلڈ منتخب کی جانی چاہیے لیکن تھوڑا بہت بندے کا خود بھی ذوق و شوق یعنی انٹرسٹ ہونا چاہیے‘ تبھی وہ اس میدان میں آگے جا سکے گا۔ ہمارے ہاں جیسے تیسے کرکے بچے کسی مضمون میں ماسٹرز کر لیتے ہیں تو ان کی فوری تمنا ہوتی ہے وہ جلد از جلد کسی اچھی جگہ پر سیٹ ہو جائیں اور انہیں معقول مشاہرہ مل سکے۔ تاہم تعلیم اور نوکری کے حصول کے درمیان کئی ایسے پل یا گھاٹیاں ہوتی ہیں جنہیں بہرحال طالب علم کو عبور کرنا ہی ہوتا ہے۔
کسی بھی جگہ نوکری کیلئے سب سے پہلے جو چیز درکار ہے وہ سی وی ہے۔ یہ ایک یا دو صفحات کا بائیو ڈیٹا ہوتا ہے جس میں درخواست گزار کی تعلیم‘ تجربہ اور کچھ بنیادی ذاتی معلومات لکھی ہوتی ہیں۔ سی وی کسی بھی درخواست گزار کا پہلا امپریشن ہوتا ہے اور یہی بسا اوقات آخری امپریشن بھی بن جاتا ہے کیونکہ سی ویز کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جنہیں ایک نظر میں دیکھنے سے ہیومن ریسورس آفیسر کو معلوم ہو جاتا ہے کہ درخواست گزار کتنا قابل ہے اور اسے بلانا چاہیے یا نہیں۔ آج کل آبادی بڑھنے کی وجہ سے مقابلہ بہت بڑھ گیا ہے۔ پہلے وقتوں میں ایک نوکری کیلئے اگر پچاس سی وی آتے تھے تو اب پانچ پانچ ہزار آ رہے ہیں اور ایچ آر آفیسر سبھی کو انٹرویو کیلئے شارٹ لسٹ نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے پاس اتنے انٹرویوز کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔ اس کیلئے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ صرف چند لوگوں کو شارٹ لسٹ کرتا ہے اور ان میں سے ہی بہترین امیدوار کو انٹرویو کے بعد منتخب کر لیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میں بڑے بڑے کامیاب اور اعلیٰ نمبر لینے والے طالب علم ناکام ہو جاتے ہیں اور بہت سے اوسط نتائج کے حامل امیدوار با آسانی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس میں قصور اگرچہ کسی حد تک تعلیمی اداروں یا اساتذہ کا بھی ہے؛ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ آج کے دور میں اگر کوئی طالب علم اس قسم کی چیزوں سے ناواقف ہے تو اس کا اپنا قصور ستر‘ اسی فیصد ہے‘ بقیہ کیلئے ہم تعلیمی اداروں اور اساتذہ کا قصور وار ٹھہرا سکتے ہیں۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ جب نصاب میں ہی سب کچھ لکھ دیا جاتا اور ہر چیز بچوں کو رٹا رٹا کر سمجھائی جاتی کہ زندگی میں فلاں موقع پر یہ کرنا ہے‘ فلاں پر وہ کرنا ہے۔ اب تو مصنوعی ذہانت کا دور ہے اور ہر چیز دیکھی یا آزمائی بعد میں جاتی ہے‘ گوگل پہلے کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ لوگ تو اب ڈاکٹروں سے ادویات لیتے وقت بھی پہلے گوگل کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اسی فارمولے کی کوئی دوا کوئی دوسری کمپنی کم قیمت میں فروخت کر رہی ہے تو اسے خرید لیتے ہیں۔ اس لیے اب یہ کہنا کہ مجھے فلاں چیز کا علم نہیں تھا یا مجھے یہ آتا نہیں ہے‘ اس قسم کے عذر تراشنے کا اب کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ سی وی نقل کر کے بناتے ہیں۔ ایسے ہی ایک امیدوار کو جب انٹرویو کیلئے بلایا گیا تو اسے قوی امید تھی کہ چونکہ اس نے زبردست سی وی بنایا ہے‘ اسی لیے اسے انٹرویو کیلئے بلایا گیا ہے۔ وہ بڑے مزے سے ٹائی لگا کر انٹرویو دینے چلا گیا۔ پینل پر تین لوگ موجود تھے۔ ان میں سے ایک نے امیدوار کا سی وی اپنے ہاتھ میں پکڑا اور امیدوار سے پوچھا: یہ جو آپ نے سی وی پر سب سے اوپر پہلی لائن لکھی ہے‘ اس میں انگریزی کا جو فلاں لفظ لکھا ہے اس کے معنی تو بتائیے۔ امیدوار کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس سے یہ سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ وہ تو سمجھا تھا کہ زیادہ سے زیادہ مجھ سے میری تعلیم کے بارے میں پوچھیں گے‘ یا پچھلے تجربے کے حوالے سے کچھ بات ہو گی مگر سی وی کا ابتدائیہ جو عمومی طور پر امیدوار کے فیوچر پلان یا اس کے کیریئر گولز سے متعلق ہوتی ہے‘ وہ تو اس نے کسی اور سی وی سے کاپی کیا تھا اور یہ تک دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی کہ اس میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں‘ ان کا مطلب کیا ہے یا جو جملہ لکھا گیا ہے‘ اس میں وہ کہنا کیا چاہتا ہے‘ اس بارے میں اگر کسی نے اس سے سوال پوچھ لیا تو وہ کیا جواب دے گا۔
درحقیقت جب آپ اپنا سی وی نوکری کے حصول کیلئے دے رہے ہوتے ہیں تو وہ سارے کا سارا آپ کا اپنا ہونا چاہیے‘ وہ آپ کی پراپرٹی ہوتا ہے۔ اس میں آپ نے کہیں ایک نکتہ بھی لگایا ہے تو اس کے بارے میں بھی آپ سے پوچھا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کا سی وی اسی پہلی لائن کی بنا پر آپ کو انٹرویو کیلئے بلائے جانے کا سبب بنا ہو۔ لیکن یہی ایک لائن اور ایک لفظ نوکری کیلئے ریجیکٹ ہونے کی وجہ بھی بن سکتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ امیدوار نے یہ سب کچھ سوچ سمجھ کر نہ لکھا ہو یا وہ اسے اپنے لفظوں میں بھی لکھ سکتا تھا لیکن ہوبہو لکھ کر پھنس گیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی دوسرے امیدوار نے بھی یہی سی وی پیٹرن نقل کیا ہو اور انٹرویو کرنے والا پینل اسی بات کا پتا لگانا چاہتا ہو کہ اوریجنل کون ہے اور چھاپا کس نے مارا ہے۔ ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیاں بعض اوقات بڑے بلنڈرز کی وجہ بن جاتی ہیں اور امیدوار کہتے ہیں کہ ہم نے نوکری کیلئے درجنوں جگہ درخواستیں دی ہیں لیکن ہمیں بلایا ہی نہیں جاتا۔ اگر سی وی اس طرح کے ہوں گے تو کون بلائے گا انٹرویو کیلئے۔ ایسے امیدوار امتحانات میں بھی بادشاہ ہوتے ہیں اور اپنا پیپر مکمل کرنے کے بعد دوبارہ پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ یہی کام وہ آگے چل کر عملی زندگی میں کرتے ہیں اور اسی وجہ سے مار کھاتے ہیں۔
بہت سے نوجوان تو ایسے ہوتے ہیں جنہیں سی وی بنانا ہی نہیں آتا اور وہ کسی دوست سے سی وی لے کر اس پر اپنا ڈیٹا تھوپ دیتے ہیں۔ ایسا کرنے والے اکثر کئی جگہوں پر ضروری تبدیلیاں کرنا بھول جاتے ہیں اور یوں سی وی چوں چوں کا مربہ بن جاتا ہے اور ہیومن ریسورس آفیسر بھی پریشان ہو جاتا ہے کہ یہ بندہ چاہتا کیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں نصاب پر تو بہت زور دیا جاتا ہے لیکن اس طرح عملی زندگی کیلئے تیاری نہیں کرائی جاتی۔ پہلی بار نوکری حاصل کرنا ویسے بھی انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور ہر کسی کے پاس ریجیکٹ کرنے کا ایک معقول بہانہ ہوتا ہے کہ آپ کا تو تجربہ ہی نہیں ہے لہٰذا ہم آپ کو کیوں رکھیں‘ ہمارے پاس تو پانچ پانچ سال تجربے والے اس پوسٹ کے لیے اپلائی کر رہے ہیں۔ ایسے سوالات جب امیدوار سنتا ہے تو یا تو پریشان ہو جاتا ہے یا مایوس ہو جاتا ہے۔ ایسے سوالات کے جوابات کی پہلے سے تیاری کرکے جانا چاہیے۔ اسی طرح تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ آخری سمسٹر میں تین سے چھ ماہ تک متعلقہ انڈسٹری میں طالب علموں کو انٹرن شپ لازمی کرائیں تاکہ انٹرویو پینل کے پاس یہ عذر نہ ہو کہ امیدوار تجربہ نہیں رکھتا۔ اسی طرح اگر شروع میں کچھ ماہ نوکری کم پیسوں یا بغیر پیسوں میں بھی کرنا پڑے تو کر لینی چاہیے اور اسے تعلیم‘ ڈگری اور سیکھنے کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ اسی طرح سی وی پر تجربے کے خانے کا پیٹ بھی بھرا جا سکے گا اور نوکری ملنے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved