جھنگ‘ ڈیرہ غازی خان اور بھکر کے ڈسٹرکٹ پولیس افسران کی کھلی کچہریاں ممکن ہے کہ مین سٹریم پر بھی چند لمحوں کیلئے دکھائی دی ہوں کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ ایسی کھلی کچہریاں یا کارروائیاں سوائے چند لوگوں کے‘ عام عوام کی نظروں سے کم کم ہی گزرتی ہیں۔ البتہ چند دنوں سے سوشل میڈیاکے ذریعے وہ مناظر دیکھنے کو ملے ہیں جن کی ہماری عمر کے لوگ نجانے کب سے امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ ہمارے ملک میں کھلی کچہریاں لگانا کوئی نئی بات نہیں‘ قیامِ پاکستان سے آج تک‘ ہر جگہ، ہر ضلع اور ہر تحصیل میں کھلی کچہریاں لگتی آئی ہیں۔ کبھی کمشنر تو کبھی ڈپٹی کمشنر کی کھلی کچہری اور کبھی آر پی او، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی یا ڈی پی اوزکی کھلی کچہریاں۔ عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ کھلی کچہریاں عوام سے مذاق اور وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں ہوتیں کیونکہ ان میں مسائل کے اسباب کو دور کرنے کے بجائے وقتی لیپا پوتی سے کام لیا جاتا ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کسی کمشنر یا ڈپٹی کمشنر نے کھلی کچہری لگانی ہے تو اس کا سارا انتظام تحصیلدار اور حلقہ کے پٹواریوں کے ذمے ہوتا ہے۔ اس کیلئے شاہانہ قسم کے کھانوں کا بندوبست محکمہ مال کے سپرد ہوتا ہے‘ جو لوگ اس کھلی کچہری میں لا کر بٹھائے جاتے ہیں‘ ان کا بھی پہلے سے ہی بندوبست کر لیا جاتا ہے۔ اپنے ہی آدمیوں کو اس قسم کی کچہریوں میں بٹھا کر لایعنی قسم کی شکایات اور مطالبات کا رٹا لگوایا جاتا ہے۔ لیکن چند روز ہوئے سوشل میڈیا پر ملتان، ڈیرہ غازی خان، جھنگ میں اٹھارہ ہزاری اور تونسہ شریف میں لگائی گئی کھلی کچہریوں کے مناظر دیکھنے کو ملے ہیں جنہوں نے اس حوالے سے تمام تصورات اور رسومات کا تیا پانچہ کر کے رکھ دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ان کھلی کچہریوں کی کارروائی دیکھنے کے بعد ایسا لگا کہ حالات میں بہتری کی ابتدا ہو چکی ہے اور بہت جلد نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملے گی؛ تاہم شرط یہ ہے اور دعا بھی کہ خدا کرے یہ سلسلہ اسی طرح‘ اسی جذبے اور جوش سے چلتا رہے۔ ہمارے جوان اور بھرپور صلاحیتوں سے مالا مال فرض شناس پولیس افسران اگر اسی رفتار‘ توجہ اور ایمانداری سے کھلی کچہریاں لگاتے رہے اور ان کی کارروائیاں اسی سپرٹ اورجذبے سے جاری رہیں تو یقین ہے کہ اس سے جرائم بھی کم ہوں گے اور کانسٹیبل سے لے کر اعلیٰ افسران تک‘ روایتی رعونت، ظلم و جبر اور لوٹ مار میں بھی کمی آ جائے گی۔ جب ہمہ وقت احتساب کا ڈر ہو‘ جب ہر لمحہ جواب طلبی کا خوف سر پر منڈلا رہا ہو‘ جب ڈی پی اوز اور عوام کے درمیان بڑ ی بڑی دیواریں اور نا قابلِ عبور پروٹوکول حائل نہ ہو اور جب ہر مظلوم کی داد رسی یا معاشرے کی فلاح کے لیے ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر عوام کی اصل اور حقیقی وڈیوز اعلیٰ ضلعی افسران تک پہنچانے کی آسانی ہو گی تو پھر تھانے کی حدود سمیت کسی بھی جگہ بیٹھ کر سودے بازی کرنی مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو جائے گی۔ یہی وہ آرزو‘ یہی وہ خواب ہے جو اس ملک کا ہر شہری نجانے کب سے دیکھتا چلا آ رہا ہے۔
جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع میں حالیہ دنوں میں لگائی گئی کھلی کچہریوں میں ایس ایچ اوز سے ڈی ایس پیز تک کی جس طرح جواب طلبی کی گئی اور جس طرح انہیں غفلت کا مرتکب پانے پر موقع پر سزائیں دی گئیں‘ اس سے عوام کے دلوں سے موجود پولیس کا خوف بہت حد تک کم ہوا ہو گا۔ لیکن یہ سلسلہ اگر رک گیا یا اس کا دم خم کمزور ہو گیا، اگر اس تحریک کا جوش کم پڑ گیا یا سفارش اور مصلحت کو قانون اور انصاف پر ترجیح دینا شروع کر دی گئی تو پھر یہ کھلی کچہریاں پہلے کی طرح وقت اور سرمائے کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ بھی تبدیل نہیں کر سکیں گی۔ بہرحال اس وقت آئی جی پنجاب اور ضلعی پولیس افسران کو اپنا مورال بلند رکھتے ہوئے سائل تک خود پہنچنے کی کوشش کرنا ہو گی کیونکہ پولیس تھانوں‘ جو نوآبادیاتی دور کے گورے افسران اور شہنشاہوں کے درباروں کی شکل اختیار کر چکے ہیں‘ اور وہاں بیٹھنے والے اہلکاروں کو اگر یہ یقین ہو گیا کہ وہ سائل جو ان کے دروازے سے دھکے کھا کر واپس جا رہا ہے‘ جسے چوری یا کسی قبضہ مافیا اور کن ٹٹے بدمعاش کے ظلم او زیادتی کا شکار ہونا پڑا ہے‘ اس کی شکایت درج نہ کرنے کی صورت میں اعلیٰ ضلعی پولیس افسر خود اس سائل تک پہنچ جائے گا اور پھر نہ صرف اس کی شکایت کا اندراج کرنا پڑے گا بلکہ اس کے بعد کسی قسم کی رعایت اور معافی کی گنجائش بھی باقی نہیں رہے گی تو گمانِ غالب ہے کہ پھر عملہ خود بھی قانون اور ضابطوں کی پابندی ہی کو ترجیح دے گا۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کی یہ رسم بن چکی ہے کہ حکومتیں بنانے اور بگاڑنے سمیت ہر جائز و ناجائز کام کے لیے پولیس اور تھانے کی مدد لی جاتی ہے، اس لیے ایماندار اور اپنے کام سے کام رکھنے والے اہلکار اور افسران سیاسی اشرافیہ کو اپنے علاقوں اور انتخابی حلقوں میں گوارا ہی نہیں ہوتے۔ اس لیے ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے افسران کو اپنے علاقوں میں تعینات کرایا جائے جو ایک طرف ان کے مفادات کا خیال کریں، دوسری طرف ان کے مخالفین بھی ناطقہ بند کر کے رکھیں۔ روایتی پولیس کلچر کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت یا کسی طاقتور سیاسی جماعت کے لیڈران‘ جو نااہل اور بدنام زمانہ قسم کے افسران کی پشت پناہی کرتے ہیں‘ کی سفارش یا کسی وزیر اور حکومت کے دبائو کو قطعی خاطر میں نہ لایا جائے بلکہ اپنی کھلی کچہریوں میں کلوز ٹو لائن کیے گئے نااہل اور راشی افسران کو کسی دوسری جگہ تعینات کرنے کی عادت بھی بدلیں، ورنہ ان کھلی کچہریوں کی کارروائیوں کے حوالے سے بھی لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے اہلکار پہلے سے زیادہ شیر بن کر اور سینہ تان کر من مانیاں کرتے ہوئے للکارے مارتے ہیں کہ انہیں ہلانے یا ہٹانے کی کسی میں ہمت نہیں ہے۔ ایسے متعدد واقعات اب ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ کسی افسر نے محض اس وجہ سے شہری کو تشدد اور ذاتی انتقام کا نشانہ بنایا کہ اس نے اعلیٰ افسران کو اس کی شکایت کی تھی۔
پاکستان میں آج کل پولیس سوشل میڈیا کے خلاف بھی حرکت میں آئی ہوئی ہے، ایسے لگتا ہے کہ اس کے سوا اور کوئی کام نہیں رہا۔ البتہ پولیس کی ہر گلی کی نکڑ پر موبائل ہاتھ میں پکڑے افراد کی جانب سے وڈیوز بنانے اور بغیر تحقیق کے لگائے گئے الزامات اور بے پر کی اڑانے کے حوالے سے شکایات بھی درست ہیں لیکن سوشل میڈیا کو دیکھ کر چند دنوں سے نجانے کیوں مجھے سکون اور فخر سا محسوس ہو رہا ہے اور ساتھ ہی یہ اطمینان ہو چلا ہے کہ اگر یہ سلسلہ آئی جی پنجاب کی مسلسل توجہ اور ڈانٹ ڈپٹ سے اسی طرح چلتا رہا تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ کم ازکم پنجاب پولیس کی حد تک معاملات میں قدرے سدھار آ جائے گا اور پولیس تھانوں میں غریب اور مظلوم بے گناہوں پر کیے جانے والے مظالم اس حد تک کم ہو جائیں گے کہ انہیں اپنی رپورٹ لکھوانے یا دیگر کسی کام کے حوالے سے تھانے جانے میں کوئی جھجھک باقی نہ رہے گی۔ اسی طرح منشیات فروشوں، قبضہ مافیا اور ٹائوٹ مافیا کی سرپرستی کرنے سے پہلے متعلقہ عملے کو ایک ایک قدم انتہائی احتیاط اور خوب سوچ سمجھ کر اٹھانا پڑے گا۔
''خبردار! کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے‘‘۔ یہ وہ فقرہ ہے جو ہم دن میں سینکڑوں مرتبہ پڑھتے، دیکھتے اور سنتے ہیں مگر یہ 1990ء یا 2010ء کی دہائی نہیں بلکہ سوشل میڈیا کا 2023ء کا زمانہ ہے، اب عوام کے اپنی حفاظت اور ضرورت کیلئے گھروں، بازاروں، مارکیٹوں، دکانوں اور گلی محلوں میں لگائے گئے کیمروں کی وجہ سے ایسا بہت کچھ ریکارڈ ہو رہا ہے جو پہلے سامنے نہیں آ پاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اب ہر کسی کے ہاتھ میں موجود موبائل فون بھی وہ چلتا پھرتا میڈیا ہے جس کے کیمرے میںکسی بھی ظلم و زیادتی اور کسی بھی سرکاری اہلکار کی من مانیوں کی داستان ریکارڈ ہو کر پلک جھپکتے میں ہر آنکھ تک یوں پہنچتی ہے جیسے سبھی اس کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ ایسی وڈیوز جلد ہی ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے گھر پہنچ جاتی ہے، لہٰذا یہی وہ کیمرہ ہے جس سے اب ہر کوئی خوف زدہ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved