تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     03-11-2023

یہ ہمارا مزاج نہیں

بہت عرصہ گزر چکا جب افغانستان جانا ہوا۔ امریکہ اور اس کے افغان اتحادی طالبان کی پہلی حکومت گرا کر اپنی نئی حکومت بنا چکے تھے۔ حامد کرزئی صاحب صدر تھے اور طاقت کا مرکز بظاہر وہی تھے۔ افغانستان کو ایک نئی ریاست اور نئی قوم بنانے کے لیے دنیا بھر سے امریکی دفاعی اتحاد سے جڑی فوجیں مصروفِ عمل تھیں اور امریکی کرنسی اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے استعمال ہو رہی تھی۔ مالی وسائل کی کمی نہ تھی‘ اربوں ڈالر آرہے تھے۔ ہر طرف تعمیر نو کے اشتہارات لگے ہوئے تھے۔ اس سے پندرہ سال قبل افغانستان پر سوویت یونین کی فوجی چڑھائی اور مجاہدین کے مابین جنگوں کے بارے میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا ''جنگ بغیر فاتحین کے‘‘۔ یہ انگریزی سے ترجمہ ہے‘ بے ربط لگے تو معذرت۔ روس کی مداخلت جب ہوئی تو میں امریکہ میں زیر تعلیم تھا مگر اس وقت میرا تحقیق کا میدان مختلف تھا۔ افغانوں کے ساتھ جو بربریت کا سلوک سوویت یونین کر رہا تھا‘ اس پر دل بہت رنجیدہ تھا۔ سوویت یونین جو بھی بلا تھی‘ اس کی تاریخ‘ فلسفہ اور عالمی فوجی حکمت عملی میرے امریکہ میں طالب علمی کے زمانے میں تحقیق کے موضوعات میں سے تھے۔ میری توجہ کا مرکز بحر ہند میں سوویت یونین اور امریکہ کی بحری حکمت عملی تھا۔ یہ میری پہلی کتاب تھی جو برطانیہ سے شائع ہوئی تھی۔ اگر وقت مہلت دیتا یا وہ سہولیات میسر ہوتیں جو مغربی جامعات میں میسر ہیں تو ایسے ہی موضوعات کی کھوج میں ساری زندگی لگا دیتا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس آیا تو فطری طور پر سوویت یونین پر نگاہ پڑی کہ وہ ہمارے پڑوس میں نہتے افغان دیہات پر بم برسا رہا تھا اور ٹینکوں سے بستیوں کی بستیاں مسمار کیے جا رہا تھا۔
ہم نے کچھ علمی دوستوں سے مشورہ کیا کہ اگلا کام اسی موضوع پر ہو۔ ظاہر ہے کہ افغانستان‘ جہاں سوویت یونین نے جنگ کی آگ لگا رکھی تھی‘ کے علاوہ ہماری سمجھ میں کچھ اور نیا پن نظر نہیں آرہا تھا۔ 80ء کی دہائی کے پہلے برسوں میں اپنا بستہ اٹھایا اور بسوں پر سوار ہوکر پشاور اور ارد گرد کے علاقوں کے چکر لگانا شروع کردیے۔ مہاجرین کے کیمپوں میں گیا۔ شہر میں مقیم افغانستان سے آئے نامور دانشوروں سے ملا اور مجاہدین کے نمائندوں اور کچھ رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ افغانستان کے کئی مدبروں اور عالمی سطح کے جدید عالموں سے پاکستان میں اور امریکہ میں انٹرویوز کا سلسلہ ایک عرصہ تک جاری رہا۔ افغانستان کی جنگوں کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے لیے وہاں رہنا محال ہو چکا تھا۔ پہلے تو وہ پاکستان آئے اور پھر وہاں سے امریکہ اور یورپ کی طرف جانے لگے۔ پروفیسر سید برہان الدین مجروح کو پشاور کے ایک گھر میں تلاش کیا جہاں وہ روپوش تھے۔ ان سے میری گفتگو کئی کتابوں کے علم پر محیط ہے۔ وہ فرانس کی ایک اعلیٰ ترین جامعہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے تھے اور کابل یونیورسٹی میں فلسفہ اور ادبیات فیکلٹی کے ڈین رہ چکے تھے۔ دکھ سے لکھ رہا ہوں کہ انہیں اسی گھر میں‘ جہاں وہ پناہ لیے ہوئے تھے‘ گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ کبھی آئندہ ان کے بارے میں موقع ملا تو لکھوں گا۔ ایسے نہ جانے کتنے اہلِ علم مدبر تھے جنہیں افغانستان کی جنگیں نگل گئیں۔
یہ چونکہ آنکھوں دیکھا حال ہے‘ اس لیے تاریخ کی گواہی دینا بھی ضروری خیال کرتا ہوں۔ یہاں لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین آئے۔ جو کچھ وہ ساتھ لا سکتے تھے‘ وہ لے کر پاکستان چلے آئے۔ ہم نے انہیں اپنی پرانی روایات کے مطابق خوش آمدید کہا۔ ان میں تین قسم کے لوگ شامل تھے۔ ایک بہت ہی آسودہ حال افغانستان کی اشرافیہ تھی جو ہمارے ہاں کچھ دیر کے لیے رکی اور مغرب کے ویزے لے کر یہاں سے رخصت ہو گئی۔ دوسرے افغانستان کے تاجر اور وہ آسودہ حال خاندان تھے جو شہروں میں کرائے پر مکان لے کر رہنے لگے اور یہاں اپنے کاروبار شروع کر دیے۔ ان میں زیادہ تعداد پٹھانوں کی تھی جو دیہاتی قبائل تھے اور جن کے علاقوں میں سوویت یونین کی افواج تباہ کن بمباری کر رہی تھیں۔ مقصد یہ تھا کہ افغانستان کے مشرقی اور جنوبی صوبوں سے پٹھانوں کی آبادیوں کا وسیع پیمانے پر انخلا کرایا جائے تاکہ مزاحمت کار مجاہدین کو وہاں چھپ کر جارح فوج کے خلاف کارروائیاں کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ شروع میں تو مجاہدین کے پاس مقامی ساخت کی بندوقیں تھیں مگر پھر مصراور ہمارے ہاں سے انہیں بہتر اسلحہ ملنا شروع ہو گیا۔ اس وقت کے ماحول کو آج کے علاقائی‘ ملکی اور عالمی تناظر میں پیش کرنا ناممکن ہے۔ مجھے پتا ہے کہ آپ میں سے وہ قارئین جو چاہتے ہیں کہ کوئی بھی افغان مہاجر ہمارے ملک میں نہ رہے‘ کیا سوچ رہے ہوں گے۔ اس وقت ایک رائے تھی جو کچھ روس نواز نظریاتی حلقوں تک محدود تھی کہ افغان مہاجرین کو پناہ نہ دی جائے۔ اس وقت پاکستان کی واضح آبادی اور ساری امت مسلمہ کے معاشرے افغان مہاجرین اور مجاہدین کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار تھے۔ اس جنگ کے بارے میں صرف اتنا بتا دوں کہ افغانستان کی تین چوتھائی آبادی مہاجرین بن چکی تھی۔ آدھی آبادی کے قریب تو ایران اور پاکستان کی طرف جان بچانے کے لیے آئی جبکہ ایک تہائی کے قریب آبادی اپنے ملک کے اندر ہی بے گھر اور بے سروسامان رہی۔ پاکستان میں اس وقت نظریاتی تقسیم کے کچھ پرانے رنگ تھے جو ہم70ء کی دہائی میں دیکھ چکے تھے۔ ہمارے زمانے کے اشتراکی‘ جو اَب لبرل ازم کا نظریاتی لبادہ اوڑھ کر اس کی لسانی اصلاحات اپنا چکے ہیں‘ روس کی جنگ کو افغانیوں کے خلاف جائز قرار دیتے تھے۔ وہ افغان مجاہدین کو رجعت پسند اور دقیا نوسی خیالات کا حامل سمجھتے تھے۔ ہم تو ذاتی طور پر بیرونی طاقتوں کے ظلم و استبداد کے خلاف جو بھی مزاحمت کرے‘ اس سے زیادہ روشن خیال کسی کو نہیں سمجھتے۔ افغانوں نے لاکھوں جانیں قربان کیں‘ بے گھر ہوئے مگر وطن کی محبت میں سوویت یونین کے گھمنڈ کو خاک میں ملا دیا۔
پھر ایک اور جنگ ہوئی۔ 20سال تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بمباری کی۔ ہمارے وہ نظریاتی طبقے جو روس کی جنگ کی حمایت کرتے تھے‘ امریکی جنگ کے بھی حامی بن گئے۔ اربوں ڈالرخرچ کرکے 20سال تک جس نئی ریاست اور قوم کی تعمیر کی گئی‘ امریکی انخلا کی آخری پرواز کے ساتھ ہی وہ دھڑم سے زمیں بوس ہو گئی۔ معذرت چاہتا ہوں کہ بات لمبی ہو گئی مگر گوش گزار یہ کرنا چاہتا ہوں کہ افغانستان کی آبادیوں کو داخلی اور بیرونی جنگوں نے تباہ کیا ہے جس میں ہمارا بھی ہاتھ ہے۔ نہ جانے یہ اچانک خیال کہاں سے ہمارے آج کل کے نگرانوں کو آگیا ہے کہ اگر افغان مہاجرین کو زبردستی ملک سے نکال دیا جائے تو ہمارے سلامتی‘ امن اور خوشحالی کے سب راستے کھل جائیں گے۔ ہر کام ایک طریقے سے ہوتا ہے۔ وہ ہم نے کبھی سیکھا ہی نہیں۔ بس فیصلے کیے چلے جاتے ہیں۔ میں اس حق میں ہوں کہ مہاجرین کو باعزت طریقے سے افغانستان میں آباد کیا جائے‘ مرحلہ وار کوئی پروگرام بنے اور افغانستان کی حکومت کے ساتھ مل کر آگے بڑھا جائے۔ اگر آپ ان بے گھر لاکھوں افراد کو سرحد کے اس پار دھکیل دیں گے جہاں ان کے پاس کچھ بھی نہیں تو آپ کے ہاتھ کیا آئے گا۔ کابل کے ساتھ پہلے بھی تعلقات کشیدہ ہیں‘ اس میں مزید بگاڑ آئے گا۔ علاقائی کشیدگی میں مزید اضافہ کرکے ہم کیسے اپنے آپ کو محفوظ بنائیں گے ۔ جو آپ کررہے ہیں‘ وہ ہمارے مزاج میں نہیں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved