سب دُھتکار رہے ہیں۔ کوئی سہارا دینے کو تیار نہیں۔ زندگی دُشوار سے دُشوار تر ہوتی جاتی ہے۔ ہر طرف مایوسی کا اندھیرا ہے۔ ایسے میں کچھ بھی سُجھائی نہیں دے رہا۔ پھر اچانک حالات خاصا خوشگوار ٹرن لیتے ہیں۔ کہیں سے کوئی اجنبی نمودار ہوتا ہے جو سہارا بھی دیتا ہے اور اپنے ساتھ ایک نئی دُنیا میں لے جاتا ہے۔ یہ نئی دُنیا ذرا نیچے بھی ہوسکتی ہے۔ ایسی دُنیا کو اصطلاحاً ’’انڈر ورلڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یا پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی خاصی مالدار شخصیت زمانے بھر کے دُھتکارے ہوئے شخص کو گلے لگاتی ہے، اپنے ساتھ رکھتی ہے، بہتر زندگی بسر کرنے کے وسائل فراہم کرتی ہے اور یوں اُس کی زندگی کا نقشہ ہی بدل دیتی ہے۔ آپ سوچیں گے یہ سب کچھ تو خاصا جانا پہچانا ہے۔ جی ہاں۔ فلموں میں ایسا ہی ہوتا ہے، بلکہ ایسا فلموں ہی میں ہوتا ہے! فلم میکرز ہماری نَفسی ضرورتوں اور ناآسودہ خواہشات سے کھیلتے ہیں۔ جو کچھ حقیقت اور عمل کی دُنیا میں اچھی خاصی محنت سے بھی نہیں ہو پاتا وہ فلموں میں (بظاہر کسی جواز کے بغیر) آسانی سے ہو جاتا ہے یا ہوتا ہوا دکھایا جاتا ہے۔ راتوں رات سب کچھ پانے کی آرزو، بلکہ ہوس ہے کہ پنپتی ہی جاتی ہے۔ ہاتھ پیر ہلائے بغیر دنیا کی ہر نعمت کو اپنے دامن میں سمیٹ لینے کی خواہش کا یہ عالم ہے کہ اِسے سَمونے کے لیے کائنات کی وسعتیں بھی ناکافی محسوس ہوتی ہیں۔ شدید بے عملی کے پہلو بہ پہلو بھرپور دولت، شہرت اور عزت پانے کی تمنا ہے کہ پیر پسارے ہی جارہی ہے۔ ہم جس ماحول میں جی رہے ہیں اُس میں یہی سب کچھ ہے۔ جس طرح فلموں میں منظر بدلتا ہے بالکل اُسی طرح ہم عملی زندگی میں منظر بدلنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ یہ سوچنے کی زحمت ہم کبھی گوارا نہیں کرتے کہ فلموں میں بھی منظر بدلتا نہیں، بدلا جاتا ہے! حقیقت اور عمل کی دُنیا میں بھی تبدیلی آتی نہیں، لائی جاتی ہے۔ ہم رات دن تبدیلی کے وارد ہونے کے منتظر رہتے ہیں۔ عمل کی دُنیا متقاضی رہتی ہے کہ تبدیلی کو یقینی بنانے کے لیے ہاتھ پیر ہلائے جائیں، دادِ عمل دی جائے، تحرک اپنایا جائے۔ پاکستانی معاشرہ عجیب دور سے گزر رہا ہے۔ ہر شخص دیکھتے ہی دیکھتے، بلکہ پلک جھپکتے میں کسی بھی شعبے کی تمام بُلندیاں چُھو لینا چاہتا ہے۔ کوئی ناکامی کا تصور بھی نہیں کرنا چاہتا اور اس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اُسے جاں فشانی سے کام کرنے کا مشورہ دیا جائے۔ ایسا تو فلموں میں ہوتا ہے کہ کوئی ایک واقعہ رُونما ہو اور سبھی کچھ بدل جائے۔ حقیقی زندگی میں سب کچھ ایسے اُصولوں کے تابع ہوتا ہے جنہیں تبدیل کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ کچھ پانے کے لیے محنت لازم ہے۔ محنت کرنے کی سکت یا جگرا نہ ہو تو کوئی بات نہیں، خوشامد کو آزمائیے۔ اور اگر خوشامد پر بھی دِل مائل نہ ہوتا ہو تو سازش کا آپشن اختیار کیجیے۔ یعنی محنت، خوشامد یا سازش میں سے کسی ایک راہ پر تو گامزن ہونا ہی پڑے گا۔ اور اِدھر عالم یہ ہے کہ لوگ اِن میں کوئی بھی آپشن اپنانا نہیں چاہتے۔ الٰہ دین کے چراغ کی تلاش ہے تاکہ اُسے رگڑیں اور سب کچھ مل جائے۔ مگر اب اِس کا کیا علاج کہ لوگ الٰہ دین کے چراغ کو رگڑنے کی زحمت گوارا کرنے کو بھی تیار نہیں! یعنی چراغ خود ہی رگڑ جائے اور جن باہر نکل آئے! لوگ ایک کال پر سب کچھ چاہتے ہیں۔ یعنی کہیں سے کوئی کال آئے اور مقدر جاگ جائے۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ خواہش اور ہوس کی دنیا میں تو کچھ بھی، بلکہ سب کچھ ہوسکتا ہے۔ جاگتی آنکھوں کے خواب ایسی دُنیاؤں کی سیر کراتے ہیں جن میں ہر طرف راحت ہی راحت ہوتی ہے، سب کچھ ’’دما دم مست قلندر‘‘ کے مصداق پورے جوش و خروش کے ساتھ چل رہا ہوتا ہے، کہیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی اور سب مکمل خوش حالی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ جاگتی آنکھوں کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر ہوتے ہوئے دیکھنے کی دُھن میں مگن رہنے والے رات دن کسی ایسے واقعے کے رُونما ہونے کا انتظار کرتے ہیں جو پل بھر میں سب کچھ بدل دے۔ فلموں کا سلسلۂ واقعات لوگ حقیقی زندگی میں چاہتے ہیں۔ اور کیوں نہ چاہیں؟ زندگی میں انقلابی تبدیلی تو اِسی طور واقع ہوسکتی ہے۔ سیاست دانوں کے بیانات اور میڈیا کی چیخ پُکار سے سب کچھ تو نہیں بدل سکتا۔ بس، تو پھر لازم ہے کہ کہیں سے کال آئے اور من موہنی آواز میں انتہائی پُرکشش انعامات کی نوید سُنائی جائے۔ پس ماندہ ممالک میں زندگی جتنی دُشوار ہوتی جاتی ہے، ہاتھ پیر ہلائے بغیر سب کچھ پانے کی تمنا بھی اُتنی ہی پنپتی جاتی ہے۔ اِس کیفیت کا فائدہ وہ لوگ اُٹھاتے ہیں جو مجبوروں اور مُفلسوں کی نَفسی کمزوریوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی کال کرکے بہت بڑے نقد انعام یا پلاٹ کے ملنے کی خوش خبری سُناتا ہے، سُننے والے کی آنکھیں جگمگانے لگتی ہیں۔ چند لمحات کے لیے حقیقت پسندی کو لپیٹ کر طاقِ نسیاں پر رکھ دیا جاتا ہے۔ کال ریسیو کرنے والا خیال و خواب کی دُنیا میں گم ہوکر خوش حالی کی بے کراں فضاؤں میں اُڑنے لگتا ہے۔ ایک پل کے لیے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ فی زمانہ لوگ اپنے مفاد کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے حقیقی بھائی کے مفاد کا گلا گھونٹنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تو پھر کوئی اِتنا مخلص کیسے ہوسکتا ہے کہ کہیں پوری ایمانداری سے قرعہ اندازی کرے اور جس کا نام نکلے اُس کال کرکے مطلع بھی کرے! جنوبی ایشیا اور دیگر پس ماندہ خطوں کے لوگ آسرے پر زندہ رہتے ہیں۔ آسرا یہ کہ کوئی لاٹری نکل آئے اور زندگی کا رُخ تبدیل ہو جائے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور خطے کے دیگر ممالک میں کروڑوں افراد لاٹری کے ٹکٹ خریدتے ہیں تاکہ ایک ہی جھٹکے میں ساری مشکلات کا جھٹکا ہو جائے۔ اِس نفسی کمزوری سے فائدہ اُٹھانے والے بھی موجود اور متحرک ہیں۔ جب تک بے وقوف زندہ ہیں، عقل مند بُھوکے نہیں مرسکتے۔ فراڈیے اب موبائل فون پر بھی شروع ہوگئے ہیں۔ کسی دن اچانک انجانے نمبر سے کال آتی ہے۔ کال کرنے والا ایسی ملائمت سے لاکھوں روپے کا انعام یا قرعہ اندازی میں پلاٹ نکلنے کی خوش خبری سُناتا ہے جیسے کال ریسیو کرنے والے کا کوئی قریبی رشتہ دار کروڑوں کی جائیداد کا وارث بنانے والی وصیت چھوڑ کر مرا ہے! انعام کا مُژدہ سُنانے کے بعد پروسیسنگ کے نام پر چند سو روپے کا بیلنس بھیجنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ اور اِس ہدایت پر عمل کرنے والوں کی بھی کمی نہیں! خاصے پڑھے لکھے لوگوں کی آنکھوں پر بھی لالچ کے پردے پڑ جاتے ہیں اور وہ اچھی خاصی رقم اِس بَھٹّی میں جھونک بیٹھتے ہیں۔ حیران نہ ہوں؟ خواہشات اور اُمید کی فضا میں سانس لینے والوں سے ایسی ہی ’’دانش‘‘ کی توقع رکھی جانی چاہیے! کہیں آپ کو بھی کسی ایسی کال کا انتظار نہیں جو آن کی آن میں دُنیا ہی بدل دے؟ یہ مایا جال ہے۔ انسان کی نَفسی کمزوریوں کا فائدہ اُٹھانے والے بُھوکے بھیڑیوں کی طرف ہر طرف گھوم رہے ہیں۔ اِنہیں سادہ لوح ہرنوں کی تلاش رہتی ہے۔ ہر چمکیلی چیز سونا نہیں ہوتی۔ صحرا میں بہت دور لہریں مارتا پانی سراب کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ خواہشات کے صحرا میں بھی بہت دور پانی لہریں مارتا دکھائی دیتا ہے۔ نظر کا دھوکا جیسے ہی ختم ہوتا ہے، ہم خود کو تپتے صحرا میں پاتے ہیں۔ انجانی کالز کے ذریعے انعامات کی خوش خبری بھی سراب ہے۔ اپنی خواہشات اور اُمیدوں کے دائرے کو اِتنی وسعت مت دیجیے کہ باقی سب کچھ اِس سے باہر جا گِرے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved