تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     03-11-2023

اَن دیکھے دھرنے

وقت کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ بد صورتی بھی یہی ہے کہ سدا ایک جیسا نہیں رہتا‘ اس کا پہیہ بدستور گھومتا ہی رہتا ہے۔ نادان ہیں وہ جو سمجھتے ہیں کہ وہ وقت کو اپنی مٹھی میں بند کر سکتے ہیں۔ بلاشرکت غیرے سکہ چلانے والوں کا سکہ اس طرح کھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے کہ مٹھی میں جکڑا ہوا وقت ریت کی طرح سرکتا ہی چلا جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے مٹھی خالی ہو جاتی ہے اور وہ تہی دست رہ جاتے ہیں۔ کس کس کا نام لوں‘ سبھی ایک سے بڑھ ایک پائے گئے ہیں۔ جمہوریت کا جھنڈا اٹھا کر برسرِ اقتدار آنے والوں کو آمریت کا آسیب جکڑ لیتا ہے تو آمر حکمرانوں کو جمہوریت کا تڑکا لگانے کا شوق اہداف سے بھٹکاتا چلا آیا ہے۔ گویا آمروں کو جمہوریت کا بخار چڑھتا آیا ہے تو جمہوری چیمپئنز آمر بنتے چلے آئے ہیں لیکن انجام سبھی کا سبق آموز ہی رہا ہے۔ ماضی کے حکمرانوں سے سبق حاصل کرنے کے بجائے خود نمونۂ عبرت بننے والے شوقِ حکمرانی کے مارے سبھی نہلے پہ دہلے ہی پائے گئے ہیں۔
فیض آباد دھرنا کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ نے وہ سبھی سوالات اٹھا ڈالے ہیں جو نجانے کب سے گم سم اور سرجھکائے ہوئے تھے۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ فیض آباد دھرنے پر سوال اٹھانا تو درکنار سرگوشی بھی ممنوع تھی۔ آج ذمہ داران کے بارے میں بات کرنے سے لے کر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو مسترد اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دے ڈالا گیا ہے۔ یہ اعجاز بھی وقت کے اسی پہیے کا ہے جو برابر چلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ سے لے کر فیض آباد دھرنے سمیت نجانے کیسے کیسے بھید اور راز تاریخ کے اوراق میں دفن ہیں۔ یہ مدفون ایک ایسے شہر خموشاں کا منظر پیش کرتے ہیں جہاں واقعات‘ سانحات اور صدمات کی روحیں آج بھی بے چین اور پریشان پھرا کرتی ہیں۔
مملکتِ خداداد کا ایک کرشمہ یہ بھی ہے کہ یہاں اقتدار میں لانے سے لے کر نکالے جانے تک کئی اسرار و رموز کار فرما ہوتے ہیں۔ پسِ پردہ عزائم اور ایجنڈے ہی طے کرتے ہیں کہ کسے اقتدار کے سنگھاسن پہ بٹھانا ہے اور کس کو بے آبرو کرکے کوئے اقتدار سے نکالنا ہے۔ راج نیتی کے اس کھیل میں جسے خوب بنا کر لایا جاتا ہے‘ اسی کو ناخوب قرار دے کر نکال باہر کیا جاتا ہے۔ گویا محبوب کو معیوب اور معیوب کو محبوب قرار دینے کی منطقیں اور توجیہات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی چلی آئی ہیں۔ اہداف کے حصول میں رکاوٹ بننے والوں کو رسوائے زمانہ کر کے اس طرح دربدر کیا جاتا ہے کہ وہ کسی دَر کے نہیں رہتے لیکن ضرورت اور ترجیحات بدل جائیں تو ٹھوکروں سے اٹھا کر تخت و تاج سے نوازنے میں بھی کوئی امر مانع نہیں رہتا۔ ایک دوسرے کی ضرورتوں میں بندھے ہوئے ان سبھی نے مملکتِ خداداد کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ ضرورتوں کی دلالی کے بغیر نہ سیاست ممکن رہی ہے اور نہ ہی حکمرانی کے جوہر دکھائے جا سکتے ہیں۔
وقت کا گھومتا ہوا پہیہ آج پھر وہیں آن رکا ہے جہاں سے اسے گھمانے والوں نے اس طرح گھمایا تھا کہ وطنِ عزیز کا دھارا اور منظر نامہ ہی بدل ڈالا تھا۔ برسرِ اقتدار میاں نواز شریف کو کوئے اقتدار سے اس طرح نکالا گیا کہ وہ یہی پوچھتے رہ گئے کہ ''مجھے کیوں نکالا‘‘۔ آج نکالنے والے تو قصۂ پارینہ بن چکے ہیں اور نکلنے والے دوبارہ آنے کے لیے جگاڑ لگائے پر تول رہے ہیں۔ چشمِ فلک ایسے تماشے کئی دہائیوں سے دیکھتی چلی آرہی ہے۔ دھرتی ماں بھی اپنے سینے پر مونگ دلنے والوں کو نجانے کب سے برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ یقینا سراپا احتجاج ہوگی۔ میاں نواز شریف اس تاریخ ساز الیکشن کے لیے لوٹ آئے ہیں جس کی تاریخ کا اعلان گزشتہ روز الیکشن کمیشن کر چکا ہے۔ صدرِ مملکت انتخابات کی دی ہوئی تاریخ سے پہلے ہی شاکی اور نااُمید ہیں جبکہ نگران حکمران خود کو انتخابات کروانے کا پابند اور ذمہ دار ہی نہیں سمجھتے اور بارہا یہ عذر پیش کر چکے ہیں کہ انتخابات کروانا ان کا نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کا کام ہے۔
الیکشن کمیشن پر انتخابات کی ذمہ داری ضرور ڈالیں لیکن پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے پر الیکشن کمیشن کی سبکی اور جگ ہنسائی تو پہلے ہی کافی ہو چکی ہے‘ جب انتخابات کروانے کی نیت اور ارادہ ہی نہ ہو تو ذمہ داری کسی پر بھی ڈال کر پہلو تہی کی جا سکتی ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے تو برملا کہتے ہیں کہ نگران سرکار کو مینڈیٹ انتخابات کروانے کا نہیں بلکہ نہ کروانے کا ملا ہے۔ بالخصوص پنجاب میں سوائے انتخابات کے نگران سرکار سبھی کام سرانجام دے ہی رہی ہے۔ مصاحبین کو شریکِ اقتدار کرنے سے لے کر بوجوہ تھوک کے بھاؤ تقرریوں و تبادلوں سمیت بڑے تعمیراتی منصوبوں کے علاوہ اصولی فیصلوں کے نام پر بے اصولی کے ڈھیر لگانے تک سبھی کچھ تو ہو رہا ہے۔ گویا نگران سرکار آئینی اور قانونی جواز کے بغیر سبھی چھوٹے بڑے فیصلے اور اقدامات تو کر سکتی ہے لیکن انتخابات کروانے سے بدستور فرار ہے‘ تعجب ہے!
بات شروع ہوئی تھی فیض آباد دھرنا کیس سے اور جا نکلی کہاں سے کہاں... مملکتِ خداداد کی راج نیتی کا ایک خاصا یہ بھی ہے کہ کسی مخصوص واقعہ کے تانے بانے اور نقطے ملائیں تو ایسی ایسی شکلیں اُبھر کر سامنے آتی ہیں کہ سبھی عقدے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ تب جاکر پتا چلتا ہے کہ کون کہاں جھوم رہا ہے۔ ابھی تو بانیٔ پاکستان کو بیماری اور نازک حالت میں کھٹارا ایمبولینس فراہم کرنے کا معمہ حل نہیں ہوا‘ حمود الرحمن کمیشن کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی‘ سانحۂ اوجڑی کیمپ اور ضیا الحق کے فضائی حادثے سمیت نجانے کتنے ہی سانحات کی قبروں کی مٹی آج تک گیلی ہے۔ ان قبروں کی مٹی خشک کرنے کے لیے بہتیرے جتن اور کوششیں ہو چکی ہیں لیکن کچھ قبروں کی مٹی یونہی خشک نہیں ہوتی۔ کس کس قبر کا ذکر کروں‘ ڈومور کے امریکی مطالبے پر اپنے ہی شہریوں کو امریکہ کے حوالے کرنے سے لے کر راج نیتی کے بے رحم کھیل میں ملک و قوم کو داؤ پر لگانے والوں نے کون سا گل نہیں کھلایا؟ وہ حصولِ اقتدار یا طولِ اقتدار کے اہداف کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے والی تباہیوں اور بربادیوں کے انبار ہی لگاتے چلے آئے ہیں۔ قانون اور ضابطوں سے لے کر غیرتِ قومی اور اخلاقی و سماجی قدریں لیرولیر کرنے والے کسی نہ کسی شکل میں ملک و قوم کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس صاحب تو ایک فیض آباد دھرنے کی بات کر رہے ہیں‘ ملک و قوم کو تو نجانے کون کون سے دھرنوں کا سامنا ہے۔ آئین کو بے بس اور قانون و ضابطوں کو سرنگوں کرنے والے اَن دیکھے دھرنوں کی بھی کچھ خبر لیں۔ مینڈیٹ اور قانونی جواز کے بغیر غیر معینہ مدت تک حکمرانی عوام پر جبر نہیں تو اور کیا ہے؟ جب انتخابات کروانے کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے تو یہ نگران کون سے شوق اور ارمان پورے کرنے آئے ہیں۔ ان کے دھندوں اور ایجنڈوں کے انڈے بچے تو برابر نکلتے چلے آرہے ہیں لیکن میرٹ اور گورننس کی جو درگت بن چکی ہے‘ اس کا اظہار الفاظ میں ممکن ہی نہیں۔ سرکاری بابوؤں کی لوٹ مار اور سہولت کاری کے جو ریکارڈ بزدار سرکار میں بنے تھے‘ وہ سبھی حالیہ چند مہینوں کی ریکارڈ مدت میں کب کے ٹوٹ چکے ہیں۔ قومی سانحات کی قبروں کے اس ڈھیر میں کئی قبروں کا اضافہ ایک سیاسی رہنما کی وطن واپسی کے بعد بھی ہو چکا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved