تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     04-11-2023

من کی آشا

سیانے کہتے ہیں کہ کام کرتے رہنا چاہئے، عمر جتنی بھی ہو جائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے روح و جان کیلئے اچھا نہیں ہوتا۔ کام کرنے کے البتہ مختلف انداز ہیں۔ سرکاری نوکری اوردفتر میں بیٹھناکام سمجھا جاتا ہے لیکن کھیتی باڑی بھی کام ہے اور سمجھدار لوگوں کے سامنے گھومنا پھرنا بھی افضل قسم کی مصروفیت ہے۔وہ تو خوش قسمت ہوئے جنہیں نو سے پانچ والی نوکری نہیں کرنا پڑتی لیکن جو اپنے ذرائع آمدنی کی بدولت اس جھنجھٹ سے آزاد ہیں وہ بھی من پسند کاموں سے اپنی زندگیوں کو بھرپور بنا لیتے ہیں۔
یہ خوامخواہ کی تمہید ہے‘ کہنا یہ ہے کہ اب آرزو بس اتنی رہ گئی ہے کہ وہی کریں جودل کو بھلا لگے۔معمولی کھیت ہے اُس میں گھومنا اچھا لگتا ہے‘ درخت بھلے معلوم ہوتے ہیں اور جی چاہتا ہے کہ جہاں ہوسکے وہاں درخت لگائے جائیں۔ایک باہر کی حویلی ہے جہاں چند سالوں سے کچھ نہ کچھ اُگا لیتے تھے‘ ایک سال گندم‘ دوسرے سال کینولہ‘ ایک آدھ بار مونگ پھلی کی فصل۔ لیکن پچھلے سال سے اُسے خالی چھوڑا ہوا ہے کیونکہ دل یہی چاہتا ہے کہ جب سیر کرنے کی سوجھے تو اسی ٹکڑے پر تھوڑا گھوم لیاجائے۔ کئی سالوں سے کام کے سلسلے میں لاہور جانا پڑتا ہے لیکن اب دل کرتا ہے کہ گاؤں سے اسلام آباد نزدیک ہے‘ ٹی وی پر تبصرے کرنے کے حوالوں سے جو جھک مارنی ہوتی ہے وہ یہیں کرلیا کریں۔ شام چھ بجے گاؤں سے چلیں تو اسلام آباد سٹوڈیو تقریباً ایک یا سوا گھنٹے میں پہنچ جانا ممکن ہوتا ہے۔ایک گھنٹے کا پروگرام اُس کے بعد گانے سنتے سنتے واپس آنا ممکن ہوجاتا ہے۔یہ مزدوری بھی نہ کریں اگر دال دلیے کا مسئلہ نہ ہو۔ مہنگائی آج کل ایسی ہے کہ کچھ نہ کچھ ہاتھ پاؤں نہ ماریں تو مہینے کی ادائیگیاں مشکل ہو جائیں۔ کچھ شوق بھی ہمارے ایسے ہیں جو بغیر شاہ خرچی کے پورے نہ ہو پائیں‘ اُن کیلئے بھی کچھ مزدوری کرنا پڑتی ہے۔
خوش قسمت وہ سمجھے جاتے ہیں جن کے وسائل وسیع ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ زمانے کے تغیر کا کوئی بھروسا نہیں۔ بڑے بڑے لینڈ لارڈ گزرے ہیں جن کے اب ڈھونڈے نشان نہیں ملتے۔کچھ سال پہلے ملک خضر حیات ٹوانہ کے گاؤں جانے کا اتفاق ہوا۔سردیوں کے دن تھے‘ سورج نکلا ہوا تھا اوراچانک ارادہ دل میں اُٹھا کہ ملک خضرحیات کی گمشدہ اسٹیٹ کو تو دیکھا جائے۔ملک صاحب حیات تھے تو کالرہ اسٹیٹ ہزاروں ایکڑ زمین پر محیط تھی۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ متحدہ پنجاب کے وزیراعظم بھی تھے۔ لیکن جب زمانے نے انگڑائی لی اورپاکستان بنا تو ملک صاحب کی سیاست اور حکمرانی ختم ہو گئی اور پھر اُن کی وفات کے بعد کالرہ اسٹیٹ کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگے۔ آج بھی نشانیاں موجود ہیں لیکن وہ جو ایک عروج تھا جو اُس گھرانے نے دیکھا‘ وہ تاریخ کے اوراق میں گم ہوچکا ہے۔ ہم تو بہت چھوٹے زمیندار ٹھہرے لیکن جہاں میرا آبائی گاؤں ہے اس کے اردگرد بھی خاصی وسیع زمینداریاں ہوا کرتی تھیں۔ شاذ ہی کوئی پرانی زمینداری اب قائم ہے‘ زمینیں تقسیم ہو چکی ہیں‘ خانوادوں کی تعلیم کی طرف اتنی رغبت نہ تھی‘ زمین کی آمدن پر ہی گزارا تھا اورہم بارانی علاقے والوں کی زمینیں بھی کیسی ہیں‘ وہ آمدن تو یہاں سے نہیں آتی جو نہری علاقوں کا معمول ہے۔
زمانے کے کیونکہ مختلف رنگ ہوتے ہیں ایسے بھی ہوتا ہے کہ کسی کے ورثے میں کچھ زمین آئی تواُس محلے کی نظرہوگئی جو لاہور شاہی قلعے سے متصل ہے۔کئی ایسے شوقین مزاجوں کو ہم جانتے بھی تھے جنہوں نے وہاں حاضری دینی ہوتی تھی۔اب تو کاروں کا زمانہ ہے اور ہردوسرے شخص کے پاس کار ہے جس سے سڑکوں کی بھیڑ بڑھ گئی ہے اور آسمانی ماحول بھی وہ نہیں رہا جو ایک زمانے میں ہوا کرتا تھا ۔ لیکن جن شوقین مزاجوں کا ذکر چھڑا ہے وہ ہفتے کے دن چکوال سے بس پر سوار ہوتے تھے اور شام کواُس مشہور بازار میں پہنچے ہوتے تھے۔آس پاس کسی سستے ہوٹل میں رہائش کیلئے کمرہ لے لیا اوراپنے من پسند ٹھکانے پر حاضری دی۔گانے وغیرہ کا سلسلہ شروع ہوتا تو وہ ویلیں دینے لگتے اور ویلیں بھی کچھ اس ادا سے وصول دی جاتیں کہ چکوال سے چلا ہوا مسافر یہی سمجھتا کہ اس ڈیرے کے ہم ہی سب سے اونچے مہمان ہیں۔ اس زعم میں جو کچھ جیب میں ہوتا وہ باہر آجاتا اور جب اُس بازار کے دروازے بند ہونے لگتے ایک عجیب کیفیت میں مبتلا مسافر ڈگمگاتے قدموں سے یا تو لاری اڈے کی طرف ہو لیتا یا اپنے سستے کمرے کی طرف رُخ موڑتا تاکہ شیریں خوابوں میں رات بھر کا تماشا ایک بار پھر مدہوش نظروں کے سامنے آئے۔اُس زمانے میں جاپانی گاڑیاں پاکستانی مارکیٹ میں نہیں آئی تھیں۔ رئیس زادے امریکن گاڑیاں چلاتے تھے اور اُس بازار میں ایسی خوش نصیب عمارتوں کی کمی نہ ہوتی جن کے سامنے امریکن گاڑیاں کھڑی ہوتیں۔ یعنی اُس مقام کا امتیاز سمجھا جائے کہ بسوں پر سفر کرنے والے بھی حاضریاں دیتے تھے اور ساتھ ہی لمبی لمبی کاروں والے بھی کسی دہلیز کی مہربانیوں کے طلب گارہو جاتے تھے۔
پارسائی کے دور نے اس مملکت پر اُترنا تھا توان علاقوں کا پرانا نظامِ حیات سب درہم برہم ہو گیا ۔ پارسائی ایسے آئی کہ ان مخصوص علاقوں کے مکینوں نے یہاں سے ہجرت کرکے شہر کے دیگر علاقوں میں اپنے نئے مسکن ڈھونڈے۔جہاں ثقافت کی نشانیاں ایک چھوٹے سے علاقے تک محدود تھیں اب صورتحال یہ ہے کہ سارے نئے علاقے جنہیں عرفِ عام میں پوش علاقے کہا جاتا ہے اُن میں ثقافت کی یہ منفرد نشانیاں پھیل چکی ہیں۔شغل میلہ تو اب بھی ہوتا ہے ، محفلیں برپا ہوتی ہیں ، لیکن جب وہ پرانی روایات ٹوٹیں تو وہ پرانی چاشنی بھی نہ رہی۔ انداز بدلے تو وہ پرانی ادائیں نہ رہیں۔ اب ایک شور شرابا ہوتا ہے، بڑے بڑے لاؤڈ سپیکروں سے اونچی بے ہنگم آوازیں نکلتی ہیں اور ثقافت کا گماں کم اوراچھل کود کا کچھ زیادہ ہوتا ہے۔شاید ہماری عمر کا تقاضا ہے اور شاید آج کے نوجوانوں کو یہ اچھل کود ہی زیادہ پسند ہو۔پر ہم رہے گزرے زمانوں کے راہ گیر۔ کئی بار لکھت پڑھت میں یہ عرض کرچکے ہیں کہ ہمارے ساتھ تو یہ زیادتی ہوئی کہ جب اس مملکت میں سب کچھ موجود تھا تو ہماری جیبوں میں کچھ نہیں ہوتا تھا۔ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اب آسودگی آگئی ہے لیکن کچھ نہ کچھ سِکوں کی جھنکار تو ہو جاتی ہے لیکن ان سکوں کا کیا کرنا جب وہ پرانی جگہیں سب ویران ہو چکی ہیں اورپارسائی کا دور ایسا آیا ہے کہ زندگی بھی بہت حد تک کم از کم ہمارے مزاج کے خلاف ہو چکی ہے۔
زمانے کی رفتار سے چیزیں ضرور بدلتی ہیں لیکن ایسی قومیں بھی ہیں جنہوں نے اپنے پرانے طور طریقے قائم رکھے ہوئے ہیں۔ شہروں کے پرانے علاقوں کو پرانی حالت میں ہی رکھا گیا ہے۔ ہم سے ایسا نہیں کیا گیا ، ہم تو جیسے قدیم چیزوں کے بیری ہوں۔ لاہور دیکھ لیجئے ، کیا زیادتی اس کے ساتھ ہم نے نہیں کی۔ شہر پھیلا جا رہا ہے ، نئی سے نئی آبادیاں قائم ہو رہی ہیں لیکن جو علاقے لاہور کی پہچان ہوا کرتے تھے اُن کے ساتھ یہاں برا کیا گیا ہے۔شاہ عالم مارکیٹ میں جائیں ، کون سی پرانی عمارت آپ کو کھڑی نظرآئے گی؟ ایک دو عمارتیں ہیں اور وہ بھی خستہ حالت میں لیکن لگتا ہے کہ سارے کے سارے بازار پر ایک ایسا ہاتھ پھرا ہے جسے دور سے بھی ذوق کی آشنائی نہ ہو ۔ کراچی کے ساتھ یہی ہوا ہے ، راولپنڈی کتنا خوبصورت شہر تھا، اُس کا کیا حشر ہوچکا ہے؟ پھر کیا کریں ؟ وہ کون سی جگہ جہاں کوئی سکون ملے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved