پاکستان میں سیاسی‘ بیوروکریٹک اور فوجی اشرافیہ کے ذریعے وقتاً فوقتاً سیاسی اور آئینی تبدیلیاں‘سیاسی اور آئینی انجینئرنگ کے طور پر بیان کی جا سکتی ہیں۔سیاسی انجینئرنگ میں سیاسی شراکت داریوں اور حکومتوں کو بنانے اور توڑنے کیلئے سیاسی جماعتوں اور قیادت میں ہیرا پھیری بھی شامل ہے۔ یہ اہداف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی کمزوریوں‘ ان کے باہمی حسد اور تنازعات کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی عزائم کا استحصال کرکے حاصل کیے جاتے ہیں۔ غالب اشرافیہ اپنے سیاسی گیم پلان کی تکمیل کے لیے ریاستی سرپرستی‘ مادی عنایات اور کابینہ کے عہدوں کا استعمال کرتی ہے۔ مخالفین کو سزا دینے اور سیاست کی نوعیت اور سمت پر گرفت برقرار رکھنے کیلئے ریاست کے ریگولیٹری اور تعزیراتی اختیارات کے استعمال کا خوف یا حقیقت میں استعمال سیاسی انجینئرنگ کا ایک اور آلہ کار ہے۔ غالب اشرافیہ کی تشکیل میں کوئی بھی تبدیلی نئی سیاسی صف بندی کرتی ہے‘تاہم‘ سیاسی انجینئرنگ کے بنیادی طریقہ کار تبدیل نہیں ہوتے۔
آئینی انجینئرنگ سیاسی انجینئرنگ سے آگے بڑھ کر آئینی انتظامات‘ ریاستی اداروں اور عمل کو تشکیل دینے یا غالب اشرافیہ کے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے موجودہ آئینی اور قانونی فریم ورک کو تبدیل کرنے کیلئے ہے۔ یہ غالب اشرافیہ کے ذریعہ ریاستی اقتدار کے انتظام کیلئے قانونی اور سیاسی جواز کو یقینی بنانے اور سیاسی مخالفین کے چیلنجز کے خلاف اسے محفوظ بنانے کیلئے کیا جاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کو الگ کرنے کیلئے آئینی اور قانونی رکاوٹیں پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے جو اپنی شرائط پر اختیارات کا اشتراک کرکے غالب اشرافیہ کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں‘ جو یا تو سیاسی نظام کے آئینی اور سیاسی بنیادی ڈھانچے پر سوال اٹھاتے ہیں یا انہیں اقتدار کے عہدے سے تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیشہ سیاسی اور آئینی انجینئرنگ ایک ساتھ چلتی ہے کیونکہ یہ اقدامات ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ سے سیاسی انجینئرنگ کی کچھ مثالیں یہاں بیان کی جارہی ہیں:
گورنر جنرل غلام محمد (بیوروکریٹک پس منظر) اور اسکندر مرزا (آرمی اور بیوروکریٹک پس منظر) نے حکومتوں کو بنانے اور توڑنے کیلئے سینئر بیوروکریسی میں اپنے روابط کو استعمال کیا۔ انہیں آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان کی حمایت حاصل تھی۔ ان تینوں لوگوں نے 1953-58 ء میں سیاسی قوتوں کا جوڑ توڑ کیا۔ کچھ مثالیں: گورنر جنرل غلام محمد نے اپریل 1953ء کو وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برخاست کیا اور محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم مقرر کیا جو اُس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے۔ مسلم لیگ نے گورنر جنرل کے انتخاب کو قبول کیا اور بوگرا کو پارٹی سربراہ کے طور پر منتخب کر لیا اورگورنر جنرل کے ذریعے اکتوبر 1954ء میں آئین ساز اسمبلی کی تحلیل اور 1955ء میں مغربی پاکستان کے مربوط صوبے یعنی ون یونٹ کے قیام کو بھی قبولیت بخشی۔ 1955ء میں اسکندر مرزا نے غلام محمد کی جگہ گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا۔ اُن کی طرف سے سیاسی انجینئرنگ کی کچھ مثالیں: اپریل 1956ء میں ریپبلکن پارٹی کا قیام اور1955-58 ء میں چار وزرائے اعظم کی تبدیلی۔ دیگر مثالوں میں 1962ء میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کا نفاذ (1979ء‘ 1986ء اور 2002ء میں اس میں کی گئی تبدیلیاں کی گئیں ) جبکہ سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کیلئے متعدد فوجی اور سویلین حکومتوں کے ذریعہ احتساب کے عمل کا استعمال کیا گیا ۔
آئینی انجینئرنگ کا سہارا فوجی حکومتوں نے باقاعدگی سے لیا جس نے یا تو ایک نیا آئین دیا یا 1973ء کے آئین میں ترمیم کی تاکہ انہیں اقتدار میں لایا جا سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ براہ راست فوجی حکمرانی کے خاتمے کے بعد آئین کی بحالی سے ان کے اہم کردار پر سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ سویلین حکومتوں نے 1973ء کے آئین میں بھی بنیادی طور پر اپنے اختیارات کے ایجنڈوں کی تکمیل کیلئے ترمیم کی۔ ذوالفقار علی بھٹو (دسمبر 1971ء تاجولائی 1977ء) اور نواز شریف (دوسری حکومت: فروری 1997ء تا اکتوبر 1999ء) کی سول حکومتوں نے اپنی حکمرانی کو مضبوط بنانے کیلئے متعدد آئینی ترامیم منظور کیں۔ 15ویں آئینی ترمیم (1998ء) جسے پارلیمنٹ نے منظور نہیں کیا تھا‘ شریف حکومت نے ملک میں اسلام نافذ کرنے کے بہانے لامحدود ایگزیکٹو اختیارات حاصل کرنے کیلئے شروع کی تھی۔ 17ویں آئینی ترمیم (2003ء) نے مشرف حکومت کے اقتدار کے ایجنڈے کی خدمت کی۔
ذیل میں آئینی تجربات اورمختلف حکومتوں کے سیاسی اور آئینی انجینئرنگ کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے:
(1): 1947ء کا عبوری آئین (گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935‘ پاکستان میں اپنایا گیا )۔ (پارلیمانی نظام): 15 اگست 1947ء تا 22 مارچ 1956ء۔ (2): پہلا باقاعدہ آئین‘ 1956ء(پارلیمانی نظام)23 مارچ‘ 1956ء تا 7 اکتوبر 1958ء۔ (3) :دوسرا باقاعدہ آئین‘ 1962ء (صدارتی نظام) 8 جون1962 تا 25 مارچ1969ء۔ (4): لیگل فریم ورک آرڈر‘ مارچ 1970ء۔ جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت کی طرف سے 1970 ء کے عام انتخابات کے انعقاد کیلئے جاری کیا گیا۔ اس نے قومی اسمبلی کیلئے فریم ورک اور رہنما اصول فراہم کیے۔ انتخابات دسمبر 1970ء میں ہوئے‘ لیکن قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہو سکا۔ (5): جنرل یحییٰ خاں کی حکومت نے ایک آئین تیار کیا جس کے خدو خال کا اعلان 16 دسمبر 1971ء کو کیا جانا تھا مگر سکوت ڈھاکہ کے ہنگام یہ کام نہ ہو سکا ۔ (6): 1972ء کا عبوری آئین (صدارتی نظام)‘ 21 اپریل 1972ء تا 13 اگست 1973ء۔ (7): تیسرا باقاعدہ آئین‘ 1973ء (پارلیمانی نظام)14 اگست 1973 سے اب تک۔ (8): 1973ء کے آئین کی پہلی معطلی: 5 جولائی 1977ء تا دو مارچ 1985ء۔ (9):دوسری معطلی: 12 اکتوبر‘ 1999ء۔ جزوی طور پر بحالی: 16 نومبر‘ 2002ء۔مکمل طور پر بحالی: 12 مارچ 2003ء۔ (10): تیسری معطلی: 3 نومبر 2007ء تا 15 دسمبر 2007ء۔ (11): 1973ء کے آئین میں بڑی تبدیلیاں: (a) جنرل ضیاالحق کی حکومت کے ذریعہ مارچ 1981ء کے عبوری آئینی حکمنامے کا نفاذ۔ (b): جنرل ضیاالحق کی حکومت کی آئینی آرڈر کی بحالی(RCO): مارچ 1985ء۔ اس میں سے بیشتر کو پارلیمنٹ نے آٹھویں آئینی ترمیم کے طور پر منظور کیا تھا۔ (C): جنرل پرویز مشرف کی حکومت کی طرف سے جاری کردہ لیگل فریم ورک آرڈر (LFO): اگست 2002ء۔ (d): پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران آئین میں تجویز کردہ طریقہ کار کے ذریعے اور پارلیمنٹ کی منظوری کے ساتھ اٹھارہویں آئینی ترمیم: اپریل 2010ء۔ (12): عبوری آئینی حکمنامہ ( PCO): تمام فوجی حکومتوں نے سیاسی نظام کو قانونی فریم ورک کے اندر رکھنے کیلئے اختیارات کے مفروضے پر عبوری آئینی حکمنامے جاری کیے۔ جنرل ضیاالحق نے مارچ 1981ء میں اختلافِ رائے کو مکمل طور پر روکنے اور اپنی حکمرانی کو مضبوط بنانے کیلئے ایک اور PCO بھی جاری کیا۔ جنرل مشرف نے تین مارچ 2007ء کو ایک نیا PCO بھی جاری کیا‘ جب انہوں نے دوسری بار آئین کو معطل کردیا۔ تمام PCOs نے براہ راست فوجی حکمرانی کی مدت کے دوران فوجی حکمران (چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یا چیف ایگزیکٹو) کو سپریم قانونی اور آئینی اتھارٹی قرار دیا۔
(13) صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن کے اندر انتخابات نہ کروا کر 1973 ء کے آئین کو 2023ء میں بھی نظرانداز کیا گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved