مندرجہ بالا عنوان سے پانچ قسطیں شائع ہو چکی ہیں، یہ چھٹی قسط ہے، اس میں چند ایسے اعمال کا ذکر ہے جن کا ارتکاب کرنے والوں پر قرآن وحدیث میں لعنت فرمائی گئی ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ''جس نے زمین کی حدود تبدیل کیں، سو اس پر اللہ کی لعنت ہے اور قیامت کے دن اس کا غضب ہو گا اور اللہ تعالیٰ اس کی نفل یا فرض عبادت قبول نہیں کرے گا‘‘ (معجم الکبیر للطبرانی: 33)۔ ہر جگہ زمین کی حد بندی ہوتی ہے، جس سے دو بندوں کی ملکیت میں امتیاز ہوتا ہے، حدود متعین ہوتی ہیں، کچھ لوگوں کو بیماری ہوتی ہے کہ اپنی زمین کی حدود کو وسعت دینے کے لیے ان کی حدود کو تبدیل کرنے کے لیے زمین کی حد بندی کے نشانات کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں، حد بندی کے نشانات کو مٹانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ملکیتی حدود کو بڑھا کر دوسرے کی زمین کو اپنی ملکیت میں شامل کیا جائے، گویا یہ دوسرے کی زمین پر ناحق قبضہ کرنے کی صورت ہے۔ حدیث میں ہے: ''حضرت سعیدؓ بن زید بن عمرو بن نُفیل بیان کرتے ہیں: اَرویٰ (بنت اُنیس) سے ان کا ایک زمین کے متعلق تنازع ہوا، اَرویٰ کا خیال یہ تھا کہ میں نے ان کی زمین غصب کر لی ہے، اَرویٰ نے مروان کے پاس مقدمہ دائر کیا، حضرت سعیدؓ بن زید نے کہا: میں اس کا حق کیسے دبا سکتا ہوں، حالانکہ میں گواہی دیتا ہوں: میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے ضرور سنا ہے: ''جس نے کسی شخص کی ایک بالشت کے برابر زمین بھی ظلماً غصب کی تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا‘‘ (بخاری: 3198)۔
اس حدیث میں قبضہ مافیائوں کے لیے وعید ہے جو زمینوں پر ناجائز قبضہ کرتے ہیں اور دہشت پھیلا کر اور ڈرا دھمکا کر کسی کے پلاٹ، فلیٹ یا مکان پر قبضہ کر لیتے ہیں، ملکیت کے جعلی کاغذات بنا لیتے ہیں‘ یہ لوگ دادا گیر، رسہ گیر اور قبضہ مافیا کہلاتے ہیں‘ ان کی دہشت کی وجہ سے شریف لوگ ان کے منہ نہیں لگتے، یہ شریف لوگوں کو ایسی دھمکیاں دیتے ہیں کہ وہ پہلوتہی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، متعلقہ محکموں کے افسران بھی ایسے لوگوں سے ملے ہوتے ہیں، تھانہ کچہری میں بھی ان کا اثر رسوخ ہوتا ہے، پٹواری ان کے جیب میں ہوتے ہیں، ہر شخص کو اس حیثیت کے بقدر حصہ ملتا ہے۔ بعض اوقات ان محکموں کے افسران خود ہی لینڈ مافیا کو ایسی جگہوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ قانونی اور محکمہ جاتی ہیر پھیر کے طریقے بتاتے ہیں اور جہاں مکمل قبضہ ممکن ہو، قبضہ کرانے میں مدد کرتے ہیں۔ جہاں ایسا ممکن نہ ہو تو مک مکا کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ نہ کچھ ضرور لے کر ٹلتے ہیں۔ اس لیے شریف آدمی ایسے افراد کے شر سے بچنے کے لیے خاموشی ہی میں عافیت سمجھتا ہے، اس طرح یہ لوگ کامیاب ہوجاتے ہیں۔
لیکن قیامت کے دن نہ تعلقات کام آئیں گے اور نہ لین دین ہو گا، اُس دن اللہ واحد قہار کی حکومت ہو گی، اس دنیا میں جس نے دوسرے کی جتنی بھی زمین دبائی ہو گی، قیامت کے دن اسی کے برابر سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں ڈالا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی لعنت اور غضب کا مستحق ہو گا اور دنیا میں اس نے جتنے بھی فرض اور نفل عبادات انجام دی ہوں گی، وہ بھی قبول نہیں ہوں گی اور جتنا بھی مال لیا ہوگا، اس کو واپس کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اے ایمان والو! جو مال ہم نے تمہیں عطا کیا ہے، اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو قبل ازیں کہ وہ دن آجائے جب نہ (نیکیوں کا) لین دین ہو گا، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی اور کافر ہی ظالم ہیں‘‘ (البقرہ: 254)۔
حدیث پاک میں ہے: '' حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے، صحابہ کرام نے عرض کی: ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس کوئی روپیہ پیسہ اور ساز و سامان نہ ہو، اس پر آپﷺ نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ جیسے اعمال لے کر آئے گا، لیکن اس نے (دنیا میں) کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر (ناجائز) تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال (ناحق) کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا، کسی کو مارا ہو گا، چنانچہ (اس کے مَظالم کے عوض) اس کی نیکیاں ان (مظلوم) لوگوں کو دے دی جائیں گی اور اگر تمام حق داروں کے حقوق کا بدلہ پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو پھر ان حق داروں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے، پھر اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا‘‘ (ترمذی: 2418)۔
میرٹ کے خلاف اقربا پروری: احادیث مبارکہ میں ہے (1): حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ کے لیے ایک پالتو بکری کا دودھ دوہا گیا، اس وقت آپ حضرت انسؓ بن مالک کے گھر میں تھے، حضرت انسؓ کے گھر کے کنویں سے پانی لے کر اس دودھ میں ملایا گیا تھا، رسول اللہﷺ کو وہ دودھ پیش کیا گیا، آپﷺ نے اس دودھ سے پیا، پھر اس پیالے کو اپنے منہ سے الگ کر دیا، آپﷺ کی بائیں جانب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور دائیں جانب ایک اعرابی تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ اندیشہ ہوا کہ آپ اپنا پس خوردہ دودھ اَعرابی کو دے دیں گے تو انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! ابوبکر آپ کے پاس ہیں، آپ ان کو عطا کر دیں، سو آپﷺ نے وہ دودھ اس اَعرابی کو دے دیا جو آپ کے دائیں طرف تھا، پھر آپﷺ نے فرمایا: حسبِ ترتیب دائیں طرف سے دو، پس دائیں طرف سے دو‘‘ (بخاری: 2352)۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے سب ہی معترف تھے اور آپﷺ نے انہیں اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں اپنی جگہ منصِبِ امامت پر کھڑا کیا، لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نظر میں فضیلت کا تقاضا یہ تھا کہ رسول اللہﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آغاز کرتے، لیکن آپﷺ نے میرٹ کو ترجیح دی اور چونکہ دائیں طرف سے آغاز کرنا افضل ہے اور دائیں جانب ایک اَعرابی تھا، تو آپﷺ نے اُسی سے آغاز کرنے کا حکم فرمایا۔
(2) ''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ کے پاس بحرین سے مال آیا اور یہ رسول اللہﷺ کے پاس آنے والے مالوں میں سب سے زیادہ تھا، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس کو مسجد میں پھیلا دو، رسول اللہﷺ نماز پڑھانے کے لیے چلے گئے اور آپﷺ نے اس مال کی طرف کوئی توجہ نہیں کی، جب آپﷺ نے نماز پڑھ لی تو اس مال کے پاس آکر بیٹھ گئے، آپﷺ جس شخص کو بھی دیکھتے، اس کو اس مال سے عطا کرتے، اچانک آپﷺ کے پاس (آپ کے چچا) حضرت عباس رضی اللہ عنہ آگئے اور انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! مجھے دیجیے! کیونکہ میں نے (غزوۂ بدر میں) اپنے ساتھ عقیل (بن ابی طالب) کا فدیہ بھی دیا تھا، تو رسول اللہﷺ نے اُن سے فرمایا: آپ لے لیں، انہوں نے اپنا کپڑا بچھایا اور اس میں مال ڈالا حتیٰ کہ اس کی چوٹی (بڑا ڈھیر) بن گئی، پھر وہ اس کو اٹھا نہ سکے۔ انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! آپ کسی سے کہیں کہ وہ اس گٹھڑی کو اٹھاکر میرے اوپر رکھ دے، آپﷺنے فرمایا: نہیں، انہوں نے پھر عرض کی: پھر آپﷺ خود اس کو اٹھا کر میرے اوپر رکھ دیں، آپﷺ نے فرمایا: نہیں، انہوں نے اس سے مال کم کیا، پھر بھی اس کی چوٹی بن گئی، پھر انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! آپ کسی سے کہیے: یہ مال اٹھاکر میرے اوپررکھ دے، آپﷺنے فرمایا: نہیں، انہوں نے پھر عرض کی: اچھا! آپ خود اٹھاکر میرے اوپر رکھ دیں، آپﷺنے فرمایا: نہیں، انہوں نے اس سے کچھ مال مزید کم کیا، پھر اٹھاکر اس کو اپنے کندھے کے اوپر رکھا اور چلے گئے، ان کی حرص پر تعجب کی وجہ سے رسول اللہﷺ کی نظر مسلسل ان کا پیچھا کرتی رہی حتیٰ کہ وہ نظر سے اوجھل ہو گئے اور جب تک وہاں ایک درہم بھی باقی تھا، رسول اللہﷺ وہاں سے نہیں اٹھے‘‘ (صحیح بخاری: 421)۔ غور کا مقام ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہﷺ کے چچا بھی تھے اور آپ سے عمر میں بھی بڑے تھے، لیکن آپﷺ چونکہ بحیثیتِ حاکم مال کو تقسیم فرما رہے تھے، اس لیے آپ نے عدل کے اصول کو قائم رکھا اور قرابت کو ترجیح نہیں دی، کیونکہ آپﷺ نے ہر ایک کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ جتنا مال خود اٹھا سکتا ہے، اٹھا لے۔
(3) ''حضرت یزیدؓ بن ابی سفیان بیان کرتے ہیں: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے شام (کا حاکم بنا کر) بھیجتے وقت فرمایا: اے یزید! تمہاری قرابت داریاں ہیں، اندیشہ ہے کہ تم مناصب تفویض کرتے وقت ان کو ترجیح دو گے، مجھے اس بات (اقربا پروری) کا تم پر زیادہ خوف ہے، پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کو مسلمانوں کی معامالات کا نگران بنایا گیا تو وہ ان پر (اہلیت کو نظر انداز کرکے) کسی ایسے شخص کو امیر بنائے جو اس کا من پسند ہو، تو اس پر اللہ کی لعنت ہو اور اللہ اس کی کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول نہیں فرمائے گا حتیٰ کہ وہ اس کو جہنم میں داخل کر دے گا‘‘ (مستدرک حاکم: 7924)، (2) ''حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! جس کو میری امت کے معاملات کا نگران بنایا جائے اور وہ میری امت پر نرمی کرے تو تُو اس سے نرمی فرما اور جو ان پر سختی کرے تُو اس پر سختی فرما‘‘ (معجم الاوسط: 360)۔
سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے احکام پر فیصلہ نہ دینے والے حاکم اور قاضی پر بالترتیب فاسق، ظالم اور کافر ہونے کا حکم لگایا گیا ہے، پس جو حاکم یا قاضی اپنی کوتاہی کی بنا پر شریعت کے مطابق فیصلہ نہ دے، وہ فاسق ہے، جو سرکشی کی بنا پر ایسا کرے، وہ ظالم ہے اور جو اللہ کے حکم کو اعتقادی طور پر ردّ کرے، وہ کافر ہے اور جو عقیدہ تو حکم الٰہی کے حق پر ہونے کا رکھے، مگر عملاً قدرت کے باوجود نافذ نہ کرے تو یہ کفر عملی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے باطل طریقوں سے ایک دوسرے کا مال کھانے‘ خاص طور پر رشوت سے منع فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھائو اور نہ (بطور رشوت) وہ مال حاکموں تک پہنچائو تاکہ تم لوگوں کے مال کا کچھ حصہ گناہ کے ساتھ کھائو حالانکہ تم جانتے ہو (کہ یہ فعل ناجائز ہے)‘‘ (البقرۃ: 188)۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved