کم و بیش تین صدیوں کے بعد طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ یہ تین صدیاں مجموعی طور پر یورپ کی رہی ہیں۔ بعد میں امریکہ اور کینیڈا وغیرہ بھی یورپ کے ساتھ مل کر مغرب کی تشکیل کے بنیادی عناصر بنے۔ آج دنیا بھر میں مغرب سے مراد ہے یورپ اور براعظم امریکہ۔ ان دونوں خطوں نے مل کر دنیا پر کم و بیش چار صدیوں تک راج کیا ہے اور اِس دوران اِنہوں نے جو کچھ بھی درست سمجھا‘ وہ کیا اور کسی کے مفادات کی ذرا بھی پروا نہیں کی۔ یورپی قوتوں نے کئی خطوں کو تاراج کرکے اپنی شاندار ترقی کی راہ ہموار کی۔ مفتوح اور زیرِ نگیں علاقوں سے خام مال اور دیگر قدرتی وسائل چھین کر اپنی صنعتی بنیادوں کو مضبوط بنانے والا یورپ اِس گھناؤنے عمل کے دوران تہذیب و تمدن کا داعی بھی بنا رہا! یورپ نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے مگر اُس سے کہیں زیادہ لیا ہے۔ آج ہر معاملے میں یورپ کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ وہ علم و فن کے حوالے سے اینڈ پوائنٹ کی سی حیثیت رکھتا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ خود یورپ کے اہلِ دانش کو اپنے گھناؤنے ماضی کا احساس ہے۔ وہ اب بھی اس بات سے خوفزدہ ضرور ہیں کہ جن خطوں کو انہوں نے پامال کیا تھا وہ اگر کبھی مضبوط ہوکر ابھرے اور متحد ہوگئے تو کیا ہوگا۔ یہ خوف کسی نہ کسے درجے میں امریکہ کو بھی لاحق ہے۔
دنیا کا عجیب حال رہا ہے۔ طاقت میوزیکل چیئر جیسا کھیل ہے۔ جس طور کرسی کسی کی نہیں ہوتی بالکل اُسی وقت حکمرانی بھی کبھی کسی کی نہیں ہوتی۔ کھیل وہی رہتا ہے، کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں۔ طاقت مرعوب کرتی ہے اور کبھی کبھی اِتنا مرعوب کرتی ہے کہ مفتوح یا زیرِ نگیں خطے صدیوں دبے رہتے ہیں، اُن کی نفسی ساخت پنپ ہی نہیں پاتی، اُن میں وہ اعتماد پیدا ہی نہیں ہو پاتا جو کسی بھی قوم کی قامت بلند کرنے کے درکار ہوا کرتا ہے۔
جب بھی کوئی ملک یا خطہ علم و فن میں غیر معمولی پیش رفت کے ذریعے دوسروں کے لیے مثال بنتا ہے تب اُس کی طاقت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس طاقت کو وہ اپنی تہذیبی روایت کے مستحکم کرنے کی خاطر بروئے کار لاتا ہے۔ جب بھی کوئی خطہ غیر معمولی طاقت کا حامل ٹھہرتا ہے اور پڑوسی خطوں پر اپنی برتری ثابت کرنے میں کامیاب رہتا ہے تب وہ اپنے حدود سے نکل کر دوسروں تک پہنچتا ہے اور تہذیب کے حوالے سے اُن کی تطہیر پر کمر بستہ ہو جاتا ہے۔ جب مسلمان مضبوط تھے اور کئی خطوں پر حکمران تھے تب اُن کی تہذیب بھی دنیا کے لیے قابلِ قبول تھی۔ ایک دور تھا کہ یورپ میں عربی سیکھنے پر اُسی طرح فخر کیا جاتا تھا جس طرح آج ہم متعدد خطوں کے لوگ انگریزی سیکھنے اور مغربی اطوار اپنانے پر فخر کرتے ہیں۔
اسلام سے قبل اہلِ فارس اور اہلِ روم سپر پاور کا درجہ رکھتے تھے۔ تب باقی دنیا اِن دونوں سے ہٹ کر کسی اور کے ابھرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ کمزور خطوں کے لوگ اِس سوچ کے دائرے میں مقید ہوکر رہ گئے تھے کہ اب اِن دونوں خطوں کی غلامی اُن کا مقدر ہوچکی ہے۔ اسلام کی آمد ہوئی تو ابتدا میں مسلمانوں نے صرف فتوحات کے ذریعے اپنی بات منوائی۔ فتوحات کا سلسلہ رُکا تو مفتوح علاقوں میں علم و فن کی ترویج کا عمل شروع ہوا۔ یوں مسلمانوں نے عصری علوم و فنون میں اپنے آپ کو منوانے کی ابتدا کی۔ بہت سے مفتوح علاقوں کو مسلمانوں نے اِتنی ترقی دی کہ اُن کے لیے ڈھنگ سے جینا ممکن ہوسکا۔ صدیوں کی غلامی نے اُن کی روح کو مجروح ہی نہیں کیا تھا بلکہ بزدل بھی بنا ڈالا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب موجودہ یورپ کے لوگوں نے‘ جو تب تک جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے‘ مسلمانوں کی تہذیب کو حتمی مقدر سمجھنا شروع کردیا۔ عروج کے بعد زوال آتا ہی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ علم و فن کی بلندی پر پہنچنے کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا۔ انحطاط نے رفتہ رفتہ زوال کی شکل اختیار کی اور یوں مسلمانوں کا دور رخصت ہوا۔ پندرہویں صدی عیسوی کے آنے تک یہ واضح ہوگیا کہ اب دنیا کی امامت یورپ کو بخشی جائے گی۔ اور یہی ہوا! یورپی طاقتوں نے اپنے اپنے علاقوں سے نکل کر دنیا کو مٹھی میں لینا شروع کیا اور یوں اُن کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یورپی اقوام یا نسلوں کے لیے ناگزیر تھا کہ زیادہ سے زیادہ زمین حاصل کریں کیونکہ یورپ کا رقبہ بہت کم تھا۔ اِتنے کم رقبے کے ساتھ باقی دنیا کو مٹھی میں رکھنا ممکن نہ تھا۔ متعدد یورپی اقوام نے مل کر امریکہ کو مٹھی میں لیا اور اُسے اپنا مستقل مستقر بنا لیا۔ سب نے مل کر امریکہ کو طاقت بخشی۔ اِس پورے براعظم کو یورپی تہذیب و تمدن کا نمونہ بنانے پر خاص توجہ دی گئی۔ انگریزی 'لنگوا فرانکا‘ یعنی عالمی رابطے کی زبان بنی۔ دیگر یورپی زبانیں بھی امریکہ میں بولی جاتی ہیں۔ امریکہ کے علاوہ میکسیکو اور جنوبی امریکہ کے ممالک میں ہسپانوی زبان بولنے والے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
یورپ اور امریکہ نے ہمیشہ مل کر کام کیا ہے۔ عالمی سطح پر اپنے ایجنڈوں کو اُنہوں نے مل کر آگے بڑھایا ہے۔ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتے ہوئے اُنہوں نے کئی خطوں کو یوں تاراج کیا کہ اُن کے قدرتی وسائل سے دونوں کو غیر معمولی فائدہ پہنچا۔ طاقت میں اضافے کا عمل دو صدیوں تک جاری رہا ہے۔ انیسویں صدی مکمل طور پر یورپ کی تھی جبکہ بیسویں صدی میں امریکہ اور یورپ نے مل کر اپنے اپنے مقاصد حاصل کیے۔ ہاں، اِس صدی کے دوران امریکہ واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا۔ امریکہ اور یورپ کے ابھرنے کے بعد بھی یہ تصور یا تاثر پروان چڑھا کہ اب اُن کے عروج کے لیے زوال نہیں۔ دنیا بھر میں بہت سے لوگ اب بھی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ امریکہ اور یورپ سے ہٹ کر کوئی دوسرا ملک طاقت کا حامل ہوسکتا ہے۔ اِن دونوں خطوں نے ہر شعبے میں اپنی برتری اِس طور منوائی ہے کہ کمزور اور پسماندہ اقوام شدید مرعوبیت کے شکنجے میں ہیں۔
آج پھر طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ چار صدیوں سے بھی زائد مدت کے دوران صرف اور صرف مغرب نے دنیا کو اپنی مٹھی میں رکھا۔ تین صدیاں یورپ کی تھیں اور بیسیویں صدی امریکہ کے نام رہی۔ اب روس اور چین مل کر ایشیائی صدی کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ دونوں کے پاس قدرتی وسائل کی کمی نہیں اور ٹیکنالوجی میں بھی یہ کمتر نہیں۔ چین معاشی اعتبار سے بہت مضبوط ہے۔ روس کی معیشت قابلِ رشک استحکام نہیں رکھتی؛ تاہم وہ عصری علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت اور مہارت کے ذریعے اپنی کمزوریوں کو عمدگی سے چھپانے اور دبانے میں کامیاب رہا ہے۔ امریکہ نے پانچ عشروں تک (یورپ کے ساتھ مل کر) واحد سپر پاور کی حیثیت سے دنیا کو چلایا۔ سابق سوویت یونین کی موجودگی میں بھی معاملات امریکہ ہی کے ہاتھ میں رہتے تھے۔ اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ امریکہ معاشی اعتبار سے زیادہ مضبوط نہیں مگر چونکہ عالمی سیاسی و معاشی نظام میں وہ کلیدی اور قائدانہ حیثیت کا حامل رہا ہے اِس لیے اِس ایڈوانٹیج کی بدولت اب تک اپنی سپر پاور کی حیثیت کسی نہ کسی حد تک برقرار رکھے ہوئے ہے۔
اب طاقت کے کئی مراکز ہیں۔ کبھی دنیا دوقطبی تھی یعنی امریکہ اور سوویت یونین معاملات چلاتے تھے، پھر یک قطبی ہوئی یعنی فیصلے صرف امریکہ کی مرضی سے ہونے لگے اور اب کثیر قطبی ہے یعنی طاقت کے کئی مراکز مل کر دنیا کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ چین اور روس بھی مل کر عالمی سیاست و معیشت میں اپنی بات منوا رہے ہیں۔ بھارت بھی کچھ ابھرنے کی کوششوں میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ پاکستان کا محلِ وقوع اِسے بہت کچھ دے سکتا ہے اور دیتا رہا ہے۔ قیادت مستحکم ہو تو اس محلِ وقوع کی مدد سے قومی طاقت میں غیر معمولی بلکہ قابلِ رشک حد تک اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اِس کے لیے اندرونی مناقشوں پر قابو پانا ہوگا اور جو بھی ہمارے لیے کچھ کرسکتا ہو اُس کی راہ سے رکاوٹیں ہٹانا ہوں گی۔ پاکستان کی ضرورت یورپ اور امریکہ کو بھی ہے اور روس کے علاوہ وسطی ایشیا کو بھی۔ چین کو ہماری ضرورت البتہ زیادہ ہے مگر ہم ہیں کہ اب تک اُس کے لیے سازگار نہیں ہو پائے۔ اِس حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved