پاکستان میں عوامی رائے سے عام انتخابات کی تاریخ 1970ء سے شروع ہوتی ہے‘ اس سے پہلے کے عرصہ میں دستور ساز اسمبلی کیلئے صوبائی سطح پر انتخابات ہوتے رہے۔60 ء کی دہائی تک مشرقی اور مغربی پاکستان میں بنیادی جمہوریت کا نظام رائج رہا جو ون یونٹ کی بنیاد پر قائم تھا‘ متعلقہ یونٹ کے عوام کی حمایت سے منتخب اراکین کو بی ڈی ممبران کہا جاتا تھا۔ جنرل ایوب خان کو انہی بی ڈی ممبران نے صدر منتخب کیا تھا۔ بعد ازاں 1962ء میں اراکین ِقومی اسمبلی کا انتخاب بھی بی ڈی ممبران سے کرایا گیا۔ 1965ء میں جنرل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان مشہور زمانہ صدارتی انتخاب میں دراصل بی ڈی ممبران کا کمال تھا جنہیں جمہوریت کا نام دیا جا رہا تھا۔ اس نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ بی ڈی ممبران کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کوئی بھی حیلہ استعمال کر کے اپنے حق میں نتائج حاصل کئے جا سکتے تھے‘ اسکے برعکس اگر عوام کی شمولیت سے آزادانہ انتخابات کرائے جاتے تو نتائج مختلف ہوتے۔ جمہوری معاشروں میں انتخابات عوامی رائے کے احترام کا نام ہے‘ تاہم جب 1970ء میں پاکستان کی تاریخ کے پہلے براہِ راست انتخابات ہوئے تو مشرقی پاکستان میں عوامی مسلم لیگ جبکہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔عوامی لیگ کی 160 سیٹوں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی 81 سیٹیں تھیں‘ دیگر جماعتوں کی مجموعی سیٹیں 29 تھیں۔ جمہوریت کی روح کے مطابق عوامی لیگ کو حکومت سازی کا حق حاصل تھا مگر جنرل یحییٰ خان نے الیکشن نتائج کو تسلیم کرنے کی بجائے مشرقی پاکستان میں آپریشن شروع کر دیا۔ گمبھیر سیاسی معاملات کا بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ معاملات اس نہج پر پہنچنے کی وجہ نتائج کو تسلیم نہ کرنا تھی۔
سپریم کورٹ کے حکم پر عام انتخابات کی تاریخ کا تعین خوش آئند ہ۔ الیکشن کی تاریخ پر سب کا اتفاق بھی ہے اور بغیر کسی اعتراض کے یہ اہم مرحلہ طے پا گیا ہے۔ اس سے قبل سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے پاس بھی الیکشن کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں‘ انہوں نے حکومت کو بیک وقت انتخابات کے انعقاد کیلئے 21 ارب روپے جاری کرنے کے احکامات بھی جاری کئے مگر مسئلہ حل نہ ہو سکا‘ بلکہ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں احتجاج کیلئے سپریم کورٹ کے سامنے پہنچ گئیں۔ اب وہی مسئلہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا ہے۔ اگر 29 جنوری سے پہلے کسی تاریخ پر اصرار کیا جاتا تو الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تیاریوں کیلئے جو عرصہ درکار تھا وہ میسر نہ آتا اور الیکشن کمیشن کیلئے بروقت انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کا جواز موجود رہتا‘ رہی یہ بات کہ فروری میں سردی ہوتی ہے اور انتہائی سرد علاقوں میں ووٹرز کو باہر نکالنا مشکل ہو جائے گا تو اس سے پہلے 1997ء اور 2008ء کے انتخابات بھی فروری میں ہو چکے ہیں۔ اسکا مطلب ہے اس بار بھی انتخابات ہو جائیں گے‘ تاہم انتخابات کے حوالے سے سب سے بڑا سوال تحریک انصاف کی انتخابات میں شمولیت سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس چل رہا ہے اور ٹی ایل پی کے انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق بھی سوال اُٹھ رہا ہے کہ فارن فنڈنگ کے الزامات کیساتھ اسے الیکشن لڑنے کی اجازت کیسے دی گئی؟ اگر ٹی ایل پی پر فارن فنڈنگ ثابت ہو جاتی ہے تو پی ٹی آئی کیلئے بھی مشکلات پیدا ہوں گی۔ اگر عدالت کے ذریعے چیئرمین پی ٹی آئی نااہل ہوتے ہیں اور انکے قریبی رفقا بھی اسکی زد میں آتے ہیں تو اس سے اگرچہ سیاسی جماعتوں کا دامن محفوظ رہے گا لیکن دنیا اس پر سوال اٹھائے گی۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات کے بعد حالات سازگار ہو جائیں گے‘ کیا انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونیوالی حکومت مختصر مدت میں معاشی بحران ختم کر کے عوام کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہو گی؟ سکیورٹی چیلنجز سر اُٹھا رہے ہیں‘ افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کے اثرات سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ سکیورٹی فورسز مسلسل شدت پسندوں کے نشانے پر ہیں۔ بلوچستان کے علاقے پسنی میں سکیورٹی گاڑیوں پر گھات لگا کر کیے گئے حملے میں 14 اہلکار شہید ہوئے ہیں۔ اس سے قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں ایلیٹ فورس کی گاڑی کو نامعلوم افراد کی جانب سے نشانہ بنایا گیا جس میں پانچ افراد شہید جبکہ 21 افراد زخمی ہوئے‘ جبکہ ہفتہ کی صبح پاکستان ایئر فورس ٹریننگ ایئر بیس میانوالی پر دہشت گردوں کے ایک گروہ نے منظم حملہ کرنے کی کوشش کی۔ دہشت گردوں نے جونہی میانوالی ٹریننگ ایئربیس پر حملہ کیا پاک فوج کے جوانوں نے بروقت اور مؤثر جوابی کارروائی کی بدولت ناکام بنا دیا ۔اہلکاروں اور اثاثوں کی حفاظت کو یقینی بنایا‘ کچھ دہشت گردوں کو داخل ہوتے ہی مار دیا گیا البتہ تین دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا تو انہوں نے اس دوران پہلے سے گراؤنڈ کیے غیر فعال طیاروں کو کچھ نقصان پہنچایا جبکہ ایک فیول باؤزر بھی متاثر ہوا۔ کچھ ہی دیر میں پاک فوج نے نو دہشت گردوں کو ہلاک کر کے کلیئرنس آپریشن مکمل کر لیا۔ یکم نومبر کوژوب کے علاقے سمبازا میں سکیورٹی فورسز نے خفیہ اطلاع کی بنیاد پر کارروائی کرکے چھ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تھا۔ مارے گئے دہشت گردوں کے قبضے سے اسلحہ‘ بارود اور دھماکا خیز مواد برآمد ہوا۔ دہشت گرد سکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گردی کی سرگرمیوں اور بے گناہ شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں مصروف تھے۔ 30 اکتوبر کو بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے کھوڑو میں کارروائی کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں دو سکیورٹی اہلکار شہید اور دو دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے اعداد و شمار کے مطابق اگست میں دہشت گردوں کے حملوں کی تعداد نو سال کے دوران سب سے زیادہ رہی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ نومبر 2014 ء کے بعد ملک بھر میں ایک مہینے میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ 99حملے ہوئے۔ عام انتخابات کی تاریخ سامنے آنے کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ تشویشناک ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم شروع کرنے والی ہیں۔ سکیورٹی خطرات کے پیش نظر مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ اگرچہ وقت کی ضرورت تھا مگر اس منصوبے پر مرحلہ وار بھی کام کیا جا سکتا تھا جہاں چالیس برس صبر و تحمل سے کام لیا وہاں کچھ عرصہ مزید صبر کیا جا سکتا تھا تاکہ سکیورٹی اداروں کی تمام تر توجہ عام انتخابات پر مرکوز ہوتی۔ اب کئی محاذ کھل گئے ہیں جن پر قابو پانا بہرصورت سکیورٹی اداروں کیلئے چیلنج ہو گا۔ افغانستان کے عبوری وزیر اعظم مُلا حسن اخوند نے ایک پیغام کے ذریعے پاکستان سے افغان مہاجرین کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے پیشکش کی ہے کہ اگر پاکستان کو افغانستان کی حکومت سے شکایات ہیں تو انہیں باہمی مذاکرات اور افہام و تفہیم سے حل کرتے ہیں۔ مُلا حسن اخوند نے اپنے جذباتی پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان کے علما‘ سیاسی جماعتوں اور عوام مہاجرین کے ساتھ اخوت و بھائی چارے سے پیش آنے کیلئے آواز بلند کریں۔ ہماری دانست میں یہ بہترین موقع ہے کہ مہاجرین کی واپسی کا عمل روکے بغیر افغانستان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دیا جائے کیونکہ افغانستان برادر اسلامی اور پڑوسی ملک ہے‘ خوشگوار تعلقات دونوں کی ضرورت ہے۔
ملک میں 12 ویں عام انتخابات کے انعقاد میں اب بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے‘ تاہم1970ء سے اب تک تمام انتخابات نتائج کے اعتبار سے متنازع رہے ہیں‘ اب کی بار نتائج کے متنازع بننے کی ایک سے زیادہ وجوہات موجود ہیں‘ اس لئے سیاسی جماعتوں کے پیش نظر انتخابات کے قابلِ قبول نتائج اہم ہونا چاہئے‘ جس میں کامیاب ہونے والی جماعت حکومت بنائے اور ہارنے والی جماعت بخوشی اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کیلئے تیار ہو۔یہی حقیقی جمہوریت ہے اور سیاسی استحکام کا واحد راستہ بھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved