آخرکار سپریم کورٹ نے الیکشن کے حوالے سے ابہام دور کردیا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو مسئلہ سٹیک ہولڈرز کی وجہ سے پیچیدہ بنا ہوا تھا چیف جسٹس آف پاکستان نے اُسے احسن طریقے سے طے کردیا ہے۔اب یہ ابہام دور ہوچکا ہے کہ انتخابات کب ہوں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ ان شاء اللہ انتخابات 8 فروری کوہوں گے۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ صدرِ مملکت اورالیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے پورے ملک کی تاریخ دے دی۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اتفاق کیا کہ انتخابات کا انعقاد بغیرکسی خلل کے ہوگا۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے بھی 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد پر کوئی اعتراض نہیں کیا‘ تمام ضروریات پوری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول کا اعلان کرے۔صدر عارف علوی نے اپنے ایک خط میں انتخابات کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنرکو ملاقات کی دعوت دی تھی لیکن انہوں نے ملنے سے انکار کردیا ۔یہ بھی سپریم کورٹ کے کریڈٹ میں جاتا ہے کہ اس نے صدرِ مملکت کے عہدے کی لاج رکھی اور چیف الیکشن کمشنر کو پابند کیا کہ وہ انتخابات کی تاریخ مقرر کرتے وقت صدر کی رائے لیں‘ جس کے بعدمتفقہ طور پر انتخابات کی تاریخ 8 فروری 2024ء مقرر کردی گئی ہے۔ اب معاملہ اتفاق سے حل ہوچکا ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ یہاں پر بھی عدالت کو آکر معاملے کو حل کرناپڑا۔ سپریم کورٹ نے اس کیس میں بہت سے سٹیک ہولڈرز کو ذمہ د ار ٹھہرایا کہ اُن کی وجہ سے انتخابات التوا کا شکار ہوئے‘اور یہ بات درست بھی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ اُس وقت حکومت میں شامل تمام جماعتوں کی طرف سے کیا گیا تھا‘اور یہ فیصلہ حکومت کے بالکل جاتے جاتے کیا گیا ‘ حالانکہ یہ فیصلہ پہلے بھی کیاجاسکتا تھا۔جس طرح سے تحریک انصاف کی حکومت مردم شماری کرواسکتی تھی تو پی ڈی ایم کو بھی لمبی حکومت ملی تھی ‘16 ماہ تھے ان کے پاس اور وہ مردم شماری کرواسکتے تھے‘لیکن انہوں نے جاتے جاتے مردم شماری کا شوشہ چھوڑ دیا جس سے یہ واضح نظر آرہا تھا کہ یہ انتخابات میں تاخیر چاہتے ہیں اور ظاہر ہے جوحکومت کی کارکردگی رہی‘ وہ چاہتے تھے کہ لمبی نگران حکومت چلے۔پھر اس کے بعد سابق چیف جسٹس جنہوں نے90 دن میں انتخابات کروانے کے حوالے سے فیصلہ دیا تھا اُنہوں نے اُن پٹیشنز کو ٹیک اَپ نہیں کیا ‘حالانکہ وہ بہت پہلے ایسا کر سکتے تھے۔ پٹیشنز اُنکے سامنے پڑی تھیں لیکن وہ ریٹائر ہوگئے اور یہ معاملہ ٹیک اَپ نہ کیا گیا۔پھر صدرِمملکت‘ جن کو آئین نے پورا اختیار دیا ہوا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتے ہیں‘حالانکہ حکومت قانون سازی کر گئی تھی۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 اور 58 میں ترمیم ہوچکی ہے‘ جس کے بعد اب الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے‘لیکن اس کے باوجود یہ بات واضح تھی کہ قانون سازی آئین سے برتر نہیں۔اگر آئین نے صدرِ مملکت کو اختیار دیا ہے تو اس کوصرف قانون سازی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔یہاں تک کہ اُس وقت کے وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہاتھا کہ صدرِ مملکت کے پاس اس نئے قانون کے آنے کے بعد بھی یہ اختیار موجود ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں‘لیکن صدر نے اپنا آئینی اختیاراستعمال ہی نہیں کیا۔انہوں نے اپنے خط میں الیکشن کمیشن کو بس یہ کہا کہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن سپریم کورٹ سے رہنمائی لے۔صدر نے اختیار استعمال نہ کرکے چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی ناراض کیا۔آپ کویاد ہو گا کہ علیمہ خان نے میڈیا پر یہ کہاتھا کہ عمران خان صدرِ مملکت سے غیر مطمئن ہیں اورپھر ایسا ہی بیان شیر افضل مروت نے بھی دیاکہ صدر نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی اس لیے عمران خان اُن سے ناراض ہوگئے۔قانونی ماہرین متفق تھے کہ صدرِ مملکت کے پاس آئین کے تحت انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے توسپریم کورٹ اس معاملے کو ٹیک اَپ نہیں کر رہی تھی‘ سیاسی جماعتیں الگ سے رخنہ اندازی کر رہی تھیں۔ صدر اپنا آئینی اختیار استعمال کرنے کو تیار نہیں تھے تو اس اعتبار سے آئین سے تجاوز کیا گیا۔سبھی سٹیک ہولڈرز انتخابات کے التوا کے ذمہ دار ہیں‘ لیکن اب سپریم کورٹ نے یہ معمہ حل کروادیا ہے‘جس کا سارا کریڈٹ چیف جسٹس اور اُن کے ساتھی جج صاحبان کو جاتا ہے۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان تو ہوگیاہے‘ الیکشن کمیشن کیلئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج انتخابات کوشفاف بنانا ہوگا۔ایسے وقت میں جہاں ہر جماعت لیول پلینگ فیلڈکا مطالبہ کر رہی ہے ایسے میں ناگزیر ہے کہ سب جماعتوں کوبلاتفریق انتخابات میں اُترنے کا موقع ملے۔چیف الیکشن کمشنر یہ بات بھی کہہ رہے ہیں کہ ہر کوئی شفاف انتخابات کا مطالبہ تو کرتا ہے لیکن پھر مداخلت بھی ہوتی ہے ۔ ممکن ہے کہ وہ ماضی کا حوالہ دے رہے ہوں۔ 2018ء میں کس طرح آرٹی ایس بٹھایا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔اگر شفاف انتخابات کروانے ہیں تو اس کیلئے ضروری ہے کہ مداخلت بند ہو۔(ن) لیگ بھی یہ شکوہ کر رہی ہے کہ اُس کو لیول پلینگ فیلڈ نہیں مل رہی جبکہ باقی تمام جماعتوں کا یہ مؤقف ہے کہ لیول پلینگ فیلڈ تو صرف (ن) لیگ کو ہی مل رہی ہے اورکسی جماعت کو نہیں۔پیپلزپارٹی کی بھی یہی شکایت ہے۔وہ اس وقت اس صدمے سے باہر نہیں آپارہی کہ نوازشریف وطن واپس آچکے ہیں اور انہوں نے انتخابی مہم کیلئے چاروں صوبوں کا دورہ کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے‘ شاید یہی بات پیپلزپارٹی کو ناگوار گزر رہی ہے۔بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ سب کو الیکشن کا چاند مبارک ہو لیکن پیپلزپارٹی کو لگ رہا ہے کہ اس الیکشن کے چاند پر ان کی ہار کا گرہن لگ سکتا ہے۔پیپلزپارٹی کو محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں سندھ تک محدود ہوجائے گی یاممکن ہے سندھ بھی اس کے ہاتھ سے نکل جائے کیونکہ سندھ میں پیپلزپارٹی اس طرح سے پرفارم نہیں کرسکی لیکن زرداری صاحب نے تو (ن) لیگ پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی۔وہ کہتے ہیں کہ شہباز شریف کو انہوں نے وزیراعظم بنوایا تھا‘مگر انہوں نے عوام کی خدمت نہیں کی۔ اب نوازشریف کووزیراعظم نہیں بننے دوں گا، ملک کا اگلا وزیراعظم پیپلز پارٹی سے ہوگا۔یہ ان کی خواہش ہوسکتی ہے لیکن زمینی حقائق کسی اور جانب اشارہ کرتے ہیں ‘اور حقائق یہ ہیں کہ پیپلزپارٹی تنہا حکومت نہیں بناسکتی۔ تب ہی وہ پی ٹی آئی سے قربتیں بڑھا رہی ہے۔استحکام پاکستان پارٹی سے بھی وہ الحاق کرسکتی ہے۔یعنی وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ تن تنہا اپنا وزیر اعظم بناسکے۔اور رہی بات کہ وہ نواز شریف کووزیر اعظم نہیں بننے دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ عوام کے ووٹوں کا احترام نہیں کریں گے۔ اگر عوام نواز شریف کو وزیراعظم بناتے ہیں تو زرداری صاحب کیسے روک سکتے ہیں؟بنیادی طور پر پیپلزپارٹی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔اب ہرکسی کی نظر میں لیول پلینگ فیلڈ کی تعریف اور ہے۔تحریک انصاف کی نظر میں لیول پلینگ فیلڈ یہ ہوسکتی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی پر تمام کیسز ختم کردیے جائیں‘ انہیں انتخابات کیلئے اہل کردیا جائے اور( ن) لیگ کا یہ مطالبہ ہے کہ نواز شریف کی نااہلی ختم ہو اور وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں ۔گو کہ (ن) لیگ کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ نواز شریف کی نا اہلی الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد ختم ہوگئی ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر کسی کی نظر میں لیول پلینگ فیلڈ کی اپنی تعریف ہے۔بہرحال سکندرسلطان راجہ نے وضاحت تو کی ہے کہ آئندہ انتخابات میں بیلٹ پیپرپر بلے کا نشان ہوگا۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اُن کے دل میں چیئرمین پی ٹی آئی کا بہت احترام ہے اور وہ ماضی میں انہیں آئیڈلائز کرتے رہے ہیں۔اس سے پہلے نگران وزیراعظم نے بھی یقین دہانی کروائی تھی کہ انتخابات میں بلا چلے گا‘یعنی دعوے کئے جارہے ہیں کہ سب کو برابری کا موقع ملے گا اور کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی ۔اللہ کرے ایسا ہی ہو لیکن‘ اس کا پتہ ہمیں انتخابات کے وقت ہی چلے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved