گزشتہ ڈیڑھ‘ دو برس سے مہنگائی کی خبریں میڈیا پر کیوں دکھائی نہیں دے رہیں‘ ہر وقت سوال کرنے والے بچوں کو کون بتائے کہ اس کی کیا وجہ ہے۔ دنیا بھر میں جب کسی ریاست یا حکمران کا تیا پانچہ کرنا ہو تو سب سے پہلے ہیومن رائٹس تنظیموں کواس کے خلاف حرکت میں لایا جاتا ہے اور پھر کسی خاص اور حساس ایشو پر عوام کے جذبات اور غصے کو ابھارا جاتا ہے۔ کیا کسی نے چینی کی قیمت میں چار آنے اضافے کے بعد ایوب خان کے خلاف نعرے نہیں سنے یا بھٹو کے خلاف چلائی گئی تحریکِ نظام مصطفی اور پرویز مشرف کے خلاف عدلیہ کی آزادی کے نعرے نہیں سنے؟ کیا کسی نے خواجہ محمد آصف کا یہ بیان نہیں سنا جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ اپریل 2019ء میں (ن) لیگ والوں کو کہا گیا تھا کہ وہ ابھی پنجاب حکومت لے لیں‘ دسمبر تک وفاقی حکومت بھی انہیں دے دی جائے گی۔ اس وقت تک چونکہ چیئرمین پی ٹی آئی پر کوئی سنگین الزام نہیں لگا تھا ‘ اس لیے پی ٹی آئی کی حکومت بنتے ہی مہنگائی اور نا اہلی کا شور و غوغا شروع ہو گیا‘ یہاں تک کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز کے نرخوں کا موازنہ کیا جانے لگا۔ تب بس یہی دہائی سنائی دیتی تھی کہ عوام مہنگائی سے مررہے ہیں۔ نااہل حکومت نے عوام کی زندگیاں اجیرن کر دی ہیں لیکن آج بجلی‘ گیس‘ تیل اور اشیائے خورونوش کے نرخ تاریخی بلندی کو چھوتے جا رہے ہیں لیکن اب ہر طرف خاموشی سی چھائی رہتی ہے۔ اگلے روز ادارۂ شماریات کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بھی ہفتہ وار اور مہینہ وار مہنگائی میں سالانہ بنیادوں پر اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران 14اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ہفتہ وار مہنگائی کی شرح تقریباً 30فیصد تک پہنچ چکی ہے اور ماہانہ مہنگائی کی شرح 27فیصد کے قریب ہے جبکہ رواں مالی سال کے بجٹ میں حکومت کی طرف سے مجموعی مہنگائی کا تخمینہ 22 فیصد لگایا گیا تھا لیکن تاحال حکومت مہنگائی کو بجٹ میں تخمینہ شدہ شرح پر لانے میں ناکام رہی ہے۔ماضی میں بھی کبھی مہنگائی کی شرح کو بجٹ میں تخمینہ شدہ شرح کے مطابق نہیں رکھا جا سکا۔ حالیہ دنوں میں گیس کی قیمتوں میں 194فیصد تک اضافہ عوامی معیشت پر غیر معمولی بوجھ کا باعث بنے گا۔ اس غیر معمولی اضافے کے بعد حکومت کی طرف یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ یہ اضافہ توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ ختم اور سوئی گیس کمپنیوں کا ریونیو ہدف حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس سے قبل بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے لیے بھی حکومت نے یہی مؤقف اختیار کیا تھا لیکن اس اضافے کے باوجود گردشی قرضہ جوں کا توں ہے جبکہ حکومت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا ارادہ بھی باندھے ہوئے ہے قطع نظر اس کے کہ توانائی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے عوام کیلئے کیا نئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جبکہ اب بھی متوسط آمدنی والے طبقے کی آمدن کا بڑا حصہ بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگیوں اور مہنگے پٹرول پر خرچ ہو رہا ہے۔
استادِ محترم گوگا دانشور نے رواں برس جولائی میں ہی مجھے بتادیا تھا کہ میاں نواز شریف جلد ہی اقتدار کی سب سے بڑی کرسی پر براجمان ہونے کے لیے پاکستان آ ئیں گے۔ میں سمجھا کہ آج استادِ محترم کچھ زیادہ ہی موڈ میں ہیں لیکن چند دنوں بعد جب معلوم ہوا کہ گوگا دانشور کی سرگوشی درست ہے اور سب معاملات طے پا چکے ہیں لیکن کسی معمولی خدشے کی وجہ سے وہ وسط ستمبر سے پہلے جہاز میں بیٹھنا نہیں چاہتے۔ اور یہ کہ جب تک تمام راستے صاف نہیں ہو جاتے‘ اس وقت تک وہ ان راستوں سے گزرنے کے خواہاں نہیں۔ جب گوگا دانشور کی بات پر بے یقینی کا اظہار کیا تو انہوں نے اسے گستاخی سمجھتے ہوئے گھور کر میری جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم چاہتے ہو کہ میں اب تمہیں سبھی رسم و رواج اور طور طریقوں سے آگاہ کرتے ہوئے یقین دلاؤں کہ وہ کیوں اور کیسے آ رہے ہیں۔ میں یہ اس مرتبہ تو کر رہا ہوں لیکن آئندہ ایسی فرمائش مت کرنا۔ پھر گوگا دانشور نے دور خلاؤں میں گھورتے ہوئے کہا کہ 2012ء کی جانب چلو‘ جب مرکز میں پی پی پی اور پنجاب میں نواز لیگ کی حکومت تھی۔ یاد کرو کہ تب 12فروری کی شام مسلم لیگ نواز کے سربراہ شہباز شریف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان ہونے والی ملاقات نے سب کو چونکا دیا تھا۔ اس ملاقات سے ایک دن پہلے یعنی 11فروری کو امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل جیمز جونز کی اچانک پاکستان آمد کا اعلان ہوا تو وقت نے ایک ایسا منظر دیکھا جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا اور نہ ہی اس کے بعد دیکھنے کو ملا۔ جنرل جیمز جون کی آمد سے پہلے ایک خبر ملک کے تمام بڑے اخبارات میں شائع ہوئی کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے دفتر میں ایک بڑے خوبصورت فریم میں ایک تصویر لگائی ہے جس میں وہ امریکی صدر براک اوباما سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ ابھی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی امریکی صدر براک اوباما کے ساتھ اپنی تصویر کو فریم کروا کر ملاقات والے کمرے میں سجانے کی خبریں زیر بحث ہی تھیں کہاُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ایک سیاسی جماعت کے سربراہ سے ملاقات کی خبروں سے میثاقِ جمہوریت کے دونوں پروانے اپنی اپنی جگہ گہری سوچوں میں گم ہو کر پھڑ پھڑانا شروع ہو گئے ۔ گوگا دانشور بتانے لگے کہ پی پی پی کا صدر براک اوباما کی تصویر کو قیمتی فریم میں سجا کر ملاقاتی کمرے میں لگوانا اور وہ بھی جنرل جیمز جون کے آنے سے ایک دن پہلے‘ در اصل ایک پیغامِ خود سپردگی تھا۔ گوگا دانشور کہتے ہیں کہ اس سے پہلے کسی بھی پاکستانی حکمران نے امریکہ کے کسی صدر کے ساتھ اپنی تصویر وزیراعظم ہائوس یا ایوانِ صدر کے ملاقاتی کمرے میں نہیں لٹکائی تھی۔ حتیٰ کہ انہوں نے بھی نہیں جنہیں ایک فون کال پر گھٹنے ٹیکنے کا طعنہ دیا جاتا رہا ہے۔ امریکی جنرل کی آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی سے ملاقات سے اگلے روز ہی شہباز شریف کی اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات نے آصف علی زرداری کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ 2013ء کے انتخابات عوامی ووٹوں کے نہیں بلکہ انتظامی مشینری کے نتخابات ہوں گے۔ شہباز شریف کی اس ملاقات بارے جو ہینڈ آئوٹ جاری کیا گیا اس میں بتایا گیا کہ اس ملاقات میں پولیس کی ٹریننگ‘ سڑکوں کی تعمیر کے لیے این ایل سی اور ایف ڈبلیو او کی خدمات پر بات چیت کی گئی ہے حالانکہ اس ملاقات سے صرف تین روز پہلے آٹھ یا نو فروری کو نواز لیگ نے رحیم یار خان اور بہاولپور کے جلسوں اور میٹنگوں میں ایک ایسا اعلان کیا تھا جس پر دوسری جانب سے شدید ردِ عمل ظاہر کیا گیاتھا۔
گوگا دانشور مزید بتانے لگے کہ شاید تمہیں یاد نہ ہولیکن میں تمہیں یاد کروائے دیتا ہوں کہ جب یہ ملاقاتیں ہو رہی تھیں تو اس وقت ایک ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں عوام کویہ بتایا جا رہا تھا کہ ان ملاقاتوں سے ملک کی سیا سی صورت حال ایک نئی انگڑائی لینے والی ہے ۔ اپنی بات مکمل کرنے کے بعد گوگا دنشور پوچھنے لگے کہ کیوں‘ اب یقین ہوا کہ میاں نواز شریف ہی کیوں قابلِ قبول ہیں؟ جس پر استاد محترم کے سامنے سر جھکا کر کہا کہ جی یقین ہو گیا ہے۔ گوگا دانشور پھر پوچھنے لگے کہ کیسے یقین ہوا؟ تو ان کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ جو آپ پر گرجے برسے‘وہی قابل ِقبول ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved