ہم بہت خوش بخت ہیں مگر تشکر کی عادت نہیں۔ اس کی وجہ حرص اور آسمان تک بلند خواہشوں کے برج ہیں۔ روزانہ خوش بختوں کو دیکھتے ہیں‘ ملتے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں ان کی کمی نہیں۔ ہر دیہات‘ محلے‘ شہر اور ملک کے کونے کونے میں آباد ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی قسمت سے خوش ہیں‘ جو انہیں ملا ہوا ہے‘ جو وہ خود بن پائے ہیں‘ جو مقام انہیں حاصل ہے اور جو سہولت اور رزق میسر ہے اس پر مطمئن ہیں۔ ایسے لوگوں کی خوبیوں میں میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اپنے شعبے میں اور کاروبار ِزندگی جو انہیں ملا اور جس سے ان کی دلی رغبت تھی نہ صرف اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ اس کو خوب سے خوب تر کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ آنے والے کل کو بہتر بنانے اور اپنے اندر بہتر ہونے کی خواہش دم توڑ دے تو زندگی کی چمک دمک ماند پڑجاتی ہے۔ یہ وہ لوگ نہیں جو ایک مقام پر پہنچ کر اعلان کر دیں کہ اب کوئی کام نہیں کرنا‘بہت ہو چکا اب بیٹھ کر آرام کرنا چاہیے۔ بہت سے ایسے خواتین و حضرات کو دیکھا ہے اور آپ کے مشاہدے میں بھی شاید آیاہو یا آپ خود اس فلسفۂ زندگی سے متاثر ہوں۔ اس میں دو آرا نہیں کہ ہر شخص کو اپنی زندگی اپنے طور پر گزارنے کی آزادی ہے‘ اور جس حالت اور انداز میں خوش رہنا چاہتا ہے کسی اور کو دوسروں پر پہرہ دار بننے کی اجازت نہیں‘ اور نہ کسی کو ایسا کردار بن کر لٹھ ہاتھ میں لے کر دوسروں کی نگرانی کرنے میں اپنا وقت ضائع کرنے کی ضرورت ہے۔
خوش بخت توجہ اپنے کام پر رکھتے ہیں۔ دوسروں سے کوئی سروکار اس طرح نہیں کہ کسی کی ہتک اور تضحیک کا کوئی پہلو نکلے۔ جب لوگوں کو ایسی ذاتی آزادی نصیب ہوتی ہے تو وہ کچھ نیا کرنے کا سوچتے ہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی پروانہیں ہوتی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ہمارے معاشرے میں کچھ سماجی رجحانات ایسے ہیں کہ دوسروں پر تنقید ہی تنقید‘ ہر وقت کچھ لوگ خواہ مخواہ کے مصلح بن کر لوگوں کو خود ساختہ اخلاقی لاٹھیوں سے ہانکنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ اخلاقی جرأت اور شخصی پختگی کی علامت یہ ہے کہ انسان اپنے سیدھے راستے پر ہی چلتا رہے‘ اور دھیان اپنی منزل کی طرف رکھے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ معتقدوں سے دور رہے کہ وہ آپ کے دوست کم اور حاسد زیادہ ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ آپ کی آزادی اور فکرِ تازہ پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ روایتی معاشروں کا ایک مسئلہ یہ ہے اپنی پرانی ڈگر پر چلتا ہے۔ کوئی دوسرا راستہ لوگوں کو نظر ہی نہیں آتا۔ تمام زرعی اور قبائلی علاقوں کو دیکھ لیں۔ دور جانے کی بھی ضرورت نہیں‘ اپنے ارد گرد آپ خود مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ تبدیلی آتی ہے‘ مگر آہستہ‘ سست رفتار اور غیر مرئی اور غیر محسوس انداز میں۔ اس سلسلے میں ہماری رفتار پہلے تو بہت کم تھی مگر میڈیا‘سیل فون اور آمد و رفت کے نئے ذرائع کے ساتھ شہروں کی طرف آبادیوں کی منتقلی نے اسے بہت بڑھا دیا ہے۔
وہ خوش بخت جن کا ذکر میں نے شروع میں کیا ہے‘ ویسے تو یہ ہر جگہ موجود ہیں مگر میرا زیادہ تجربہ دیہی علاقوں‘ خصوصاً کاشتکاروں کے ساتھ ہے۔ آپ سوچیں گے کہ عجیب بات ہے کہ زندگی تو شہروں میں گزار دی اور باتیں کاشتکاروں کے بارے میں۔ مگر کچھ ایسے تجربے اور اس زندگی کے اثرات ہوتے ہیں‘ آپ جہاں بھی رہیں‘ جہاں زندگی گزاریں وہ آپ کی شخصیت‘ سوچ اور اخلاقی معیار کی حیثیت حاصل کر لیتے ہیں۔ دنیا گھومنے اور کچھ سیکھنے اور پڑھنے کے بعد میرا مثالی‘ قابلِ تقلید انسان دہقان ہے۔ وہ آپ کے لیے موسموں کے بدلنے کے ساتھ پھل‘ سبزیاں‘ اناج اور دنیا کی سب نعمتیں جو آپ کی میز پر ہر روز دو تین دفعہ سجتی ہیں‘ اپنے خون پسینے کی محنت سے پیدا کر کے مہیا کرتا ہے۔ عملی میدان میں رہنے اور شہروں میں زندگی گزارنے سے زمین اور اپنے اندر کے کاشتکار سے نہ تعلق ٹوٹا ہے اور نہ ان فطری نظاروں سے جو آپ زمین اور گاؤں سے وابستہ رہ کر دیکھ سکتے ہیں۔ ہماری قومی دانشوری کا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ہم بڑے بڑے فلسفوں سے مرعوب رہتے ہیں‘ انہیں تنقیدی نظر سے نہیں دیکھ سکتے۔ مارکس کو بہت بڑا مفکر سمجھتا ہوں مگر دہقان کے بارے میں دقیانوسی ہونے کی جو بات کی ہے‘ وہ ان کی صنعتی معاشرے کے اوائل کے زمانے کی سوچ ہے۔ بہت سرمایہ داری اور صنعتی انقلاب کو زرعی معاشرے کے مقابلے میں ترقی پسند خیال کرتے تھے‘ مگر مزدوروں کے مفادات کے خلاف بلکہ ظالمانہ نظام جس کو ایک دن صنعتی مزدور پہیہ جام ہڑتال کرکے ختم کر دیں گے‘ جو انقلاب لائے اور جو کچھ انہوں نے ان معاشروں کے ساتھ کیا وہ آپ کے سامنے ہے۔
ایک بات تاریخ کے حوالے سے کرتا چلوں۔ مارکسی اشتراکی اصلاحات میں جوزف سٹالن اور مائوزے تنگ نے کاشت کاروں سے زمین چھین کر ریاست کے حوالے کی تو لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں لوگ بھوکے مر گئے۔ اب چین اور روس میں اناج اتنا پیدا ہوتا ہے کہ وہ دنیا کو برآمد کرتے ہیں۔ ہمارا کاشت کار قناعت پسند ہے مگر اپنے ذرائع سے ہمیشہ کچھ نیا کر کے‘ بچت میں اضافے کی کاوش کرتا رہتا ہے۔ اگر یہ پتہ چلے کہ کون سا بیج گندم‘ چاول یا کسی اور فصل کے لیے بہتر ہے تو تقریروں کی بجائے کسی دوسرے کی اچھی فصل دیکھ کر متاثر ہوتا ہے۔ وہ عملیت پسند ہے‘ بڑے خوابوں اور منصوبوں سے گھبراتا ہے۔ اسے موسمی اثرات کے ساتھ ساتھ کھاد اور کرِم کُش دوائیوں کی قیمت اور جعلی ادویات نے بے حال کر رکھا ہے مگر اس کے باوجود کاشتکاری نہیں چھوڑی۔ بے شمار ہیں جو خسارے میں بھی رہتے ہیں اور کسی سال پیداوار کم ہو یا منافع مناسب نہ ہو تو بھی اگلی فصل کی تیاری میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ایک چیز جو کاشتکار کو توانا اور متحرک رکھتی ہے وہ امید ہے کہ اگلی فصل بہتر ہوگی تو حالات بدل جائیں گے۔
ایک بات خوش آئند ہے کہ کاشت کا رخاندانوں کے روشن خیال اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تبدیلی کی فکر میں سرگرداں ہیں۔معاف کیجیے میں سیاسی باتیں نہیں کر رہا۔ نوجوانوں کو جدید کاشتکاری کے ساتھ چھوٹے کاشتکاروں کی رہنمائی‘ تنظیم سازی اور وسائل کی فراہمی میں پیش پیش دیکھا ہے۔ بیرسٹر شاہد نصیر گوندل کو قانون اور عدالت کے پیشے کے ساتھ دور دراز کے علاوہ میں کاشتکاروں کے بنیادی مسائل حل کرنے میں سرگرم دیکھ کر اپنی کشتِ ویران پر حسرت بھری نگاہیں جم جاتی ہیں۔ ولایتی علم تو ہماری طرح ایک جدید شعبے میں ہے مگر زمین اور کاشتکاری سے رشتہ باقی سب رشتوں سے مضبوط تر ہے۔ تھل کے علاقے میں سینکڑوں ایکڑ رقبہ'' کاشتکاروں کے لیے اور کاشتکاروں کے ذریعے‘‘ فلسفے کے مطابق اپنی کاوش سے آباد کیا ہے۔ اکثر چھوٹے کاشت کار ہیں جنہیں وہ بیج‘ کھاد اور جدید زرعی ماہرین کی خدمات پیش کرتے ہیں اور اس ضمانت کے ساتھ کہ منڈی کے نرخ پر وہ ان کی فصل بھی خرید لیں گے۔ ایک اورنیا قدم خمیری چارے کی پیداوار ہے جو ہزاروں ٹن جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں کاشتکاروں کے ساتھ مل کر تیار کرتے ہیں۔ کاشتکاروں کو سود خوروں اور بینکوں کے آسمان سے باتیں کرتے منافع کی شرح سے اگر ایسی زرعی تحریکیں چلا کر بچایا جا سکے تو خوشحالی نچلی سطح پرآئے گی اور اس کے اثرات وسیع ہوں گے۔ کاشتکاری میں جدت ہی دوسرے زرعی انقلاب کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ حکومتیں ہر جگہ اپنی ساکھ‘ کرپشن اور بدعنوانی سے کھو چکی ہیں۔ ہم جیسے کاشتکاروں کو شاید مثالی زرعی رہنمائوں کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا کل آج سے بہتر ہوسکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved