جس طرح چند روز پہلے جنرل کیانی کے مستقبل کے بارے میں افواہیں اور قیاس آرائیاں شروع کی گئی تھیں اور جہاں سے اس انداز میں یہ سلسلہ چلایا گیا‘ جنرل اشفاق پرویزکیانی کو یقینا پسند نہیں آیا ہو گا۔ کوئی بھی خوددار جنرل‘ اپنی ذات کے بارے میں ایسا تصور پیدا ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا‘ جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ عہدوں یا ملازمت میں مزید توسیع کا خواست گار ہے۔ خصوصاً ایسا جنرل‘ جسے اقتدار پر براہ راست قبضہ کرنے کے ان گنت مواقع میسر آئے ہوں اور اسے ساری اپوزیشن‘ میڈیا اور رائے عامہ کی تائید بھی حاصل ہو۔ حتیٰ کہ اسے اقتدار پر قبضے کی ترغیب دی جاتی رہی ہو اور وہ ان مواقع کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ صرف چیف آف آرمی سٹاف رہنے پر قناعت کرتا رہا ہواور جسے‘ ملازمت میں 3سال کی توسیع بھی‘ سربراہ مملکت نے خود فرمائش کر کے دی ہو‘ اسے اپنے بارے میں ایسی خبریں اور تبصرے ہرگز پسند نہیںآ سکتے‘ جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہو کہ وہ ملازمت میں مزید توسیع کے نہ صرف خواہش مند ہیں بلکہ اس کے لئے کوشش بھی کر رہے ہیں۔ یہ بات ایک غیرت مند فوجی کی افتادطبع کے خلاف ہے۔ جنرل کیانی نے جب دیکھا کہ ان کی ملازمت میں توسیع یا ریٹائرمنٹ کے بعد‘ سرکاری ذمہ داریوں کے حوالے سے‘ قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں اور اخباروں میں ایک مہم چلتی ہوئی نظر آ رہی ہے‘ تو میرے اندازے کے مطابق جنرل کیانی نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ فوراً اور کسی مشاورت کے بغیر کر ڈالا اور اسے آئی ایس پی آر کے ذریعے میڈیا کو بھیج بھی دیا۔ جو باتیں جنرل کیانی کو ناگوار گزری ہوں گی‘ ان کا خلاصہ امریکی اخبار ’’وال سٹریٹ جرنل‘‘ کی ایک رپورٹ میں شائع ہوا تھا۔ 5تاریخ کے ’’جرنل ‘‘میں یہ خبر شائع ہوئی۔ اگلے روز یعنی 6اکتوبر کو اس کا ترجمہ روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں شائع ہوا اور اسی روز جنرل کیانی نے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ جن وجوہ کی بنا پر میں نے جنرل کیانی کے فیصلے کو ’’اچانک‘‘ قرار دیا‘وہ مندرجہ ذیل سطور میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ وال سٹریٹ جرنل سے لئے گئے اقتباسات ہیں۔ ’’پاکستان کی بری فوج کے طاقتور سربراہ اگلے ماہ ریٹائر ہونے والے ہیں۔ تاہم وہ کوشش کر رہے ہیں کہ ان کا کلیدی دفاعی کردار برقرار رہے۔ فوجی اور سول حکام کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف بھی جنرل کیانی کی اس ’’درخواست ‘‘پر غور کر رہے ہیں۔‘‘ ’’حاضر اور ریٹائرڈ فوجی افسروں کے مطابق جنرل کیانی نے اپنے عہدے کی میعاد میں ایک یا دو سال کی مزید توسیع مانگی ہے۔ حکومت کے لئے یہ توسیع دینا اس لئے مشکل ہو گا کہ جنرل کیانی تین تین سال کے دو دو ادوار میں اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ جنرل کیانی چیف آف سٹاف کمیٹی کا نظرثانی شدہ عہدہ قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس وقت یہ رسمی نوعیت کا ایک عہدہ ہے‘ جسے زیادہ بااختیار بنا دیا جائے یا پھر انہیں (جنرل کیانی کو) حکومت کا دفاعی مشیر بنا دیا جائے گا۔ حکام نے بتایا کہ جنرل کیانی کی دلجوئی کے لئے انہیں امریکہ میں پاکستان کا سفیر بھی تعینات کیا جا سکتا ہے۔‘‘ مندرجہ بالا دونوں اقتباسات میں جنرل کیانی کی شخصیت کو جس انداز میں پیش کیا گیا‘ وہ کسی بھی سپاہی کے لئے پسندیدہ نہیں ہو سکتی۔ جنرل کیانی یقینی طور پہ جانتے ہیں کہ کونسا اخباری نمائندہ‘ کس کے زیر اثر ہے؟ اور ایک امریکی اخبار میں جب ’’حکام‘‘ کے حوالے سے کوئی خبر شائع ہو‘ تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ یقینی طور پر ان تبصروں اور قیاس آرائیوں میں جنرل کیانی کی جو تصویر ابھارنے کی کوشش دکھائی دے رہی ہے‘ اس کے پیچھے کوئی طاقت کارفرماہے۔ جنرل کیانی نے اپنی ریٹائرمنٹ کا خود اعلان کر کے‘ اس امکانی مہم کی ہوا نکال دی ہے‘ جس کے تحت ریٹائرمنٹ کا وقت آنے سے پہلے پہلے جنرل کیانی کے بارے میں یہ مطلوب تھا کہ 6سالہ فوجی خدمات کے دوران‘ انہوں نے جو عزت اور نام کمایا ہے‘ اسے آلودہ کر دیا جائے تاکہ وہ کسی وقت قومی زندگی میں کردار ادا کرنا چاہیں‘ تو اس کا راستہ بند کر دیا جائے۔ ’’وال سٹریٹ جرنل‘‘ میںبات صرف مندرجہ بالا اقتباسات پرختم نہیں ہو جاتی‘ مزید بھی کچھ الفاظ لکھے گئے ہیں مثلاً یہ کہ ’’جنرل کیانی‘ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے عہدے کو اس کی موجودہ شکل میں قبول کرنے سے پہلے ہی انکار کر چکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس عہدے میں فوجی تقرریوں اور فوج کی نقل و حرکت سے متعلق اختیارات کا اضافہ کیا جائے۔ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے بتایا کہ جنرل کیانی یہ باور کرا رہے ہیں کہ صرف وہی شمالی وزیرستان پر قابو پا سکتے ہیں اور صرف وہی بھارت کے ساتھ معاملات سے نمٹ سکتے ہیں۔‘‘ ان سطور میں پہلے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جنرل کیانی اپنے اختیارات کی خاطر‘ فوج کی تنظیمی روایات سے انحراف کی کوشش کررہے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے بھی صرف وہی موزوں کمانڈر ہیں اور بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے بھی انہیں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ اگر آپ اوپر کے اقتباسات اور آخری چند جملوں کا غور سے مطالعہ کریں‘ تومختصر الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جنرل کیانی کے بارے میں جو تصور پیدا کرنے کی کوشش کی گئی‘ وہ یہ بنتا ہے کہ جنرل صاحب ‘ فوجی‘ سیاسی اور سفارتی معاملات حل کرنے کے لئے خود کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔لیکن افسوس کہ جس طاقت یا افراد نے سکیم تیار کی‘ انہیںیاد نہیں رہا کہ بطور سرکاری ملازم جنرل کیانی سے جو کوششیںاور خواہشیں منسوب کر کے‘ انہیں اختیارات اور طاقت کا حریص ثابت کرنے کی سعی کی جا رہی ہے‘ وہ ان کا گزشتہ 6سالہ ریکارڈ دیکھ کر ازخود بلبلے کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ کم از کم پچھلے 5سال تک جنرل کیانی کو یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں مانگنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ 5سالوں کے دوران ہر وقت اس پوزیشن میں تھے کہ اپنے پیشرو جنرلوں کی طرح اقتدار پر قبضہ کر کے بیٹھ جائیں اور نہ صرف پورے ملک کا انتظامی کنٹرول سنبھال لیں بلکہ بطور چیف آف آرمی سٹاف بھی اپنے عہدے کی مدت اسی طرح لامحدود کر لیں‘ جیسے جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویزمشرف کر چکے ہیں۔آج ان کی ریٹائرمنٹ قریب آنے پر‘ ان کے بارے میں ایسی خبریں پھیلانا بدنیتی کے سوا اور کچھ نہیں اور میرا خیال ہے‘ ایسی ہی گندی حرکتیں دیکھ کر ان کی طبیعت اچاٹ ہوئی اور انہوں نے اپنے آپ کو اس غلاظت سے بچا کر الگ تھلگ کر لیا‘ جو ان کے راستے میں پھیلائی جا رہی تھی۔ شاید انہیں’’وال سٹریٹ جرنل‘‘ کے یہ الفاظ بھی کانٹے کی طرح چبھے ہوں کہ ’’جنرل کیانی کے مستقبل کے بارے میں جو بات چیت ہو رہی ہے‘ امریکہ اس میں شامل نہیں‘‘ اور پھر امریکی ذرائع کے منہ سے یہ کہلوایا گیا کہ’’ اس بار ہم اس معاملے سے الگ ہیں۔‘‘ واضح رہے‘ اسی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’’2010ء میں جنرل کیانی کے دور ملازمت میں توسیع میں امریکہ کا ہاتھ تھا۔‘‘ میری جنرل کیانی سے کوئی شناسائی نہیں۔ ایک دو میڈیا بریفنگز کے سوا‘ میرا ان سے کبھی سامنا بھی نہیں ہوا۔ البتہ ان کے دوستوں خصوصاً سید مشاہد حسین کے ذریعے ان کے بارے میں جو کچھ سنا‘ اس کی روشنی میں اطمینان سے لکھ سکتا ہوں کہ وہ قومی تاریخ کے انتہائی بحرانی دور میں 6 سال سے افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف ہیں۔ اقتدار پر قبضے کے لئے جتنی ترغیب انہیں دی گئی اور پھر انہیں طعن و تشنیع کا ہدف بنایا گیا‘ اس کی دوسری کوئی مثال موجود نہیں۔ ان کا نام لئے بغیر انہیں یہاں تک کہا گیا کہ ’’وہ ستو پی کر سو رہے ہیں۔‘‘ پاکستان میں جنرل موسیٰ خان‘ جنرل وحید کاکڑ اور جنرل جہانگیر کرامت کے سوا ‘شاید ہی کوئی ایسا جنرل ہے‘ جس نے اقتدار ہتھیانے کے مواقع جان بوجھ اور سوچ سمجھ کر گنوائے ہوں۔ میں اپنے چھوٹے سے ذاتی رنج کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ انہیں ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد کروں گا اور پاکستان کے جمہوریت پسند عوام تو ان کے ممنون رہیں گے۔ خدا کرے کہ جمہوریت کے جس نازک سے پودے کو جنرل کیانی بحرانوں سے بچاتے بچاتے یہاں تک لائے ہیں‘ وہ اسی طرح نشوونما پاتا رہے۔ کوئی کچھ کہے‘ جنرل کیانی جس وقار اور فخر کے ساتھ اپنا عہدہ چھوڑکے جا رہے ہیں‘ اسے ہمیشہ عزت و احترام سے یاد کیا جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved