انیس سو پچاس کی دہائی میں ہوش سنبھالنے والوں کو یقینا یاد ہو گا کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بنیادی جمہوریت کے بی ڈی ممبرز کے الیکشن‘ جنہیں لاہوری پنجابی میں موری ممبر بھی کہا جاتا تھا‘ میں کامیابی کیلئے جہاں برادریاں، مقامی دھڑے بندیاں اور فی ووٹ کیلئے پیسہ چلتا تھا‘ وہیں اس وقت دیہات‘ قصبوں‘ گوٹھوں اور چکوک میں مخالف گروپ کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کیلئے ایسے ایسے طریقے اختیار کیے جاتے کہ خدا کی پناہ۔
اس سے کوئی بے خبر نہیں ہو گا کہ ہمارے ملک‘ خاص طور پر پنجاب میں سیاست‘ زن‘ زر اور زمین کے علاوہ کہیں پانی تو کہیں دیوار اور گلی کے نام پر جھگڑے ہوتے ہیں اور ان جھگڑوں اور لڑائیوں میں اگر کسی ایک فریق کا کوئی شخص قتل ہو جائے یا متحارب گروپوں میں کوئی شدید زخمی ہو جائے تو اس وقوعہ کی ایف آئی آر میں اصل ملزمان کے علاوہ سیاسی مخالفین اور ان کے ایسے قریبی رشتے داروں اور حمایتیوں کو بھی نامزد کر دیا جاتا جن کا اس لڑائی یا قتل سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔ اکثر ایسے نامزد ملزمان یا تو کسی دوسری جگہ یا دور کے کسی شہر میں مقیم ہوتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ ملزم پارٹی کا کوئی ایسا عزیز یا قریبی رشتہ دار‘ جو کسی بڑے عہدے پر فائز ہوتا یا شہر میں سرکاری ملازم ہوتا‘ اسے بھی قتل اور لڑائی کی اس ایف آئی آر میں یہ کہہ کر نامزد کر دیا جاتا کہ اس نے بھی ہاتھ میں چاقو‘ خنجر یا چھری پکڑ رکھی تھی اور دھمکیاں دے رہا تھا کہ آج یہ قابو آیا ہے تو اب بچ کر نہ جائے۔
ملزم پارٹی کے خاندان کے دس‘ پندرہ افراد کے نا م ایف آئی آر میں شامل کرانے کے بعد چھ‘ سات نامعلوم افراد کا اندراج ایک لازمی امر تھا تاکہ وہ لوگ جو پولیس یا عدالتوں میں ملزم پارٹی کا ساتھ دیں‘ بعد ازاں انہیں بھی نامعلوم افراد کی مد میں نامزد کرا دیا جائے۔ ہم سب یہ دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں کہ قتل اور لڑائی جھگڑے کے واقعات کے بعد ایسے کئی افراد جیلوں میں کئی کئی ماہ بلکہ کئی کئی سال تک ناحق صرف اس وجہ سے بند رہتے ہیں کہ ان کا تعلق مقتول یا مضروب پارٹی کے مخالف خاندان سے ہوتا ہے اور وہ اپنے کسی قریبی رشتے دار کے کردہ‘ ناکردہ جرم کی سزا بھگت رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ بیشتر کیسز میں پولیس کو سب معلوم ہوتا ہے کہ وقوعہ پر کون کون موجود تھا، کس کس کا اس میں کتنا حصہ ہے، نامزد افراد میں سے کون حقیقی اور کون فرضی ہے، وغیرہ وغیرہ لیکن روپے، پیسے کی کھنک اور اثر رسوخ کے باعث وہ بھی اس جرم میں شریک بن جاتی ہے۔
جو سچا واقعہ آپ کو سنانے لگا ہوں‘ یہ میرے آبائی ضلع قصور کے ایک گائوں میں بی ڈی ممبر کے انتخابات سے پہلے پیش آیا تھا۔ غالباً 1960ء کی دہائی کی بات ہے کہ جب ایوب خان کی حکومت میں پاکستان بھر میں بلدیاتی انتخابات‘ جنہیں بنیادی جمہوریت کا الیکشن کہا جاتا تھا‘ کا انعقاد ہو رہا تھا۔ ان بلدیاتی انتخابات کی دھوم اور اہمیت اس لیے زیا دہ تھی کہ انہی بی ڈی ممبران نے بعد ازاں قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کا انتخابات کرنا ہوتا تھا بلکہ صدرِ پاکستان کو بھی یہی بی ڈی ممبران ہی منتخب کرتے تھے۔ اس وقت عام آدمی کو جنرل الیکشن میں ووٹ کا حق حاصل نہ تھا اور بی ڈی ممبران ہی ایسے انتخابات میں ووٹ ڈالتے تھے، لہٰذا ان کی بے حد اہمیت تھی اور ان کا خوب احترام کیا جاتا تھا۔ جیسے ہی ان بی ڈی ممبران کے الیکشن کا بگل بجا تو دیکھتے ہی دیکھتے گلی‘ محلے سمیت پورے گائوں میں الیکشن کا میلہ سج گیا۔ یونین کونسل، ٹائون کمیٹی اور میونسپل کمیٹیوں کے الیکشن میں حصہ لینے والوں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانا شروع کر دیے اور نئی دھڑے بندیاں بھی شروع ہو گئیں۔ یہ مقامی دھڑے گو کہ پہلے سے قائم تھے اور ان کے پیچھے مقامی علاقوں سے قومی اور صوبائی ا سمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لینے والے گروپوں اور ان کے سرپرستوں کا ہاتھ ہوتا تھا مگر الیکشن کے قریب ایک بار پھر سے دھڑے بندیاں ہوتیں اور جس کا علاقے میں اثر و رسوخ زیادہ ہوتا‘ عمومی طور پر اسی گروپ کی حمایت کے حصول کی کوشش کی جاتی۔
جیسا کہ پہلے لکھا کہ عام آدمی کو ووٹ کا حق بس انہی انتخابات تک میسر تھا لہٰذا خوب جوش و خروش تھا۔ جب ان انتخابات کا اعلان ہوا تو ہمارے قصبے کے ایک قریبی گائوں میں دو متحارب دھڑے ایک دوسرے کے سامنے آ گئے، اسی دوران ایک پڑھا لکھا شخص بھی پہلی دفعہ مقامی سیاست میں کود پڑا اور کسی بڑے سیاسی دھڑے میں شامل ہونے کے بجائے اس نے اپنی برادری اور خاندان کی مدد سے الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ کیا، اس کام کے لیے اس نے پندرہ‘ بیس ہزار روپیہ بھی جمع کر رکھا تھا۔ انتخانی نشانات الاٹ ہوتے ہی امیدواورں کے اشتہارات گائوں اور ارد گرد کے علاقوں میں لگانے کا کام زور پکڑ گیا۔ ایک دن اپنے اپنے اشتہار لگاتے ہوئے اس شخص کی برادری کے لڑکوں کا دوسرے امیدوار کے گروپ سے سامنا ہو گیا۔ بات ہاتھا پائی سے بڑھ کر ایک دوسرے پر اینٹیں اور پتھر برسانے تک جا پہنچی جس سے دونوں اطرا ف کے کچھ لوگ معمولی زخمی ہو گئے۔ چند لوگوں کا خون بہتا دیکھ کر ہر قسم کی افواہیں جنگل کی آگ کی طرح گائوں کے ہر گھر تک پہنچ گئیں اور ہر گھر سے عورتیں اور مرد بغیر تحقیق کیے‘ لاٹھیاں‘ ڈنڈے اور سوٹے اٹھا کر موقع پر پہنچنا شروع ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے گائوں کی یہ گلی میدانِ کارزار بن گئی اور گالیوں اور للکاروں سے گونجنے لگی۔ لڑائی بڑھتی گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایک گروپ کا ایک نوجوان قتل ہو گیا جبکہ بشمول خواتین دونوں اطراف کے متعدد افراد زخمی ہوئے۔
اس وقت قصبے کے تیس بستروں کے ہسپتال میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے بجائے ایک ایل ایم ایف ڈاکٹر ہوا کرتا تھا اور اس کے ساتھ ہی پولیس تھانہ تھا۔ زخمیوں کو ہسپتال لایا جانے لگا جبکہ مقتول کو لاہور لے جایا گیا جہاں اس کا پوسٹ مارٹم ہونا تھا۔ اس وقت تک قصور نہ تو ضلع بنا تھا اور نہ ہی وہاں کوئی اچھا اور بڑا ہسپتال موجود تھا۔ خیر‘ پوسٹ مارٹم کے بعد دونوں اطراف سے ایف آئی آرز درج کرانے کا سلسلہ شروع ہو گیا مگر مقتول گروپ نے پولیس سے ساز باز کر کے اپنی مرضی کی ایف آئی آر کا اندراج کرا دیا جس میں بیس نامزد ملزمان اور سات کے قریب نامعلوم افراد کا اندراج کرایا گیا جن سے متعلق بتایا گیا کہ ان کو سامنے آنے پر شناخت کر لیا جائے گا۔ دوسرے جانب مخالفین کی جانب سے ایف آئی آر کے اندراج میں رکاوٹیں پیدا کرنا شروع کر دی گئیں اور مختلف قسم کے حیلے، بہانوں کے سبب ان کی ایف آئی آر درج نہیں ہونے دی گئی۔ ہوا یہ کہ مخالف امیدوار سمیت اس کے حامی گائوں سے بھاگ کر کہیں دور جا چھپے جبکہ باقی جو ہاتھ آئے‘ انہیں پولیس نے گرفتار کر لیا۔ دوسرا تماشا یہ دیکھنے میں آیا کہ پولیس کو کہا گیا کہ مقتول پارٹی نے پولیس کو مخالفین کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنے سے منع کر دیا اور کہا کہ جو ملزمان مفرور ہو چکے ہیں‘ ان کو اس وقت تک گرفتار نہیں کرنا جب تک الیکشن نہیں ہو جاتا اور اس کیلئے تھانے سمیت تحصیل کے افسران کے ساتھ بھی مک مکا کر لیا گیا۔
الیکشن کے دن قریب آنے لگے۔ جیسے ہی کسی کے متعلق پتا چلتا کہ وہ مفرور پارٹی کیلئے کسی گھر پر ووٹ مانگنے گیا ہے تو اگلے ہی دن اس کو بھی نامعلوم ملزمان میں نامزد کر کے قتل اور اقدام قتل جیسی سنگین دفعات کے تحت گرفتار کرا دیا جاتا۔ اب نہ تو مخالف امیدوار کا کوئی پولنگ ایجنٹ اور نہ ہی کوئی اس کے کیمپ اور ڈیرے پر بیٹھنے والا کوئی شخص دکھائی دیتا۔ امیدوار اور اس کے بھائیوں سمیت چند قریبی رشتہ داروں نے الیکشن سے دو روز پہلے عبوری ضمانتیں کرا لیں اور سخت حفاظتی انتظامات میں گائوں واپس آگئے لیکن تب تک کھیل ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ بالآخر الیکشن کا دن آ گیا اور شام کو جب نتائج سامنے آئے تو مقتول پارٹی بھاری اکثریت سے جیت گئی۔ وہ امیدوار‘ جس نے دیہات اور بنیادی جمہوریت کے سیاسی اکھاڑے میں پہلی دفعہ چھلانگ لگائی تھی‘ چند روز بعد ہی اس کی عبوری ضمانت خارج ہو گئی اور اس کے وہ رشتہ دار اور حامی‘ جو وقوعہ کے وقت موقع پر مو جود ہی نہیں تھے‘ کئی کئی ماہ بلکہ کئی سال تک جیل کی سلاخوں کو گھورتے رہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved