محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں آخری لمحات میں جاگنے کی بیماری لاحق ہوگئی ہے۔ جب پانی سر سے گزرنے لگتا ہے تب ہوش آتا ہے۔ بہت کچھ ہوتا رہتا ہے اور ہم محض تماشائی بنے رہتے ہیں۔ جب معاملات ہاتھوں سے نکلنے لگتے ہیں تب فکر لاحق ہوتی ہے کہ کچھ کیا جائے، معاملات کو مکمل بے لگام ہونے سے روکا جائے۔ تب تک اگرچہ بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے؛ تاہم کسی نہ کسی طور معاملات کو اپنی مٹھی میں کرنے کی سعی کچھ نہ کچھ دے ہی جاتی ہے۔ ہم ایسے ہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم ایسے کیوں ہیں؟ اور کب تک ایسے رہیں گے؟ کیا ناگزیر ہے کہ ہمیشہ آخری لمحات میں ہوش آئے؟ پہلے سے بھی تو کچھ نہ کچھ منصوبہ سازی کی جاسکتی ہے۔ لازم تو نہیں کہ ہر بار ہم اُسی وقت بیدار ہوں یا ہوش کے ناخن لیں جب پانی سر سے گزرنے والا ہو۔ دنیا کئی بار دیکھ چکی ہے کہ جب سب کچھ ہاتھوں سے جانے لگتا ہے تب ہم ہڑبڑاکر اٹھتے ہیں اور کسی نہ کسی طور‘ بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی کے مصداق‘ معاملات کو اپنی مٹھی میں کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ایسی کسی بھی کامیاب کاوش کو منظم کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
بھارت میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ میں قومی کرکٹ ٹیم کا سفر بھی کچھ ایسی ہی کہانی سنا رہا ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی عجیب و غریب رہی ہے۔ بتیس سال قبل جب ہم نے ورلڈ کپ جیتا تھا تب بھی معاملات ابتدائی مرحلے میں یوں ہاتھ سے نکلے تھے کہ قوم کی چیخیں نکل گئی تھیں۔ اب کے بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ 2007ء کے ورلڈ کپ میں تو ہمیں رونے کا موقع بھی نہیں ملا تھا کہ ہم تیسرے ہی دن ورلڈ کپ سے باہر ہوچکے تھے۔ قوم کے آنسو البتہ اِس بات سے پُنچھ گئے تھے کہ اگلے ہی دن بھارتی کرکٹ ٹیم بھی ٹورنامنٹ سے باہر ہوچکی تھی!
افتتاحی میچ میں نیدر لینڈز کو اور اُس کے بعد سری لنکا کو شاندار انداز سے شکست دے کر ہم نے رواں ورلڈ کپ میں اچھا آغاز کیا تھا مگر اِس کے بعد ہارنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے بھارت سے ہارے۔ پھر آسٹریلیا سے ہارے۔ اِس کے بعد افغانستان کے ہاتھوں شکست مقدر بنی اور اُس کے بعد ہم جنوبی افریقہ سے ایک ایسا میچ ہار گئے جو تقریباً جیتا جاچکا تھا۔ بنگلہ دیش کو ہراکر ہم نے فتوحات کا سفر دوبارہ شروع کیا۔ نیوزی لینڈ کو ہم نے جس طور شکست دی اُس سے دنیا حیران رہ گئی۔ بھارت کے خلاف میچ بھی ایسا نہیں تھا کہ ہم جیتنے کا نہ سوچ سکتے۔ 155 کے ٹوٹل پر ہماری تیسری وکٹ گری تھی اور تب تیسواں اوور چل رہا تھا۔ یہ بُری کارکردگی نہ تھی مگر 191 کے ٹوٹل پر بساط کا لپٹ جانا حیران کن ہی نہیں‘ شرم ناک بھی تھا۔ مڈل آرڈر بیٹنگ تنکوں کی طرح بکھر گئی۔ ابتدائی بیٹرز نے بنیاد مضبوط کردی تھی۔ اِس مضبوط بنیاد کو ڈھنگ سے بروئے کار لاتے ہوئے ٹوٹل 300 تک پہنچایا جاسکتا تھا۔ ایسی حالت میں بھارت کے لیے جیتنا آسان نہ ہوتا۔ ہمارے خلاف آسٹریلیا کی پہلی وکٹ چونتیسویں اوور میں 259 رنز پر گری تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لگتا تھا کہ آسٹریلیا 450 کا ٹوٹل ہمارے سر پر دے مارے گا مگر پھر پاکستانی بولرز نے کم بیک کیا اور آسٹریلیا کو 367 رنز تک محدود رکھنے میں کامیاب رہے۔ اگر بولرز کچھ پہلے جاگ جاتے تو فتح ہماری ہوسکتی تھی۔
افغانستان والا میچ بہت عجیب تھا۔ ہمارے بیٹرز افغان سپنرز کے سامنے بھیگی بلی بنے رہے۔ ڈاٹ بالز کا ڈھیر لگ گیا۔ بابر اعظم جیسا بڑا بیٹر بھی افغان بولرز کو حواس پر سوار کرکے کھیلتا رہا۔ افغانستان کی ٹیم مضبوط ہوچکی ہے مگر اِتنی مضبوط بھی نہیں ہوئی کہ اُس سے اِس قدر خوفزہ ہوکر مقابلہ کیا جائے۔ راشد خان اور محمد نبی اچھے سپنرز ہیں مگر ہم نے نور اور مجیب کو بھی بڑے سپنرز کی صف میں کھڑا کرکے اُن سے ڈرنا شروع کردیا ہے۔ بہرکیف، افغانستان سے میچ جیتا جاسکتا تھا۔ جنوبی افریقہ والے میچ میں ہم ایسے مرحلے پر کم بیک کرنے میں کامیاب ہوئے جب سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ پاکستانی ٹیم اس میچ میں اپنے لیے امکانات پیدا کرسکتی ہے۔ آخری لمحات میں چند کوتاہیاں گلے پڑگئیں۔ بولرز کو درست طریقے سے استعمال نہ کرنا مہنگا پڑگیا۔
ان چاروں میچوں میں ہماری شکست کا بنیادی تھا منصوبہ سازی کا فقدان۔ کوئی بھی محسوس کرسکتا تھا کہ اِن میچوں سے قبل کوئی واضح گیم پلان تیار نہیں کیا گیا تھا۔ یہ چاروں میچ رینڈم کے اصول کی بنیاد پر کھیلے گئے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتی ہے۔ ایسا ہوتا رہا ہے۔ ہم پورا میچ ہار رہے ہوتے ہیں اور پھر اچانک جاگ کر بازی پلٹ دیتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے خلاف ہم نے جو کچھ کیا اُس نے ایک دنیا کو حیران کردیا۔ 402 رنز کے ہدف کا تعاقب قومی کرکٹ ٹیم نے جس طور شروع کیا اُس سے لوگوں کو ایسا لگتا تھا کہ شاید 45 اوورز میں فتح پاکستان کی ہوگی! فخر زمان نے جس بے جگری سے بیٹنگ کی اور جو شاندار چھکے لگائے وہ بھارتی کمنٹیٹرز کو بھی حیرت سے دوچار کرنے کا سبب بنے۔ بابر اعظم نے بھی بہت نپے تُلے انداز سے بیٹنگ کی اور کسی بھی مرحلے پر کسی کو یہ محسوس نہیں کرنے دیا کہ وہ کسی بھی درجے میں خوفزدہ ہیں۔
نیوزی لینڈ کے خلاف ابتدا ہی سے انتہائی جارحانہ انداز اختیار کیا گیا۔ اِس کے نتیجے میں ڈی ایل ایس میتھڈ کے تحت فتح پاکستان کا مقدر بنی۔ اگر اننگز کا آغاز ڈرتے ڈرتے کیا گیا ہوتا تو بارش کی صورت میں ڈی ایل ایس میتھڈ کے تحت ہم فاتح ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہی اپروچ ہر اُس میچ میں کیوں نہیں اپنائی گئی جس میں ہار مقدر بنی۔ ورلڈ کپ میں پاکستان کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ سیمی فائنل میں پہنچے کا امکان اب بھی باقی ہے۔ 9 نومبر کو سری لنکا اور نیوزی لینڈ کا میچ ہے۔ اِس میچ کا نتیجہ ہمارے مقدر کا تعین کرے گا۔ اگر سری لنکا نے نیوزی لینڈ کو شکست دے دی تو ہمیں انگلینڈ کو شکست دے کر سیمی فائنل میں قدم رکھنا ہے۔ موجودہ چیمپئن انگلینڈ کی ٹیم پر شدید دباؤ ہے۔ وہ سات میچ کھیل کر صرف ایک ہی جیت پائی ہے۔ پوائنٹس ٹیبل پر بھی وہ سب سے نیچے ہے۔ حد یہ ہے کہ نیدر لینڈز کی ٹیم بھی اُس سے اوپر ہے۔ پاکستان کے سامنے میدان میں اترتے وقت انگلینڈ کی ٹیم پر شدید دباؤ ہوگا۔ اگر نیوزی لینڈ نے سری لنکا کو شکست دے دی تو پاکستان کے لیے ناگزیر ہوگا کہ انگلینڈ کی ٹیم کو محض شکست سے دوچار نہ کرے بلکہ اِس طور ہرائے کہ رن ریٹ بھی بہتر ہو۔ نیوزی لینڈ کے خلاف جب فخر زمان چھکے لگارہے تھے تب ایک انڈین کمنٹیٹر نے کہا ''اگر پاکستان یہ میچ جیتتا ہے تو یہ مخصوص نوعیت کی یعنی typical پاکستانی فتح ہوگی یعنی ایک ایسی فتح جو صرف پاکستان سے منسوب ہوسکتی ہے‘‘۔ ایک دنیا یہ بات جانتی ہے کہ ہم سب کچھ لُٹاکے جینے کے عادی ہیں۔ انجام کی پروا کیے بغیر کچھ بھی کر گزرنا ہمارا وتیرا رہا ہے۔ پاکستان نے کئی بار کرکٹ کی دنیا میں اپنے غیر یقینی مزاج کی بدولت تہلکہ مچایا اور ہنگامہ برپا کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ 1992ء کا ورلڈ کپ تو آپ کو یاد ہی ہوگا۔ تب بھی ہمارے لیے کوئی امکان دکھائی نہ دیتا تھا۔ سیمی فائنل تک پہنچنا تو دور کی بات‘ عزت بچانا مشکل ہوگیا تھا۔ قوم یہ سوچ رہی تھی کہ کہیں ہم پوائنٹس ٹیبل پر سب سے نیچے نہ ہوں۔ ہم جیسے بھی ہیں بس ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہم اُس سے ہٹ کر کچھ ہونا یا بننا بھی نہیں چاہتے۔ اگر پاکستان سیمی فائنل تک پہنچتا ہے تو سامنے پھر بھارت کھڑا ہو گا، گویا ؎
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے!
جس طور قومی کرکٹ ٹیم کو فکر و نظر کے اعتبار سے واضح سمت کی ضرورت ہے بالکل اُسی طور پوری قوم کو بھی فکر و نظر کی بلندی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ کبھی کبھار اچانک انتہائی جوش و خروش کا مظاہرہ کرنے سے وسیع البنیاد کامیابی ممکن نہیں بنائی جاسکتی۔ اِس کے لیے مستقل مزاجی بھی درکار ہے اور منظم انداز سے سوچنے کا ہنر بھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved