جنات کا وجود ہے یا نہیں؟ اگر کوئی کہتا ہے کہ نہیں ہے تو یہ جواب سائنسی نہیں! وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے کسی جِن کو دیکھا نہیں! اس کے وجود سے کیسے انکار کر سکتا ہے! اس کائنات میں لاکھوں کروڑوں مخلوقات ایسی ہیں جنہیں دیکھنے سے ہم قاصر ہیں۔ مگر ہم ان کے وجود سے انکار نہیں کر سکتے! ایک شخص تھوکتا ہے۔ اسے اپنی تھوک میں کچھ نہیں دکھائی دیتا! مگر لیبارٹری میں بیٹھے ہوئے سائنسدان کو اسی تھوک میں سینکڑوں جراثیم‘ بیکٹیریا اور دیگر کئی اقسام کی مخلوقات نظر آتی ہیں! تو اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ قبرستان میں مردے ایک دوسرے کیساتھ رابطہ کر سکتے ہیں یا اکٹھے ہو کر گپ شپ لگا تے ہیں یا پارٹیاں اور کانفرنسیں منعقد کرتے رہتے ہیں تو ہم اس کا انکار کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمارے پاس ایسا نہ ہونے کا یا ایسا نہ کیا جا سکنے کا کوئی ثبوت نہیں! ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ہوتے ہم نے دیکھا نہیں! یا ہم اس ضمن میں اپنی بے علمی کا اعتراف کر سکتے ہیں! باہمی رابطوں کے ذرائع‘ یہ ٹیلیفون‘ یہ وٹس ایپ‘ یہ ای میل‘ یہ واکی ٹاکی‘ یہ خط و کتابت‘ یہ دوڑتے بھاگتے قاصد‘ یہ سب ذرائع تو روئے زمین کے اوپر ہیں! زمین کے نیچے بسنے والے لوگ ، جنہیں ہم مُردے کہتے اور سمجھتے ہیں‘ ایک دوسرے سے رابطہ کیسے کرتے ہیں‘ ہمیں نہیں معلوم! بہت سے لوگ جو موت کے منہ سے واپس آئے‘ کہتے ہیں کہ وہ اوپر ہوا میں یا چھت کے قریب تیر رہے تھے اور اپنے جسدِ خاکی کو نیچے پلنگ پر پڑا دیکھ رہے تھے! مرنے کے بعد کیا کیا ہوتا ہے‘ کیسی دنیا ہے‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا! کیا خبر وہاں بھی رنگینیاں ہوں‘ محفلیں برپا ہوتی ہوں‘ جھگڑے ہوتے ہوں‘ صلح صفائیاں کرائی جاتی ہوں‘بہت کچھ ہوتا ہو! کیا خبر آواز دینے کی یا بلانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ہو‘ بس خیال آتے ہی دوسرے کو معلوم ہو جاتا ہو کہ فلاں نے یاد کیا ہے یا بات کرنا چاہتا ہے! بات کرنے کے لیے بھی زبان کی یا لفظوں کی ضرورت نہ پڑتی ہو! زمین کے اوپر تو آواز ہوا کی لہروں پر سوار ہو کر اِدھر اُدھر جاتی ہے۔ زمین کے نیچے گفتگو کا اور پیغام رسانی کا اور مواصلات کا اور رسل و رسائل کا کیا طریقہ ہے‘ ہم کیا جانیں! ہمیں کیا معلوم ! ہم اقرار کر سکتے ہیں نہ انکار! اقبال نے کہا تھا:
پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
زیر زمین دنیاؤں کا احوال یا کلپس سامنے آئیں تو صرف فرنگ کیا‘ کوئی بھی تاب نہ لا سکے!
یہ ایک سہ پہر تھی! زمین کے اوپر موسم سرد تھا نہ گرم! تھا تو نومبر مگر سرما ابھی دور تھا! ایک زمانہ تھا جب نومبر رضائیاں‘ انگیٹھیاں‘ گرم چادریں‘ کھیس‘ فرغل اور خشک میوے ساتھ لاتا تھا۔ مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب اس ملک میں درختوں کی بستیوں کی بستیاں آباد تھیں۔ شاہراہوں کے کنارے‘ گھروں کے صحنوں میں‘ ٹیلوں اور پہاڑیوں کے اوپر‘ نیچے جاتی ترائیوں پر‘ ہر جگہ درخت تھے۔ یہ درخت سخی تھے۔ ان مہربان درختوں کا وجود بارش کا باعث بنتا تھا۔ یہی وفاقی دارالحکومت تھا جہاں ہر تیسرے دن لازماً بارش ہوتی تھی۔ نومبر تو نومبر تھا‘ اکتوبر ہی میں گرم کپڑے نکل آتے تھے۔ گرم کپڑوں کے ساتھ یادیں اور رومانس وابستہ ہوتے ہیں۔ جس زمانے میں بشیر بدر مشاعرہ بازی کی بھینٹ نہیں چڑھے تھے‘ کمال کے اشعار کہتے تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے کہا تھا
گرم کپڑوں کا صندوق مت کھولنا ورنہ یادوں کی کافور جیسی مہک
خون میں آگ بن کر اُتر جائے گی‘ یہ مکاں صبح تک راکھ ہو جائے گا
تو سرما تب جلد آتا تھا۔ مری اور ایبٹ آباد کو جنگلوں نے اپنی آغوش میں لے رکھا تھا۔ ان جنگلوں کی برکت سے وفاقی دارالحکومت کا موسم دل آویز اور آسمانی تھا۔ خوداسلام آباد میں جا بجا درختوں اور جنگلوں کے قطعے تھے۔ سرما کے آغاز میں پودوں اور پیڑوں کے پتے لہو کی طرح لال ہو جاتے تھے۔پھر یوں ہوا کہ زمین کی بھوک یعنی جوع الارض (Land hunger )تاتاریوں کی طرح حملہ آور ہوئی۔ ٹنوں کے حساب سے بالٹی گوشت چٹ کر جانے والے‘ لالچی‘ کھردرے تمباکو نوش اور ناشائستہ ٹھیکیدار مری‘ ایبٹ آباد اور اسلام آباد میں یاجوج ماجوج کی طرح پھیل گئے۔ جنگل کٹ گئے۔ درخت شہید کر دیے گئے۔ سبزہ زار مٹ گئے! ہریالیاں رخصت ہو گئیں لوہے اور سیمنٹ پر مشتمل نئی دنیا ظہور پذیر ہوئی۔مری اور ایبٹ آباد میں نہ صرف پنکھے لگ گئے بلکہ ایئر کنڈیشنر !! جی ہاں! خدا جھوٹ نہ بلوائے‘ ایئر کنڈیشنر نصب ہو گئے!
ہم موضوع کی طرف پلٹتے ہیں! سہ پہر تھی! زمین کے اوپر موسم سرد تھا نہ گرم! ہوا معتدل تھی! زمین کے نیچے خاموشی تھی۔ سب اپنی اپنی قبروں میں محوِ خواب تھے۔ اچانک ایک مردے کی آنکھ کھل گئی۔پہلے تو اسے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ آوازیں کہاں سے آرہی ہیں پھر اسے معلوم ہو گیا کہ یہ آوازیں زمین کے اوپر سے آرہی تھیں۔ نہ صرف آوازیں آرہی تھیں بلکہ اچھی خاصی چہل پہل کا سماں لگ رہا تھا!گاڑیاں سٹارٹ ہورہی تھیں اور بند ہو رہی تھیں۔ لوگ باگ آجا رہے تھے۔ کبھی خاموشی چھا جاتی کبھی باتیں شروع ہو جاتیں۔ مردے کا تجسس بڑھا۔ مافوق الفطرت طاقت تو اس کے قبضے میں تھی ہی‘ اس نے فیصلہ کیا کہ باہر نکل کر زمین کے اوپر جائے اور دیکھے کہ کیا ماجرا ہے۔یہ وہ لمحہ تھا جب اس کا انچارج فرشتہ سامنے نہ تھا۔ اس نے مواصلاتی رابطہ قائم کیا۔ ایک ثانیے سے بھی کم وقت میں رابطہ قائم ہو گیا۔فرشتے کے ساتھ اس کے تعلقات خوشگوار تھے۔ دنیاوی زندگی میں یہ مردہ ایک قلاش کنبے کی مالی مدد کرتا رہا تھا۔ اس لیے زمین کے نیچے منتقل ہو کر اسے کسی کڑی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ انچارج فرشتے کے ساتھ تعلقات دوستانہ تھے۔ فرشتے نے پوچھا کیا بات ہے؟ مردے نے بتایا کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے '' اوپر‘‘ جا رہا ہے۔ فرشتے نے خوش طبعی سے جواب دیا: جاؤبھئی تمہیں کون روک سکتا ہے۔وہ بیوہ جس کے بچوں کی تم کفالت کرتے تھے‘ حالانکہ تم اتنے امیر بھی نہ تھے‘ ہر روز تمہاری سفارش داغ دیتی ہے! مردہ قبر سے نکلا‘ زمین میں رستہ بن گیا۔ اوپر جا کر جو منظر اس نے دیکھا‘ اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔اسے کوئی دیکھ تو سکتا نہ تھا۔ وزن اس کا تھا نہیں۔ کششِ زمین اُس کے سامنے بے بس تھی۔ اس نے اِدھر اُدھر‘ اوپر نیچے‘ چل پھر کر دیکھا اور جو کچھ ہو رہا تھا‘ اسے دیکھ کر خوب خوب محظوظ ہوا۔ یہ ایک مضحکہ خیز منظر تھا۔ ایک احمقانہ کارروائی تھی۔ اس کی ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔تماشا ختم ہوا تو وہ زیر زمین جا کر اپنی قبر میں داخل ہوا۔ وہ مسلسل ہنس رہا تھا۔فرشتے نے پوچھا: میاں سخی! کیا بات ہے۔ بتیسی کی مسلسل نمائش کیے جا رہے ہو! مردے نے جواب دیا کہ آج تو سامنے والے میدان میں سب کو اکٹھا کرو! ایسی خبر ہے کہ تفریح اور Entertainment کی حد ہی سمجھو! سب کو بتاؤں گا تو تم بھی سن لینا! فرشتے نے قبرستان کے سب مکینوں کو اطلاع دے دی کہ فلاں وقت اجتماع ہے اور میاں سخی کچھ بتائیں گے۔ سب آگئے تو سخی مُردے نے ہنس ہنس کر دُہرا ہوتے ہوئے سب کو بتایا کہ قبرستان میں آج ایک حاکم آیا تھا اور اس کے چلنے کے لیے قبرستان میں‘ قبروں کے بیچ‘ سرخ قالین بچھایا گیا تھا جس پر چل کر وہ کسی قبر تک گیا۔ اتنا سننا تھا کہ سب مُردے ہنسنے لگے! ان کی ہنسی رک ہی نہیں رہی تھی! ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے اور کہتے ''ہا ہا۔ قبرستان میں سرخ قالین!‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved