کہا: ''نئی نسل میں سیاسی شعور آ چکا۔ اب کوئی اس کا استحصال نہیں کر سکتا‘‘۔ پوچھا: دلیل؟ کہا گیا: 'کیا تم نے نہیں دیکھا‘ کیا ہوا وزیراعظم کے ساتھ‘ لاہور کی ایک درس گاہ میں؟ اس برہانِ قاطع کے بعد کس کا یارا تھا کہ بات کو آگے بڑھائے۔ اب کون سا مکالمہ اور کہاں کا مکالمہ! اس کے بعد تو خود کلامی ہی ہو سکتی تھی۔ کالم نگاری اسی کی ایک صورت ہے۔
میں نے ایک جدید یونیورسٹی کو 'درس گاہ‘ کہا کہ ایک تعلیمی ادارے کے لیے ہماری لغت میں یہی لفظ مستعمل ہے۔ لغت محض لفظ کے مفہوم کا ابلاغ نہیں ہے‘ یہ معاشرتی تصورات کی صورت گری بھی ہے۔ ایک تصور جب لفظ کا پیرہن اختیار کرتا ہے تو وہ ابلاغ کے ساتھ زبان کی تہذیبی روایت کا تعارف بھی کراتا ہے۔ اس تعلیمی ادارے کے دستِ ہنر کے یہ شاہکار دیکھ کر میرا احساس ہے کہ اس کے لیے 'درس گاہ‘ کا لفظ موزوں نہیں۔ اس کے لیے 'معلومات کدہ‘ یا 'سند فروش‘ جیسا کوئی مرکب ہی زیادہ حسبِ حال ہے۔ لفظ درس کی ایک معنویت ہے جسے خاص تہذیبی پس منظر ہی میں سمجھا جا سکتا ہے۔
تعلیم ایک مدت سے شعور سے اپنا رشتہ توڑ کر بازارکے ساتھ نکاح کر چکی۔ اب بازار کے مطالبات کو پورا کرنا اس کے فرائضِ زوجیت میں سرِفہرست ہے۔ بازار پر سرمایہ داریانہ نظام کی گرفت ہے۔ اس میں ہر رشتہ اور ہر قدر جنسِ بازار ہے۔ جسے 'شعور‘ کہا جاتا ہے‘ دراصل بازار کے مطالبات کا دوسرا نام ہے۔ جو اِن مطالبات کو بہتر انداز میں پورا کر سکتا ہے‘ وہ زیادہ 'باشعور‘ ہے۔ علم جس شعور کو جنم دیتا ہے وہ چیزِ دیگر ہے۔
جس تہذیب کے ٹکسال میں درس اوردرس گاہ جیسے الفاظ ڈھلتے ہیں‘ حفظِ مراتب اس تہذیب کا ایک ستون ہے۔ ریاست کا نظام ہو یا خاندان کا‘ وہ اس ستون پر کھڑا ہے۔ خاندان میں ایک باپ ہوتا ہے اور ایک بیٹا۔ ایک ماں ہوتی ہے اور ایک بیٹی۔ اس کا تہذیبی دائرہ جب محلے تک پھیلتا ہے تو کوئی بڑا ہوتا ہے اور کوئی چھوٹا۔ یہ تہذیب سب کے مقام کا تعین کرتی ہے۔ حق گوئی بلاشبہ اس تہذیب کی ایک قدر ہے مگر اس کے لیے اس ستون کو ڈھانا لازم نہیں۔ جیسے ہی یہ ستون گرتا ہے‘ اس تہذیب میں حق گوئی‘ بدتمیزی میں بدل جاتی ہے۔
مسلم تہذیب میں بتایا گیا کہ پیغمبر سے بات کرنی ہے تو اس کے آداب کیا ہیں۔ والدین سے بات کرنی ہے تو کیسے ان کے بڑھاپے کو پیشِ نظر رکھنا ہے۔ بڑھاپا اور بچپنا جڑواں بھائی ہیں۔ ان کی عادتوں میں مماثلت ہے۔ والدین کیساتھ حق گوئی کی ممانعت نہیں مگر حفظِ مراتب کا لحاظ کرتے ہوئے۔ حکمرانوں سے بات کرنے کے بھی آداب ہیں۔ سوال کا حق تو ہے‘ توہین کا حق نہیں۔
انقلابی تحریکیوں نے‘ جن کی نظریاتی اساس کچھ بھی ہو‘ سب سے زیادہ نقصان تہذیب کو پہنچایا ہے۔ جو زیادہ دریدہ دہن ہے‘ وہ اتنا بڑا انقلابی ہے۔ تاج اچھالنے کی خواہش میں لوگ یہ بھول گئے کہ وہ کسی سر پر دھرا ہوتا ہے۔ اسے قدرت کا انتقام کہیے کہ یہی انقلابی جب خود کسی دوسرے انقلاب کی زد میں آئے تو ان کے مجسموں کے گلے میں جوتوں کے ہار پہنائے گئے۔ مارکس ازم سے شدید اختلاف کے باوصف‘ میرا دل اشکبار ہوا جب مارکس کے مجسمے کی توہین ہوئی۔ انسانیت کے ایسے دوست احترام کے قابل ہوتے ہیں۔ ہم ان کی غلطی واضح کریں گے مگر ان کے احترام میں کمی نہیں آنے دیں گے۔ اسی کا نام تہذیب ہے۔
دورِ جدید میں نظریہ ختم ہو گیا مگر انقلابی موجود رہے۔ انہوں نے انقلاب کی کوکھ سے جنم دینے والی بدتمیزی کو نظریے کا متبادل جانا اور اس زعم میں مبتلا ہو گئے کہ وہ انقلاب کے لیے نکلے ہیں۔ اس کے لیے انہیں بتایا گیا کہ زیادہ زادِ راہ کی ضرورت نہیں۔ چند دشنام اور کچھ حروفِ ملامت کفایت کریں گے۔ انہوں نے اسی پر اکتفا کیا۔ اس سفر کا ایک پڑاؤ وہ تھا جو ہم نے لمز میں دیکھا۔
ہماری تہذیبی روایت میں تربیت‘ تعلیم کا اٹوٹ انگ ہے۔ تہذیب کا مطلب ہی تراش خراش ہے۔ اگر کہیں تجاوز ہے جو حسنِ فطرت کو گہنا رہا ہے تو اسے دور کرنے کا نام تہذیب ہے۔ پودوں کی بڑھی شاخیں جب کاٹ دی جاتی ہیں تو اسے تہذیب کہتے ہیں۔ اس سے جہاں ان کی نشو ونما ہوتی ہے وہاں وہ پہلے سے زیادہ دیدہ زیب ہو جاتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ تربیت ہم سفر رہے تو طالب علموں کی تہذیب ہوتی رہتی ہے۔ ہمارے مدرسوں میں 'ادب الخلاف‘ کو بطور مضمون پڑھایا جاتا تھا۔ اس پر کتابیں لکھی گئیں جو ہماری روایت کا تعارف ہیں۔
مسلم علمی روایت کے بڑے لوگوں نے حکمرانوں سے اختلاف کیا۔ اس کی پاداش میں تعزیر کے مستحق ٹھہرائے گئے۔ شدید سزائیں برداشت کیں۔ مؤقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے مگر کسی حکمران کی توہین نہیں کی۔ جب بات کی تو 'امیر المومنین‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ جب قوم کی باگ انقلابی علما اور سیاستدانوں کے ہاتھ میں آ گئی تو پھر اس کے نتائج ہمارے سامنے آنے لگے۔ ایسا ہی ایک واقعہ تھا جو اس کالم کی شانِ نزول بن گیا۔
سوال کیسے کیا جاتا ہے؟ اس کا تعلق حق گوئی سے زیادہ تہذیب سے ہے۔ سوال بہت سخت ہو سکتا ہے مگر یہ آپ کا لہجہ ہے یا لفظوں کا انتخاب ہے جو اس میں تلخی گھولتا ہے۔ گویا سوال کی سختی کو بر قرار رکھتے ہوئے اس کی تلخی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے اختلاف کے آداب کا سیکھنا ضروری ہے۔ سوال کے آداب بھی آدابِ اختلاف کا ایک باب ہے۔ یہ آداب مگر کہاں سکھائے جائیں؟
یہ کام تعلیمی اداروں میں ہونا چاہیے تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ تعلیمی اداروں کا ماحول 'ادب ‘ پر قائم ہو۔ استاد اگر طالب علموں کے ساتھ مل کر سگریٹ نوشی کرے گا تو گویا زبانِ حال سے یہ پیغام دے گا کہ وہ اس منصب کے قابل نہیں۔ اس کے بعد استاد اور شاگرد کا وہ رشتہ قائم ہی نہیں ہو سکتا جو حفظِ مراتب کے ستون پر کھڑی کوئی تہذیب سکھاتی ہے۔ کاروباری ذہنیت نے جب تعلیم کو جنسِ بازار بنایا تو استاد بھی اس دکان پر سجایا ایک مال بن کر رہ گیا۔ استاد آج گوگل کا ایک متبادل ہے۔ طالب علم کے دل میں اس کی وقعت اتنی ہی ہے جتنی ایک سرچ انجن کی ہو سکتی ہے۔ چند سکوں سے اسے خریدا جا سکتا ہے۔
ہم جس تعلیمی ادارے کی بات کر رہے ہیں‘ یہ قائم ہی اس لیے ہوا تھا کہ معاشرے کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ایک تعلیم یافتہ نسل تیار کی جا سکے۔ معاشرے کے صاحبانِ وسائل نے مادی نظر سے تمام معاملے کو دیکھا۔ انہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ کچھ تقاضے تہذیبی بھی ہوتے ہیں اور ان کا لحاظ بھی لازم ہے۔ اس دستِ ہنر کے شاہکار اب ہمارے سامنے ہیں۔
یہ کالم ان اقدار کا نوحہ ہے جو مٹ چکیں۔ لوگوں کے گھروں کے باہر کھڑے ہو کر آوازیں کسنا‘ پیچھے سے آواز لگانا کسی دور میں اوباشوں کا کام سمجھا جاتا تھا۔ آج اسے سیاسی شعور قراردیا جا رہا ہے۔ بڑوں سے ہم کلام ہوتے وقت آواز کو اونچا کرنا بدتمیزی سمجھا جاتا تھا۔ آج اسے قابلِ تقلیدکہا جا رہا ہے۔ تعلیم اگر تربیت سے ہاتھ اٹھا لے تو پھر ہمیں تیار رہنا چاہیے کہ کل ہر گھر میں والدین کو بھی آئے دن ایسی ہی حق گوئی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب تو ہم میں کوئی اکبر الٰہ آبادی بھی نہیں جو نصیحت کرے اور اس کی سنی جائے:
ہم ایسی کُل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کر لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved