فلسطین اسرائیل حالیہ تنازع کو ایک مہینہ مکمل ہو چکا ہے۔ غزہ کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جو اسرائیل کی مسلسل بمباری سے کھنڈرات میں تبدیل نہ ہوا ہو۔ ہسپتالوں کی صورتحال یہ ہے کہ ڈاکٹر صرف سنگین نوعیت کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں‘ معمولی زخمیوں کی طرف توجہ دینے کے لیے ہسپتالوں کے پاس وسائل باقی نہیں بچے کیونکہ اسرائیل ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ کا محاصرہ اور سامان کی ترسیل پر پابندی تو کئی روز سے عائد تھی‘ اب انٹرنیٹ کی بندش کی صورت میں غزہ کو مواصلات کے جدید ذرائع سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں فلسطینیوں کے حق میں ہزاروں شہریوں نے وائٹ ہاؤس کے قریب فریڈم پلازہ میں احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ غیر جانبدار میڈیا اسے گزشتہ چند برسوں کے دوران واشنگٹن کا سب سے بڑا اجتماع قرار دے رہا ہے۔ نیو یارک میں بھی فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے مظاہرے ہوئے۔ لندن‘ پیرس‘ آسٹریلیا اور قطر سمیت متعدد ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کیے گئے۔ اسی طرح اقوامِ متحدہ کے تمام اہم اداروں کے سربراہان نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں غزہ میں فوری جنگ بندی پر زور دیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اداروں کے سربراہان نے کہا ہے کہ تقریباً ایک مہینے سے دنیا اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں بگڑتی صورتحال کو ہولناک شکل اختیار کرتے دیکھ رہی ہے جس میں ہزاروں قیمتی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے۔ اسرائیل دنیا کے مطالبات اور دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے غزہ کے مکینوں پر عرصۂ حیات تنگ کر رہا ہے مگر کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ہے جو آگے بڑھ کر اسرائیل کا ہاتھ روک سکے۔ صورتحال تو یہ ہے کہ امریکہ جیسے ممالک اب بھی انسانی جانوں کے تحفظ کے بجائے اسرائیل کے اقدام کو اس کا حق قرار دے رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک 10ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں چار ہزار کے قریب بچے تھے۔ ایسی کئی درد ناک تصاویر ہیں جنہوں نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی شوبز شخصیات نے صدر جو بائیڈن کے نام کھلا خط تحریر کیا ہے۔ آرٹسٹ فار سیز فائر کے عنوان سے خط میں جو بائیڈن انتظامیہ سے غزہ میں بمباری رکوانے اور جنگ بندی کروانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اسرائیل مگر بین الاقوامی مطالبات کو مسلسل مسترد کر رہا ہے اور جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہے بلکہ اب اس جنگ کا دائرہ لبنان تک بڑھا چکا ہے۔ اسرائیلی فوج نے لبنان کے جنوبی علاقے میں فضائی حملہ کیا ہے جس میں تین افراد شہید ہوئے ہیں۔ انتہا پسند یہودی پارٹی اوزما سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزیر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں جنگ جیتنے کے لیے اسرائیلی فوج کے پاس کئی آپشنز ہیں جن میں آخری اور حتمی اقدام ایٹم بم گرانا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے اب تک غزہ پر کی جانے والی بمباری ہرگز ایٹم بم سے کم نہیں ہے لیکن اسرائیل کے رویے کو دیکھتے ہوئے فلسطینیوں پر ایٹم بم گرانا بعیداز قیاس بھی نہیں ہے۔ مذکورہ اسرائیلی وزیر جس جماعت سے تعلق رکھتا ہے وہ غزہ کی پٹی کے شمالی علاقے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے یہودی بستیوں کو آباد کرنے کی حامی ہے۔ اسرائیلی وزیر کے بیان پر دنیا بھر سے ردِعمل آنے کے بعد اسے عہدے سے معطل کر دینے کی اطلاعات ہیں۔
فلسطینیوں پر کھلی جارحیت کے باوجود اسرائیل مغربی دنیا کے سامنے مظلوم بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اسرائیلی فوج کی نگرانی میں مقامی اور غیر ملکی صحافیوں کو شمالی غزہ کا دورہ کرایا گیا‘ تاہم آسٹریلوی صحافی نے حقیقت حال کو دیکھنے کے بعد بھانڈا پھوڑ دیا اور کہا کہ یہ تو مکمل تباہی کا منظر ہے۔ ایک انتہائی فعال اور خطرناک جنگ ہے۔ عمارتیں بمباری سے داغدار اور سیاہ ہو گئی ہیں۔ ٹینکوں سے ہونے والی بمباری سے آسمان پر بلند ہوتے شعلے دیکھے جا سکتے ہیں۔ فوج کی نقل و حرکت کو فلمانے یا نشر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ دورے کے دوران صحافیوں کو محصور پٹی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی جہاں پر زیادہ نقصان کے خدشات ہیں۔ حماس اسرائیل جنگ میں امریکہ اسرائیل کا مکمل طور پر پشت پناہ بن چکا ہے جبکہ مسلم ممالک کی کمزور پوزیشن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں‘ ایسی صورتحال میں سوال یہ ہے کہ تصفیہ کون کرائے؟
اسرائیل حماس تنازع اگرچہ دنیا پر دیرپا اثرات مرتب کرے گا تاہم اس کے ورلڈ آرڈر پر خاص اثرات مرتب نہیں ہوں گے‘ پرانا ورلڈ آرڈر چلتا رہے گا البتہ روس و چین کو نیا موقع ملا ہے کہ وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو طویل عرصے تک اُلجھائے رکھیں۔ شطرنج کے اس کھیل میں کھلاڑی اپنے مقاصد کے لیے حالیہ تنازع کو طول دینا چاہتے ہیں۔ جنگوں کی بے رحم تاریخ میں ہمیشہ اسلحے کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے جس کا ایندھن بالعموم انسان بنتے ہیں۔ کئی برسوں بعد اصل حقائق سے پردہ اس وقت اٹھتا ہے جب اسلحہ کی فروخت کے لیے جنگ کو مارکیٹنگ میں بطور حوالہ پیش کیا جاتا ہے کہ یہ اسلحہ فلاں جنگ میں استعمال ہو چکا ہے اور نتائج تسلی بخش تھے۔ امریکہ اور اسرائیل کے طرزِ عمل کے مقابلے میں چین گلوبل سکیورٹی انیشی اٹیو کا تصور پیش کرتا ہے۔ جنگوں کے بجائے چینی صدر دنیا کی مشترکہ ترقی کے خواہاں ہیں حتیٰ کہ چین تائیوان جیسے اندرونی معاملات اور تمام پڑوسیوں کے ساتھ معاملات کو تناؤ کے بغیر حل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ تائیوان دراصل چین کا ہی علاقہ ہے مگر تائیوان 1949ء سے علیحدگی کا دعویٰ کرتا ہے‘ چین اسے تسلیم نہیں کرتا۔ کچھ عرصہ سے امریکہ اور جاپان تائیوان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ یہ چین کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔ وَن چائنہ وژن کے باوجود چین تحمل کا مظاہرہ کررہا ہے۔ چین کی طرف سے متعدد بار انتباہ جاری کیے جانے کے باوجودامریکہ تائیوان کو دفاعی مقاصد کے لیے فوجی ساز و سامان فروخت کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ دوسری جانب ٹوکیو کی جانب سے فوکو شیما نیوکلیئر پلانٹ سے تابکار پانی کو سمندر میں چھوڑنے پر چین کو شدید تحفظات ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ چین کو اشتعال انگیزی دلانے کے لیے تائیوان کے معاملے پر امریکہ اور جاپان ایک پیج پر ہیں۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی چین نے صرف اتنا کہا کہ جاپان کا فیصلہ غیر ذمہ دارانہ اور خود غرضی پر مبنی ہے۔ فیصلہ کر کے جاپان نے اپنے مفادات کو ہمسایہ ممالک کے تحفظات پر فوقیت دی ہے۔ چین سمندری حیات کی حفاظت‘ غذائی سلامتی اور عوامی صحت کے تحفظ کے لیے ضروری حفاظتی تدابیر اختیار کرے گا۔ عسکری قوت میں چین اور جاپان کا کوئی موازنہ نہیں۔ چین کی عسکری قوت کئی گنا زیادہ ہے‘ اس کے باوجود چین کوشش کر رہا ہے کہ جنگ سے گریز کیا جائے۔ صرف یہی نہیں‘ ہانگ کانگ کا مسئلہ عمدہ انداز سے حل کیا جا چکا ہے۔ چین تبت و ہماچل پردیش کے مسئلے کو بھی خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو چین کا طرزِ عمل مثالی ہے جس سے دنیا کو بالخصوص اسرائیل کو سیکھنے کی ضرورت ہے کہ متنازع معاملات کو جنگ کے بغیر کیسے حل کیا جاتا ہے۔ چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کو مغرب تھرڈ ورلڈ آرڈر کا نام دیتا ہے جبکہ چین اس سے انکار کرتا ہے اگر تھرڈ ورلڈ آرڈر کے مفروضے کو درست مان بھی لیا جائے تب بھی چینی ماڈل مغربی ماڈل سے سو درجہ بہتر ہے کیونکہ چین امن اور ترقی کی بات کرتا ہے جبکہ مغرب کی تاریخ دنیا پر جنگیں مسلط کر نے سے عبارت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved