تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     07-11-2023

انسانیت بمقابلہ بربریت!

غزہ آج عالمی ذرائع ابلاغ کا مرکزی موضوع ہے۔ علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا ہو گیا ہے۔ ممولا شاہین سے نہیں خود شاہین بن کر مست ہاتھیوں اور خنزیروں سے لڑ رہا ہے۔ ہر روز مہلک اسلحے، بمباری، ہوائی اور زمینی حملوں میں فلسطینی مسلمانوں کی شہادتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جو ان سطور کی اشاعت تک شاید بارہ‘ تیرہ ہزار سے بھی زائد ہو چکاہو گا۔ اس کے مقابلے میں غزہ کے مجاہدین نے اپنے معمولی ہتھیاروں سے دشمن کو حواس باختہ کر دیا ہے۔ ایک دن کی خبروں کا جنگی نقشہ یوں سامنے آتا ہے۔ ''غزہ سے غیر ملکیوں کا انخلا، حماس کے حملوں میں 15اسرائیلی فوجی ہلاک، صہیونی ارکانِ پارلیمنٹ رونے پیٹنے لگے، اسرائیل کی بمباری جاری، مجموعی طور پر 8 ہزار 796شہادتیں ہو گئیں۔ حماس کے حملوں میں اب تک ہلاک اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 320 ہو گئی‘‘۔
برطانوی اخبارات کی رپورٹ کے مطابق: اسرائیلی فوج کو بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا جب ایک ٹینک شکن گائیڈڈ میزائل دوپہر کے وقت بکتربند گاڑی سے ٹکرایا، اس سے 11فوجی ہلاک، متعدد زخمی ہوئے۔ ایک اور واقعہ میں اسرائیلی فوجی گاڑی بارودی سرنگ کے ساتھ ٹکرا گئی جس سے متعدد فوجی ہلاک ہو گئے۔ اسی طرح مجاہدین کے ایک راکٹ سے دستی بم پھینکے گئے جس میں دو فوجی مارے گئے۔ اسرائیلی حکومت فوجیوں کے ناموں کا اعلان نہیں کر رہی جس سے پورے ملک میں آہ و بکا کا سماں ہے۔
ظلم تو اس دنیا میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے، مگر اس وقت غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، یہ قیامتِ صغریٰ ہے۔ جنگوں میں ظلم کے علمبرداروں نے ہمیشہ انسانیت اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی ہیں، لیکن جو صورت ِ حال غزہ کی مختصر پٹی اور بیس لاکھ سے زائد افراد کی آبادی کو درپیش ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ جو اندھی قوتیں معصوم بچوں، ہسپتالوں میں پڑے مریضوں اور ضعیف العمر، معذور مردو خواتین کو ان کے ہسپتالوں اور پناہ گاہوں میں بموں کا نشانہ بنا کر نیست و نابود کر رہی ہوں، انہیں انسان ماننا کیسے ممکن ہے۔ ایسے خونخوار درندوں اور ان کی پشت پر کھڑے بے ضمیروں کو مہذب تو کیا‘ اولادِ آدم بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ خود کو اعلیٰ تہذیب کا علمبردار قرار دیتے ہیں اور اندھے، بہرے لوگ تسلیم کر لیتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں اسلحے کے ساتھ میڈیا کی غیر محدود قوت بھی ہے۔
اس سب کچھ کے باوجود اب ایک بڑی تبدیلی وقوع پذیر ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا اور کسی حد تک پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر بھی حقائق ریکارڈ پر آ رہے ہیں۔ عالمی میڈیا میں اب یہ تصویر خود درندہ صفت حملہ آوروں اور ان کے پاپی سرپرستوں کے سامنے بھی ہر لمحے رونما ہو رہی ہے۔ ہمارے قومی میڈیا میں ہر روز ظلم کے خلاف دنیا بھر میں ہر طبقۂ فکر کے لوگوں کی طرف سے مظلوموں کے حق میں خبریں، تبصرے اور تصاویر آ رہی ہیں۔ محض ایک دن کی چند خبریں ہی نمونہ از خروارے کے طور پر ملاحظہ فرمائیے: ''غزہ پر اسرائیلی حملے، ایک دن کا بچہ بھی شہید، برتھ سرٹیفکیٹ سے قبل ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری۔ غزہ پر اسرائیلی فضائیہ، بحریہ اور توپ خانے سے بمباری و گولا باری کے دوران صہیونی افواج کی بمباری میں ایک دن کا بچہ بھی شہید ہو گیا، فلسطینی صحافی نے سوشل میڈیا پر نومولود کی کفن میں لپٹی تصویر جاری کی، انہوں نے بتایا کہ یہ بچہ ایک روز قبل پیدا ہوا اور اس کا برتھ سرٹیفکیٹ جاری کیے جانے سے قبل اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کر دیا گیا ہے۔کئی شیرخوار بچوں کی میتیں اٹھائے فلسطینی والدین کی وِڈیوز بھی سامنے آئی ہیں، ایک والد اپنے دومعصوم بچوں کی میتیں اٹھائے میڈیا کو بیان دے رہا ہے کہ اسرائیلی فوج کا مقصد بچوں کا قتل عام ہے‘‘۔
ان مظالم پر مغربی و بھارتی مقتدر قوتیں تو بغلیں بجا رہی ہیں، مگر دنیا بھر میں عوام الناس کے اندر ایک شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایک خبر کے مطابق: ''اسرائیلی پرواز پہنچنے پر داغستان ایئر پورٹ پر ہجوم کا دھاوا، طیارے پر فلسطینی پرچم لہرا دیا۔ اسرائیل سے روس کے خودمختار خطے داغستان کے ہوائی اڈے پر ہجوم نے اس وقت دھاوا بول دیا جب انہیں اسرائیلی پرواز کے پہنچنے کی اطلاع ملی۔ ہجوم نے طیارے پر فلسطینی پرچم لہرا دیا اور فلسطین کے حق میں نعرے لگائے۔ اسرائیلی مسافروں کو سکیورٹی عملے نے حفاظت میں لے کر کئی گھنٹوں کے بعد باہر نکالا‘‘۔
اس کے بعد حکومتِ داغستان نے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا مگر عوامی ردعمل کے سبب ان لوگوں میں سے اکثر کے ساتھ نرم رویہ اپنایا گیا۔ البتہ کچھ لوگوں کو جیل اور قید کی سزائیں بھی سنائی گئیں۔ جیل کے عملے نے ان سب قیدیوں کا وی آئی پی انداز میں استقبال کیا۔ یہ ایک مائنڈ چینج ہے جس کی مثالیں خود امریکہ اور دیگر اسرائیلی سرپرستوں کے ہاں ریکارڈ پر آ رہی ہیں۔ او آئی سی، عرب لیگ، یو این او تو آج تک مظلوموں کے لیے دھیلے کا کام نہ کر سکیں مگر حماس کے جرأت مندانہ کردار نے پہلی بار ہوائوں کا رخ پھیر دیا ہے۔ اس میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ خود اسرائیل کے بے تحاشا مظالم اور ریاستی دہشت گردی نے بھی اس میں کافی کردار ادا کیا ہے۔
اسی روز میڈیا میں ایک اور خبر نظر سے گزری،''غزہ پر اسرائیلی فورسز کے بے رحمانہ حملوں کے خلاف اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ سپین کے دارالحکومت میڈرڈ، جرمنی کے دارالحکومت برلن، یونان کے دارالحکومت ایتھنز، اٹلی کے دارالحکومت روم، آسٹریلیا کے شہروں سڈنی اور میلبرن، لبنان کے دارالحکومت بیروت، مراکش کے دارالحکومت رباط سمیت متعدد شہروں میں ہر جگہ ہزاروں افراد نے احتجاجی ریلیاں نکالیں اور مظاہروں کا اہتمام کیا۔ مظاہرین نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی، ان کا مطالبہ تھا کہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی روکی جائے اور فوری طور پر جنگ بندی کی جائے‘‘۔
واضح رہے کہ آسٹریلیا، جرمنی، اٹلی اور دیگر یورپی حکمران امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں، مگر عوام نے مظلوموں کی حمایت کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ البتہ سپین کے عوام کے ساتھ وہاں کی حکومت نے بھی اسرائیلی مظالم پر شدید احتجاج کیاہے جو بہت بڑی بات ہے۔ یہ مجاہدین کے جذبے اور شہیدوں کے خون کا کرشمہ ہے۔ ان شاء اللہ ظلم ختم ہو گا اور ظالم کیفرِ کردار کو پہنچے گا۔ ہمیں شوبز کی دنیا سے نہ دلچسپی ہے، نہ وہاں کی شخصیت سے تعارف۔ البتہ ظلم کے خلاف جو باضمیر شہری بھی آواز اٹھائے ہم اس کے جذبات کی تحسین کرتے ہیں۔ اسی نوعیت کی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے۔
''غزہ پر بمباری کا کوئی جواز نہیں، انجلینا جولی بھی اسرائیلی جارحیت پر پھٹ پڑیں۔ عالمی شہرت یافتہ ہالی وُڈ اداکارہ اور انسانی حقوق کی سرگرم رکن انجلینا جولی نے بھی غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق انجلینا جولی کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں جو کچھ ہوا وہ غزہ کی شہری آبادی پر بمباری کا جواز نہیں ہو سکتا، چند ٹرک غزہ کی امدادی ضروریات پوری نہیں کر سکتے۔ انجلینا جولی نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ایندھن اور پانی کی فراہمی روکنے کو اجتماعی سزا قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کے لوگوں کے پاس جانے کے لیے نہ کوئی اور جگہ، نہ خوراک تک رسائی، نہ انخلا کا کوئی امکان اور نہ ہی سرحد پار کر کے پناہ لینے کا بنیادی حق موجود ہے‘‘۔
مغرب کے جھوٹے،بے بنیاد اور لغو پروپیگنڈے کے باوجود اصل حقائق کو لوگوں کی آنکھوں سے چھپایا نہیں جا سکتا۔ آج کل کے دور میں ہر وقوعہ کی حقیقی تصویر فوراً لوگوں کے سامنے آ جاتی ہے۔
لاطینی امریکہ کے کئی ممالک چلی (آبادی تقریباً دو کروڑ)، کولمبیا (آبادی سوا پانچ کروڑ) اور بولیویا (آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ) نے اسرائیل سے اپنے سالہاسال پرانے سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کر دیے ہیں۔ اپنے ملکوں میں اسرائیلی سفارت خانہ بند اور اپنے سفارت خانے اسرائیل میں ختم کر دیے ہیں۔ یہ تینوں ممالک غیر مسلم آبادی پر مشتمل ہیں۔ مسلم ممالک میں سے ترکیہ، اردن اور بحرین نے اسرائیل سے اپنے سفراء کو واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی ایئرلائن کو ان فیصلوں سے شدید نقصان پہنچا ہے۔ ان کی پروازوں کو اب ہزاروں میل لمبا سفر کرنا پڑتا ہے۔ ان خبروں کی عالمی میڈیا میں ہر جانب دھوم مچی ہوئی ہے۔ ان خبروں کی تفصیلات پڑھتے ہوئے مسلم دنیا کی لگ بھگ دو ارب آبادی اور کم و بیش پانچ درجن حکومتوں کی تصویر بھی سامنے آتی ہے۔ بالخصوص وہ مسلم اور عرب ریاستیں جو اس ناجائز صہیونی ریاست کو عافی عرصہ پہلے تسلیم کر چکی ہیں اور وہ بھی جو ''طوفان الاقصیٰ‘‘ سے قبل اسرائیل کو گلے لگانے کے لیے بے قرار تھیں، ان سبھی حکمرانوں نے مردہ دل اور مردہ ضمیر ہونے کا اظہار کر دیا ہے۔
حماس کی قید سے رہا ہونے والے قیدیوں نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ قید کے دوران ان سے بہت اچھا انسانی سلوک کیا گیا، جو کچھ حماس کے لوگ کھاتے تھے وہی ہمیں دیتے تھے، نہ ہمیں دکھ دیا گیا نہ طعنے سننے پڑے۔ یہ ہے اسلامی تعلیمات کا عکس! اس کے مقابلے میں صہیونی حکومت کے قیدیوں کے ساتھ سلوک کو کون نہیں جانتا۔ ایک جانب انسانیت ہے دوسری جانب درندگی۔ ان شاء اللہ انسانیت جیتے گی اور درندگی کا مقدر ذلت و رسوائی ہو گا۔ حزب اللہ اور یمن کے لوگوں کے حملے ایک مثبت کاوش ہیں، مگر کسی منظم ریاست کی سطح پر کچھ عملی اقدام سامنے آیا تو بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔
عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
شکوہِ سنجر و فقرِ جنیدؒ و بسطامیؒ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved