ہر دور کے انسان کے لیے نیند ناگزیر رہی ہے۔ ہر اعتبار سے رکاوٹ کے بغیر پوری کی جانے والی نیند انسان کو دوبارہ چستی دیتی ہے اور وہ معاشی جدوجہد کے قابل ہو پاتا ہے۔ رات قدرت نے آرام کے لیے بنائی ہے۔ ہر طرح کے خلل کے پاک نیند پوری ہونے پر انسان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُس کا کوئی نیا وجود بیدار ہوا ہے۔ بے خلل نیند ہر انسان کا خواب رہی ہے۔ روئے ارض پر ایک دور وہ بھی تھا جب یہ خواب آسانی سے شرمندۂ تعبیر ہو جایا کرتا تھا۔ جب دنیا میں زیادہ بھیڑ بھاڑ نہیں تھی اور زندگی ہماہمی و ہنگامہ آرائی سے دوچار نہ تھی تب بھی نیند اُتنی ہی لازم تھی جتنی آج ہے۔ ہاں‘ اُس دور کے انسان کے لیے ایک بڑا ایڈوانٹیج یہ تھا کہ وہ گہری نیند کے مزے زیادہ آسانی سے لُوٹ سکتا تھا۔ جب ایجادات کا بازار گرم نہیں ہوا تھا اور انسان مشینوں کا غلام نہیں بنا تھا تب بہت کچھ ہاتھوں سے کرنا پڑتا تھا۔ ماحول میں مشینوں کا شور برائے نام تھا۔ ایسے میں زندگی میں سُکون کا تناسب غیر معمولی تو ہونا ہی تھا۔ اُس دور کے انسان کے لیے ایک بڑا ایڈوانٹیج یہ بھی تھا کہ وہ گہری نیند ممکن بنانے کے نتیجے کے طور پر پوری یکسوئی کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہو پاتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ اُس دور کے اہلِ دانش نے دنیا کو بہت کچھ دیا۔ وہ پُرسکون انداز سے زندگی بسر کرتے ہوئے سوچنے پر متوجہ رہتے تھے اور اِس کے نتیجے میں علم و حکمت کے موتی دنیا کو دینے کے قابل ہو پاتے تھے۔
جب انسان ڈھنگ سے نیند پوری کرنے میں کامیاب رہتا ہے تب بیداری کی حالت میں ذہن پوری توجہ اور جوش و خروش سے کام کرتا ہے۔ کسی بھی انسان کی مجموعی کارکردگی کو قابلِ رشک بنانے میں نیند کلیدی کردار ادا کرتی ہے ہر اعتبار سے بھرپور نیند ہی انسان کو دوبارہ بھرپور محنت کے قابل بنا پاتی ہے۔ سیکھنے کا عمل بھی پُرسکون نیند پوری کرنے والوں ہی کے لیے آسان ہو پاتا ہے۔ اگر کوئی طالبعلم رات بھر جاگتا رہے تو صبح کلاس روم میں جھونکے ہی مارے گا۔ یہی حال کام کرنے والوں کا بھی ہے۔ اگر کوئی رات دیر گئے تک جاگتا رہا ہو تو دفتر، فیکٹری یا دکان میں کیا کرے گا اِس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ آج کے ہمارے معاشرے میں ہر شعبے اور ہر سطح کے لوگ معمولی درجے کی یا عمومی سی کارکردگی کا مظاہرہ اِس لیے کر رہے ہیں کہ وہ نیند پوری نہیں کرتے اور جسم کو مطلوب توانائی بحال نہیں ہو پاتی۔ نیند کے حوالے سے ہر دور میں سوچا گیا ہے اور ہر عہد کے طبی ماہرین و اہلِ دانش نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ نیند کا خسارہ کسی بھی طور واقع نہیں ہونے دینا چاہیے کیونکہ نیند کی کمی سے پوری ہونے والی پیچیدگی دور کرنے میں زمانے لگتے ہیں۔ جب مادّی علوم و فنون کی دنیا میں غیر معمولی پیش رفت نہیں ہوئی تھی اور انسان کے لیے زیادہ مشکل اور پیچیدہ حالات پیدا نہیں ہوئے تھے تب نیند کا معاملہ بھی زیادہ رُلا ہوا نہیں تھا۔ جب آرام کرنا آسان تھا اور بھرپور نیند پوری کرنا زیادہ مشکل نہ تھا تب نیند کے حوالے سے زیادہ تحقیق کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ہمیں ڈیڑھ‘ دو ہزار سال پہلے کے علمی ورثے میں نیند سے متعلق تحقیق برائے نام بھی نہیں ملتی۔ ہاں‘ گہری اور بے خلل نیند کے فوائد کے بارے میں بہت کچھ ملتا ہے۔ جب یہ دنیا مشینوں سے آشنا نہ ہوئی تھی تب عام آدمی رات کو گہری نیند سوتا تھا اور صبح جب بیدار ہوتا تھا تو اُس کے ذہن پر کچی نیند کا بوجھ نہیں ہوتا تھا۔ ماحول میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا جو نیند میں خلل ڈالے۔ یوں عام آدمی بھی زیادہ تگ و دَو کے بغیر بھرپور نیند کا لطف پاسکتا تھا۔ کم و بیش ڈیڑھ سو سال پہلے تک بھی ماحول میں زیادہ شور شرابہ نہ تھا۔ مشینیں تھیں مگر اِتنی نہ تھیں کہ انسان کا سانس لینا اور نیند پوری کرنا دوبھر ہوجائے۔ صنعتی دور چل رہا تھا مگر پھر بھی انسان کی اہمیت باقی تھی۔ سب کچھ مشینوں کے حوالے نہیں کردیا گیا تھا۔ لوگ صنعتی دور کی سہولتوں سے مستفید ہونے کے عمل میں زندگی کی بنیادوں کو ہلا ڈالنے کے قائل نہ تھے۔
آج معاملات بہت مختلف ہیں۔ آج کی دنیا میں شور شرابہ اِتنا زیادہ ہے اور انہماک و ارتکاز منتشر کرنے والے معاملات اِتنے زیادہ ہیں کہ کسی بھی انسان کے لیے اب پوری یکسوئی کے ساتھ کام کرنا اور پورے سکون کے ساتھ آرام کرنا ممکن نہیں رہا۔ قیامت خیز تیزی نے انسان کو تماشا بنا ڈالا ہے۔ مادّی ترقی کی حیرت انگیز رفتار نے زندگی کی رفتار اِتنی بڑھادی ہے کہ اب کسی بھی انسان کے لیے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں رہا۔ اب یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی کے پاس کرنے کے لیے دس‘ دس گھنٹے تک کوئی کام نہیں ہوتا مگر وہ آرام نہیں کر پاتا! ماحول کی بے آرامی انسان پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ آج کے انسان کا انتہائی بنیادی مسئلہ حقیقی آرام و سُکون یقینی بنانے کا ہے۔ آرام کا ایک تصور تو یہ ہے کہ انسان بستر پر پڑا رہے۔ فارغ بیٹھے رہنا بھی آرام ہی کے ذیل میں آتا ہے مگر ہم اِسے حقیقی آرام نہیں کہہ سکتے۔ حقیقی آرام کی صرف ایک صورت ہے‘ گہری اور خلل سے پاک نیند۔ انسان اگر کہیں ڈیڑھ‘ دو گھنٹے یونہی بیٹھا رہے، کچھ نہ کرے تو اِسے آرام نہیں کہا جاسکتا کیونکہ بیداری کی حالت میں ذہن الجھا ہوا رہتا ہے اور اُس کے متحرک یا فعال رہنے سے حقیقی آرام کی کیفیت پیدا ہی نہیں ہوتی۔ اگر کوئی بستر پر لیٹا رہے؛ تاہم بیداری کی حالت میں ہونے کے نتیجے میں ذہن بھی فعال رہے یعنی وہ سوچوں میں گم رہے تو اِسے بھی آرام قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ذہن کا فعال رہنا تھکن کے احساس کو ختم نہیں کرتا بلکہ بڑھاتا رہتا ہے۔
بیداری کی حالت میں ذہن کا فعال رہنا کسی بھی انسان کو وہ سکون عطا نہیں کرسکتا جس کی اُسے دن میں کئی بار ضرورت پیش آسکتی ہے۔ بیداری کی حالت میں ماحول کا شور بھی ذہن پر اثر انداز ہوتا رہتا ہے اور دوسری طرف انہماک کا منتشر ہوجانا بھی قیامت ڈھاتا ہے۔ آج کم و بیش ہر انسان کو انہماک یقینی بنانے میں شدید الجھن کا سامنا ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہے جو انسان کو بار بار یکسوئی سے دور کرتا ہے، انہماک کی راہ سے ہٹاتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں فقیدالمثال پیش رفت نے آج کے انسان کو ذہنی انتشار سے اس قدر دوچار کیا ہے کہ اُس کے لیے اب کسی بھی معاملے میں پوری توجہ کے ساتھ کام کرنا ممکن نہیں رہا۔ آرام کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہر وقت دوسروں سے جڑے رہنے کی آسانی اور عادت نے شدید نوعیت کی قباحت کا لبادہ اوڑھ کر آج کے انسان کو حقیقی آرام و سکون کی منزل سے دور کردیا ہے۔ اب گہری نیند بھی خیال و خواب کا معاملہ ہوکر رہ گئی ہے۔ برسوں پہلے فلم ''انار کلی‘‘ کے لیے تنویر نقوی نے کہا تھا ؎
کٹتی نہیں ہے غم کی رات‘ آکے ٹھہر گئی ہے کیا
نیند تو خیر سوگئی‘ موت بھی مرگئی ہے کیا
آج کے انسان کو نیند کے معاملے میں ایسی ہی پیچیدگی کا سامنا ہے۔ آج گہری اور پُرسکون نیند نے ہمیں یوں جُل دے کر رخصت ہوئی ہے گویا اُس کا وجود ہی نہ ہو۔ ویسے تو خیر ہر معاشرے کو پُرسکون نیند کی ضرورت ہے۔ ہر انسان کے لیے گہری نیند ناگزیر ہے؛ تاہم پسماندہ معاشروں کے لوگوں کو اس معاملے پر زیادہ توجہ دینا چاہیے۔ ترقی یافتہ دنیا میں طرزِ بود و باش مجموعی طور پر ایسی ہے کہ انسان نیند کے معاملے میں کم ہی خسارے سے دوچار رہتا ہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ دنیا کا عام آدمی نیند کے معاملے میں بالعموم خسارے ہی سے دوچار رہتا ہے۔ طرزِ زندگی بدلنے کی بھی ضرورت ہے اور ماحول کو شور و غل سے پاک کرنے پر بھی متوجہ رہنا بھی لازم ہے۔ ہمارے جیسے معاشروں میں گہری نیند بہت دور کی منزل ہے۔ اِس منزل تک سفر تیزی سے کرنا ہے اور وہ بھی رُکے بغیر۔ پورے معاشرے کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ نیند کا خسارہ ہر معاملے میں خسارے کا سبب بنتا ہے۔ سوال صرف صحت کا نہیں، کیریئر اور کارکردگی سمیت پوری زندگی کا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved