خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سکیورٹی صورتحال خراب توہے ہی لیکن ہر گزرتے روز بگڑتی جا رہی ہے۔ تخریب کاروں کے حملوں میں ہمارا جانی نقصان خاصا ہو رہا ہے۔حالیہ دنوں میں دلوں کو ہلا دینے والا واقعہ گوادر کے قریب ہوا جب ایک ہی حملے میں ہمارے سپاہ کی بہت ساری شہادتیں ہو گئیں۔ڈی آئی خان میں حملے ہوئے ہیں اورایک روز پہلے جو وادیٔ تیراہ میں جو واقعہ ہوا اُس میں ہمارا ایک سینئر افسر اورتین جوان شہید ہوئے۔ واقعات گنتے جائیں تو فہرست بہت لمبی ہوجاتی ہے‘ اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ صورتحال اچھی نہیں ہے۔
پاکستان کو دو تخریب کاریوں کا سامنا ہے‘ ایک تو خیبرپختونخوا میں تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے حوالے سے اور دوسری تخریب کاری بلوچستان کے کئی علاقوں میں جاری ہے۔ مختلف تنظیمیں ہیں وہاں مثلاًبلوچ لیبریشن آرمی ‘ بلوچ لیبریشن فرنٹ اورایک آدھ اور اسی قسم کی تنظیم ‘ ہدف اُن کا بہرحال ہماری سکیورٹی فورسز ہیں ۔ حالیہ مہینوں میں حملوں کی شرح کافی بڑھ چکی ہے۔ ہمارے افسر اور جوان ان تخریب کاریوں کا سامنا کررہے ہیں‘ لیکن ہمارا نقصان ہو توپوری قوم میں تشویش بڑھ جاتی ہے۔وجوہات میں جائیں توبات بہت دور تلک پہنچ جاتی ہے۔ اس وقت تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دونوں تخریب کاریوں سے کامیابی سے نمٹا جائے تاکہ ان پر کنٹرول قائم ہوسکے اور قیمتی جانوں کا نقصان ختم ہو سکے۔
ہم تو یہی کہیں گے کہ ان تخریب کاریوں کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور یکسو ہوکر ان کا قلع قمع کرنا چاہئے۔لیکن یکسو ہونے کیلئے لازمی شرط یہ ہے کہ ہمارے سکیورٹی ادارے جو قربانیاں دے رہے ہیں اُن پر غیر ضروری کاموں کا بوجھ نہ پڑے۔جنگ جاری ہو اور یہاں تو دو جنگیں جاری ہیں تو کہاں کا انصاف بنتا ہے کہ ایک تو ہمارے دفاعی ادارے دشمن سے لڑرہے ہوں اور قربانیاں دے رہے ہوں اور اُن کے کندھوں پر اورذمہ داریوں کا بوجھ بھی پڑے؟ چاہے سیاسی نظام کی کمزوری ہو ‘ سیاستدانوں کی غلطیاں ہوں جو بھی ہو ‘ پھر بھی سکیورٹی اداروں پر غیرضروری بوجھ کہیں کا قرینِ انصاف نہیں۔ واقعات کی گنتی کریں تو یوں لگتا ہے کہ دونوں تخریب کاریاں زور پکڑرہی ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ قوم سکیورٹی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو تاکہ ادارے اور عوام سیسہ پلائی دیوار مانند نظرآئیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ سیاست کا میدان سیاست سنبھالے اور تحفظِ ریاست پر پوری توجہ سکیورٹی ادارے دیں۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ دونوں کام کرنے کیلئے ایک مضبوط حکومت کا ہونا ناگزیر ہے۔مضبوط اور مستحکم حکومت کہیں اوپر سے نازل نہیں ہوسکتی ‘ اُس کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ جو الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوا ہے اُس پر عمل درآمد ہو ‘ صاف اورستھرے انتخابات ہوں ‘ عوام پر بھروسا کیا جائے اور جو عوام کی چوائس ہو ‘ جہاں بھی ووٹ پڑیں ‘ اُسے قبول کیا جائے۔ نگران بڑے اچھے ہوں گے ‘ فرشتے ہوں گے ‘ لیکن جس استحکام کی پاکستان کو ضرورت ہے وہ ایسے عارضی بندوبستوں سے حاصل نہیں ہوسکتا۔اچھا ہوا کہ سپریم کورٹ کی مداخلت پر الیکشن کمیشن کی چوں چوں ختم ہوئی اورصدرِ مملکت سے مشاورت کے بعد ایک الیکشن تاریخ کا اعلان ہوسکا۔موجودہ سیاسی و معاشی بحران سے نکلنے کیلئے یہ پہلا ضروری قدم تھا جو اٹھایاجاچکا ہے۔یہ ضروری بنیاد ہے جس پر آئندہ کی حکمت عملی مرتب کی جاسکتی ہے۔ دیگر کوئی راستہ ہے موجودہ بحران سے نکلنے کیلئے تو براہِ مہربانی ہمیں بتا دیا جائے‘ نہیں تو وسوسوں اوراندیشو ںکو ایک طرف رکھ کر جو راستہ آگے نظر آ رہا ہے اُسی پر چلنے کی اشد ضرورت ہے۔
لگتا یوں ہے کہ دونوں تخریب کاریوں کو پاکستان کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے تقویت مل رہی ہے۔جو ریاستِ پاکستان سے برسرِپیکار ہیں شاید سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان کی پوزیشن کمزور ہے اوریہی موقع ہے کہ پاکستان پر وار کیا جائے۔یہ ہم پر ہے کہ اس سوچ کو غلط ثابت کریں۔تخریب کاریوں سے پاکستان پہلے بھی نبردآزماہوچکا ہے۔ 2014ء میں شروع ہونے والی تخریب کاری کے خلاف جنگ کوئی معمولی جنگ نہ تھی۔ خیبرپختونخوا کے کئی علاقے ریاستِ پاکستان کے کنٹرول سے باہر جا چکے تھے۔ٹی ٹی پی بڑی مضبوط پوزیشن میں تھی لیکن ہماری افواج کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں تخریب کاری کے تمام اڈے تباہ ہوئے اور ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو سرحد کے اُس پار جانا پڑا۔ ٹی ٹی پی ختم نہیں ہوئی تھی لیکن اُسے کاری ضربیں سہنی پڑیں اور کئی سال تک پاکستان کے علاقوں میں ٹی ٹی پی اپنا سر اُٹھا نہ سکی۔یہ تو اب ہوا ہے کہ امریکی افغانستان چھوڑ کر گئے ‘ افغانستان کی صورتحال بدلی اور ٹی ٹی پی نے یہ سمجھا کہ ریاستِ پاکستان پر وہ پھر سے حملہ آور ہوسکتی ہے۔
2014ء اور اب میں فرق یہ ہے کہ تب پاکستان میں اندرونی طور پر کوئی سیاسی خلفشار نہیں تھا۔ ایک منتخب حکومت اقتدار میں تھی اور دفاعی اداروں اور سیاسی حلقوں کا ایک ہی عزم تھا کہ دہشت گردی اورتخریب کاری کو ختم کرنا ہے۔آج کل سیاسی صورتحال تھوڑی سی پیچیدہ ہے ۔فاصلے وہاں پیدا ہو گئے ہیں جہاں نہیں ہونے چاہئیں تھے۔ اگر یہ پیچیدگی ہے تو اسے ختم کریں۔چونکہ بات کسی ایک جماعت یا ایک ادارے کی نہیں بلکہ یہ پاکستان کی بقاکا سوا ل ہے۔ہم کمزور رہے یا ہم سے کمزوری کا کوئی شائبہ ملتا ہو تو دشمن کا حوصلہ بڑھے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ ہماری صفوں میں اتحاد پیدا ہونا چاہئے‘ قومی ذہن اگر بٹا ہوا ہے تو یہ کیفیت بھی دور ہونی چاہئے۔ مشکلات ہیں سیاسی بھی اور معاشی بھی لیکن ایسا تو نہیں کہ یہ مشکلات ہمارے نصیب میں لکھی ہوئی ہیں۔ہمت اور استقامت ہو تو یہ مشکلات عارضی ثابت ہوں گی۔ لیکن وہ جو انگریزی جملہ ہے کہwe must put our house in order یعنی اپنے گھر کے معاملات ہمیں درست کرنے ہوں گے۔ نارمل حالات ہوں تو چھوٹے موٹے جھگڑے ہوتے رہیں تو اُن سے کوئی فرق نہیں پڑتا ‘ لیکن پاکستان کے حالات نارمل نہیں ہیں اور یہ جو دو تخریب کاریاں ہیں یہ کوئی راجن پور کے ڈاکوؤں کی ڈکیتیاں اوراغوا برائے تاوان کے واقعات نہیں۔ یہ مضبوط تخریب کاریاں ہیں اوران کے پیچھے بیرونی امداد اوراسلحہ ہے۔ ہم ایک خطرناک علاقے میں رہتے ہیں ‘ ہماری دشمنیاں پرانی ہیں۔ جب ایسا ہو تو دشمن ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھائے گا اور جہاں وہ سمجھے وہ وار کرسکتا ہے ہمیں نقصان پہنچائے گا۔ یہ تو ہم نے دیکھنا ہے کہ مذموم ارادو ں کو کیسے شکست دینی ہے۔
ایک بات تو ذہن نشین ہونی چاہئے کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جسے عوامی تائید حاصل ہو۔ مصنوعی لیڈر جو سہاروں کے نتیجے میں لیڈر بنائے جائیں اندر سے کھوکھلے رہتے ہیں اور کچھ کرنہیں سکتے۔ شخصیت جیسی بھی ہو اعتماد اُس میں تب آتا ہے جب عوام پیچھے کھڑی ہو۔عوام تب ہی ایسا کرتی ہے جب لیڈری کا جو دعویٰ کرے وہ عوام کے اعتماد کے قابل بھی ہو۔ پرکھنے کا طریقہ عوام کا اپنا ہوتا ہے۔ بڑے بڑے قابل لوگ آتے ہیں لیکن عوام اُن پر اعتما دنہیں کرتی۔ بس کوئی چیز ہوتی ہے جس کی وجہ سے عوام اندھا اعتماد کرنے لگتی ہے۔
ماضی کی تلخیوں کو اب بھلا دینا چاہئے ‘ قومی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہونا چاہئے۔ ایک سبق تو ہماری تاریخ سے نکلتا ہے کہ خوامخواہ کی سیاسی انجینئرنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ارادے کچھ ہوتے ہیں نتائج کچھ اور نکلتے ہیں۔جن کو ہیرو سمجھا جاتا ہے وہ اُس مقام پر پہنچ نہیں پاتے۔ لہٰذا بہتر نہیں کہ ایسی کوششیں ترک کردی جائیں؟اللہ ہمارے فیصلہ سازوں کو ہمت و بصیرت عطا فرمائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved