تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     08-10-2013

ناطقہ سربہ گریباں ہے

خزاں کی رُت آئے (جیسے کہ اب آنے والی ہے)تو سارا یورپ زرد پتوں میں ڈھک جاتا ہے۔ تیز ہوائیں، سردی لانے والی بارشیں اور اگر بارش نہ بھی ہو تو آسمان ابرآلود اور سرمئی، ایسے میں Keats کی نظمیں، منیر نیازی کے اشعار اور اے حمید کے ناولوں کی سطور ذہن میں ابھر کر اُداسی میں مزید اضافہ کرتی رہتی ہیں۔ ماہ ستمبر کے آخری دن جو ہوا چلی وہ اتنی تیز تو نہ تھی مگرایک بوڑھے شخص کو برطانیہ سے اُٹھا کر مغربی یورپ کے ایک چھوٹے مگر خوبصورت ملک Lithuania کے صدر مقام Vilnius لے گئی جہاں وہ پچھلے ماہ گیا تھا۔ گزشتہ سفرگرمیوں کے دنوں میں تھا جب آسمان کا رنگ نیلا اور دھوپ چمکیلی تھی جو گرم جوشی سے مہمانوں کا استقبال کرتی تھی۔ شروع اگست کا سفر ہی 30 ستمبر کے سفر کا پیش خیمہ بنا۔ چھوٹا سا جہاز سمندری پرندوںکی طرح بادلوں کے اُوپر پرواز کرتا ہوا تین گھنٹوں میں منزل تک جاپہنچا۔جہاز مغربی یورپ کے ساحلی مقامات، گھنے جنگلات اور روز بروز غصیلے ہوتے ہوئے سمندروں پر (بقول اقبالـؔ) یہ کہتا ہوا اُڑتا رہا ۔ع صحرا ست کہ دریاست، تہہِ بال و پرِ ماست آپ جانتے ہوں گے کہ یہ شعر پاک فضائیہ کا نشان ہے اور رجزیہ نغمہ بھی۔ میرے سفر کا مقصد یورپ اور ایشیا کے وکیلوں کی کانفرنس میں شرکت کرنا تھا۔ مجھے پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں نے وادیٔ کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالی اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیے جانے پر سخت احتجاج کیا۔ بہت سے لوگوں نے میری حمایت میں تالیاں بجائیں۔ مگر میری خوشی اُس وقت خاک میں مل گئی جب کئی مقررین نے بلوچستان میں بے گناہ افراد کی بڑی تعداد میں گمشدگی، پاکستان کے طول و عرض میں انسانی حقوق کی اَن گنت خلاف ورزیوں، کم عمر بچیوں پر مجرمانہ حملوں میں اضافے ، خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے عدم تحفظ اور ان کے ساتھ غیر مساوی سلوک کے حوالے سے مجھ پر لاٹھی چارج شروع کر دیا ،چنانچہ سب لوگوں سے اتنی بار صدق دل سے معافیاں مانگنا پڑیں کہ کانفرنس کے اختتام پر دوست مجھے نسیم احمد معافی کے نام سے پکارنے لگے، تاکہ ہزاروں میل دُور اس کالم کے ان دیکھے مگر ہمدرد قارئین کو پتہ چل جائے30ستمبر کو اس بے گناہ اور بے بس کالم نگار پر کیا گزری۔ میں اپنے قارئین سے درخواست کرتا ہوں (ہماری تہذیب میں درخواست دست بستہ ہو کر کی جائے تو شاید اس کی قبولیت کے امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے) کہ آیئے سب مل کر (باہمی سیاسی اور مذہبی اختلافات سے بالاتر ہو کر) ایسی زبردست جدوجہد کریں کہ آنے والے سالوں میں وطن عزیز میںانسانی حقوق کی پامالی میں اتنی نمایاں کمی آجائے کہ میں ایک سال بعد یورپ کے کسی شہر میں ہونے والی وکلاء کی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کروں تو نہ ملک کا وہ بگڑا ہوا حلیہ ہو جو ان دنوں دُنیا بھر کو نظر آتا ہے اور نہ ہی پاکستان کے ترجمان کا وہ برا حال ہو جو 30 ستمبر کو ہوا اور بجا طور پر ہوا۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے جو سرکاری ادارے انسانی اقدار اور احساس سے کوسوں دُور ہیں ہمارے اخبار اُنہیں ’’حساس ادارے ‘‘لکھتے ہیں۔ خوف کے مارے یا خود بھی بے حسی کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے۔ اسے کہتے ہیں ،خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کاخرد۔ ہم نے ان نام نہاد حساس اداروں کے حسن کی کرشمہ سازی 1971 ء میں دیکھی تو ملک ٹوٹ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے (ایک سال کے اندر) مشرقی پاکستان (جہاں بطور الطاف حسن قریشی محبت کا زمزمہ بہہ رہا تھا) بنگلہ دیش بن گیا۔ اب ہم وہی کرشمہ سازی بلوچستان میں دیکھ رہے ہیں۔ بلوچستان کے حالیہ زلزلہ کی شکل میں جو قیامت آئی اُس میں ایک بار پھر یہ حقیقت (ناقابل تردید حقیقت) سامنے آئی کہ عوام کا کوئی پرُسان حال نہیں۔ برطانوی ٹیلی ویژن کی طرح یورپ کا میڈیا بھی ناظرین کو دکھا رہا تھا کہ زلزلہ کے بعد چار دن تک مصیبت زدگان کی مدد کو کوئی نہیں پہنچا۔ نہ حکومت اور نہ کوئی این جی او ، لاکھوں لوگوں کے پاس نہ رہائش تھی نہ کوئی پناہ نہ کوئی خوراک نہ دوائی۔ پورے ضلع میں کوئی ہسپتال نہ تھا۔ ہسپتال تھا تو دوائی نہ تھی اور دوائی تھی تو وہاں کوئی ڈاکٹر نہ تھا جو دوائی دے سکتا۔ بنگلہ دیش میں اتنی برساتیں آئیں کہ وہاں خون کے دھبے کافی حد تک دُھل گئے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ ایک دن بلوچوں کی سرزمین پر خون کے دھبے اتنے بڑھ جائیں کہ ہماری کوئی چرب زبانی یا غلط بیانی اُنہیں دنیا کی نظروں سے اوجھل نہ کر سکے۔ پھر ہم بارشوں کا انتظار کرنے لگیں گے جو خون کے ان دھبوں کو مٹا ڈالیں۔ دھبے تو شاید مٹ جائیں یا کم از کم مدھم ہو جائیں مگر دلوں میں ایک بار لکیر پڑ جائے(جس طرح 1947ء سے پہلے گزرنے والے بیس سالوں میں ہندو مسلم تعلقات کو نقصان اور بداعتمادی اور آگے چل کر نفرت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا) تو پھر کسی بھی بدنصیب ملک کا جغرافیہ بدل جاتا ہے اور اس کے ساتھ تاریخ بھی۔O دُوسری مصیبت یہ ہے کہ اپنے ساتھ نوحہ گر رکھنے کا مقدور بھی نہیں ۔ میں اپنے کالم کو شروع جہاں سے بھی کرتا ہوں، تان ہمیشہ اپنے ملک اور احوالِ وطن پر ٹوٹتی ہے۔ میں اپنے دُکھی دل کا حال آپ کو نہ سنائوں تو اور کسے سنائوں؟پاک سر زمین پر دھماکے چاہے ڈرون حملوں سے ہوں یا شہروں، بازاروں اور عبادت گاہوں میں، مرنے والے صرف بے گناہ اور معصوم شہری ہوتے ہیں۔ کراچی سے لے کر پشاور تک ہمارا پیارا وطن (جسے، ہم اپنی اندھی عقیدت سے پاکستان کہتے ہیں) خاک و خون میں شرابور ہے۔ مگرحال ہی میں اس کے تاریک اُفق پر روشنی اور اُمید کی دو تین کرنیں اُبھریں۔ اوّل، ملک کے اندر حکومت کی طرف سے طالبان سے مذاکرات پر آمادگی۔دوّم، ملک کے باہر پاکستان کے ہندوستان سے دوستانہ تعلقات میں پیش رفت۔ سوم، بین الاقوامی محاذ پر ایران اور امریکی صدر کے درمیان فون پر 20 منٹ لمبی گفتگو ۔ یہ رابطہ امن قائم کرنے کے لئے اتنا مفید تھا کہ اس کا اندازہ اسرائیل کی شدید ناراضگی اور برہمی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اب آیئے یورپ کو دیکھیں۔ پچھلی صدی میں یہاں دو عالمی جنگیں لڑی گئیں۔ جرمنی، فرانس، برطانیہ اور سب سے زیادہ روس کے عوام نے کروڑوں افراد کی جانوں کی قربانی دی۔ ہر جنگ چار چار پانچ پانچ سال تک لڑی گئی۔ چشم فلک نے آج تک اتنے کروڑوں افراد کے قتل عام کا منظر نہ دیکھا تھا۔دُوسری جنگ ختم ہوئی تو 1945ء کے بعد ایک دو سال کے اندر جرمنی کے خلاف لڑنے والے نہ صرف ایک دُوسرے کے بلکہ جرمنی کے قریبی ساتھی اور بہترین حلیف بن گئے اور اس نئی متحدہ برادری میں اپنے پرانے دشمن جرمنی کو بھی شامل کر لیا۔ اس امن کا نتیجہ کیا نکلا؟ خوشی، خوشحالی، عوام کی بہتری اور اُن کا ہر سال بلند ہوتا ہوا معیار زندگی۔ ایک ہم ہیں کہ نہ امن سے رہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور نہ جنگ لڑنے کی ہمت۔ ہم نچلے متوسط طبقہ کی پیشہ ور جھگڑالو رشتہ دار خواتین کی طرح سرد جنگ اور مستقل نوک جھونک کے ماہر بن گئے ہیں۔ غالباًلینن نے سوویت یونین سے جرمنی کو یہ نوٹس بھیجا تھا ۔ No Peace, No War کیا ہمارے حافظ سعید اُور اُن کے لاکھوں ہمنوا لینن کے اتنے ہم خیال بن گئے ہیں کہ اُس کی آواز میں اپنی آواز ملا رہے ہیں؟سیاق و سباق بالکل مختلف مگر گردان وُہی اور لینن کے برعکس موقف کی بنیادفراست کی بجائے بے بنیاد تصورات پر۔ ناطقہ سرگریباں نہ ہو تو کیا کرے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved