تحریر : محمد اسلم خاں تاریخ اشاعت     08-11-2023

باجوہ اور فیض حمید غلط کیسے ہو گئے ؟؟

جنرل فیض حمید نے کچھ غلط نہیں کیا تھا‘ جو حکم ملا اس پر عمل کیا‘کچھ ذاتی پسند نا پسند نہیں تھی۔ فیض آباد دھرنے کے وقت انہیں کہا گیا کہ معاہدے پر دستخط کریں تو انہوں نے دستخط کر دیے۔ فیض حمید اِس وقت ابصارعالم کا خاص ہدف ہیں‘ وہ خاص شدت سے ریٹائرڈ جرنیل پر تنقید کررہے ہیں۔مگر فیض آباد دھرنا میں انہوں نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ میاں نواز شریف تو مصلحتا ًانہیں بھلا چکے‘ ویسے معاف نہیں کررہے۔ فیض حمید نے اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے کہنے پر کچھ نہیں کیا‘ اس بارے تمام الزامات بے بنیاد ہیں‘یہ سب جھوٹی کہانیاں ہیں۔فیض حمید اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے تابع تھے‘ جو وہ انہیں حکم دیتے تھے وہ کرتے رہے۔ فیض آباد دھرنے میں بھی جو انہیں کہا گیا انہوں نے کیا۔ رہے ابصار عالم تواس کالم نگار کے نہایت قریبی ساتھیوں میں شامل رہے ہیں‘ جب ان کے چیئرمین پیمرا بننے کا معاملہ درپیش ہوا تو انہوں نے مجھ سے مشورہ کیا‘ مجھ سے مشورہ اس لیے کیا کہ سابق وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید اور سابق وزیراعظم عمران خان کے بعد ابصار عالم بھی انٹر نیوز پاکستان کے لیے Paid Contributor رہے۔
رہا پیمرا کا معاملہ تو ابصار عالم صاحب میرے اچھے دوست ہیں، پیمرا میں جو کچھ ہوا ، میں نے انہیں کہا: آپ بالکل یہ نہ کریں اور چیئرمین نہ بننا۔ اس پر انہوں نے کہا: آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ میں اس پر عمل کروں گاجبکہ میں سوفیصد غلط تھا اورانہیں بننا چاہیے تھا اوروہ بن گئے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس کے لیے بنیادی شرط یہ تھی کہ وہ سمپل گریجوایٹ ہو اور کمپیٹینٹ اتھارٹی اسے لگائے۔ کمپیٹینٹ اتھارٹی وزیراعظم ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے لگا دیا اوربحیثیت چیئرمین پیمراانہوں نے جو خدمات سرانجام دیں آج بھی پیمرا کے ملازمین اورباقی لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں۔یہ بالکل صحیح بات ہے اوران کی مخالفت کون کررہا ہے ؟یہ انفارمیشن کے لوگ تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ کیوں ایک اخبار نویس لگ رہا ہے۔کیوں نہ لگے وہ‘آپ کس بنیاد پر لگتے ہیں‘کوئی بنیادنہیں ہے۔ کمپیٹینٹ اتھارٹی جس کو چاہے لگا دے اوراس کے لیے سمپل گریجوایٹ ہونا ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہے اوریہی ہوا۔ ابصارعالم صاحب ان لوگوں میں شامل ہیں جو انٹرنیوز پاکستان کے لیے باقاعدہ کام کرتے رہے ہیں‘ انہوں نے اُس وقت وہ بڑی خبر دی تھی کہ جناب سرتاج عزیز کو وزیرخارجہ بنایاجارہاہے جس کی مشرق وسطیٰ میں اُس وقت بڑی دھوم مچی تھی۔ دو دن پہلے انہوں نے خبر دی تھی۔یہ باقاعدہ ہمارے ساتھ کام کرتے رہے ہیں‘ ہمیں بڑا فخر اورشرف حاصل ہے جب یہ بن گئے اور انہوں نے بڑی خدمات انجام دیں‘ لیکن جہاں تک معاملہ یہ ہے کہ فیض حمید صاحب نے کیا کیا اورباجوہ صاحب نے کیا کیا‘ یہ بالکل غلط بات ہے۔ فیض حمید صاحب نے وہی کیا جو انہیں باجوہ صاحب نے کہا۔ یہ بالکل حقیقت پر مبنی بات ہے۔
17کامن کے تین افسر تھے جن میں اعظم خان پرنسپل سیکرٹری وزیر اعظم سر فہرست تھے‘ جو باہم اکٹھے ہوئے اورانہوں نے کہا کہ جنرل فیض حمید کو کابل کی سیرکروائی جائے اور اپنے نمبر بنائے جائیں‘ جن کا کوئی لینا دینا کوئی تعلق واسطہ کابل کے ساتھ نہیں تھا۔ جنرل فیض حمید کو انہوں نے کہا‘ آپ کابل کا چکر لگائیں تو آپ عالمی شخصیت بن جائیں گے۔ اس وقت فیض حمید صاحب ڈی جی آئی ایس آئی تھے اور تین آدمیوں نے مل کر انہیں کابل بھجوا دیا۔ وہ چلے گئے اور مزے کی بات یہ کہ ان کے ساتھ ان کے ایک دوست جو ایک ٹی وی چینل کے مالک تھے وہ بھی چلے گئے۔ یہ بھی مشہورزمانہ سرینا کابل میں چائے کا کپ لے کر کھڑے تھے، اللہ کا شکر یہ ہوا کہ ان کے دوست ساتھ نہیں تھے۔ یہ کہانی اس کالم نگار تک پہنچی‘ کیسے پہنچی؟ 17 کامن کے ایک صاحب‘ میں ان کانام نہیں لینا چاہتا‘ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ ذبیح اللہ مجاہد کو کہو کہ فیض حمید کو خوش آمدید کریں۔ میں نے کہا: کون فیض حمید؟ کون ذبیح اللہ مجاہد؟ کون میں؟ میری کیا اوقات بساط ہے۔ یہ کیا باتیں کر رہے ہیں۔ کہنے لگا: نہیں یار ہمارے ان کے ساتھ بڑے قریبی مراسم ہیں‘ آپ یہ کرو۔ میں نے کہا: یہ چکر کیا ہے‘ چکر بتاؤ۔ مجھے اس نے کہا: ہم نے جنرل فیض حمید کو کابل لینڈ کروا دیا ہے۔ انہوں نے کہا‘ کہانی یہ ہے کہ ہم تین افسروں نے مل کر سوچا کہ ان کو ذرا بلند و بالا کیاجائے‘ صرف اس لیے کہ ہماری یہاں پھوں پھاں بن جائے۔ میں نے کہا: میرا تو کوئی جاننے والا نہیں ہے‘ ذبیح اللہ مجاہد کو کیسے کہہ سکتا ہوں‘ میری جان پہچان نہیں ہے۔ آپ ان کے وزیر خارجہ کو کہو۔ کہا: طالبان کے وزیر خارجہ متقی صاحب کو کہہ دیں۔ عرض کی: میں کہاں اور متقی صاحب کہاں؟ جنرل فیض حمید کہاں؟ یہ کیا باتیں آپ کر رہے ہیں۔ میرے پیچھے پڑ گئے‘ نہیں نہیں‘ آپ کریں۔ یہ کریں‘ وہ کریں‘ آپ اوریا مقبول جان کو کہیں۔ میں نے کہا: اوریا کو کیا کہوں‘ طالبان کی اپنی حکومت ہے‘ ان کے اپنے معاملے ہیں‘ کیا بچوں والی باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: کچھ تو کریں‘ تو میں نے سوچا اور کہا: یار! ایک بات ہے۔اس نے کہا: کیا؟ میں نے کہا: جنرل فیض حمید سے کہو گلبدیں حکمت یار امریکیوں کا ٹاؤٹ ہے‘ وہاں بیٹھا ہے‘ اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں‘ یہ اس سے مل لیں اور اس سے ملنے کے لیے بھی لوکل کمانڈر طالبان کی اجازت درکار ہو گی‘ آپ کسی طریقے مل ملا کر لے آئیں۔ اس طرح انہوں نے یہ کیا صرف اپنی پھوں پھاں بنانے کے لیے۔ پاکستان کی عزت داؤ پر لگا دی اور کوئی انہیں نہیں ملا اور یہ واپس ا ٓگئے۔ یہ بھی کہانیاں ہیں۔
سارے بیوروکریٹ خود بھی منت سماجت کرکے ہی اہم عہدے پکڑتے ہیں اور اخبارنویس اس کھیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور سرکاری خبر رساں ادارے میں تعیناتی کو کھڈے لائین پوسٹنگ سمجھا جاتا ہے۔ایک بہت بڑے گرو کو اپنے کانوں سے پوسٹنگ لینے کے لیے ایک جونیئر ساتھی کی منت سماجت کرتے سنا۔جو بالا ٓخر پاکستان اور اس کی صحافت کو خیرباد کہہ کے شکاگو جا بسے اور اب وہاں بہت بڑے سیٹھ بن چکے ہیں۔ جب محمد علی درانی وزیراطلاعات بنے تو یہ کالم نگار خود بھی virtual info minister تھا‘ National Press Club کا پلاٹ درانی صاحب کی منت سماجت کر کے خود ڈھونڈ کر الاٹ کرایا‘ ورنہ انفارمیشن والے تو اسلام آباد میں کوئی پریس کلب نہیں دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ یہ تو محمد علی درانی صاحب تھے جنہوں نے شوکت عزیز کی منت سماجت کرکے یہ معرکہ انجام دیا اور ہم سب کچھ رہنماؤں کے سپرد کر کے خود فارغ البال ہو گئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved