گندم پاکستان میں کاشت ہونے والی اہم غذا ئی فصلوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں ربیع کے موسم میں تقریباً نو ملین ہیکٹر رقبے پر گندم کاشت کی جاتی ہے جو ملک کے کل کاشتہ رقبے کا تقریباً 80 فیصد بنتا ہے۔ مگر گندم کا یہ سارا کاشتہ رقبہ ایک جانب کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں تو دوسری طرف اس کی نایابی اور بلیک مارکیٹنگ کے خاتمے کیلئے کسی ایسے ایگزیکٹو یا اتھارٹی کی راہ تک رہا ہے جو اس کیلئے اچھے بیج اور کھاد کی بروقت اور بمطابق ضرورت فراہمی کو یقینی بنا دے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو بے حال کسان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ ذخیرہ اندوزوں کو ان کی من مانی قیمتیں ادا کرکے بیج اور کھاد خریدے۔ حکومتی زعما جب میڈیا کے سامنے پہلو بدل بدل کر بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ اس سال گندم کی پیداوار کا ہدف تین کروڑ ٹن مقرر ہوا ہے تو انہیں ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس ہدف کی پیداوار حاصل کرنے کے لیے صرف تقریریں اور سیمینارز سے خطاب ہی کافی نہیں بلکہ جن کسانوں اور جس زمین سے تین کروڑ ٹن گندم کی پیداوار حاصل کرنی ہے‘ کیا اس زمین کو وقت پر بیج‘ پانی اور کھاد فراہم ہو رہی ہے؟ گندم کی کاشت کے لیے سب سے مناسب وقت یکم نومبر سے تیس نومبر تک ہوتا ہے بدقسمتی دیکھئے کہ بیج اور کھاد کی عدم دستیابی کے سبب پاکستان میں گندم کی کاشت جنوری میں بھی کی جا رہی ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پیداوار میں پچاس فیصد تک کمی ہو جاتی ہے جس کا نقصان کسان اور ملک‘ دونوں کو ہوتا ہے۔
ہر سال یہ معاملہ اٹھایا جاتا ہے کہ اگر کسان کو وقت پر صحیح بیج نہیں ملے گا‘ اگر گندم کی فصل کی بوائی کے لیے یوریا اور ڈی اے پی کھاد ہر جگہ آسانی سے اور مقررہ قیمتوں پر نہیں ملے گی تو پھر کسان کیسے گندم کی بمپر پیداوار دے سکیں گے؟ کسانوں کا اپنی فصلوں کی تیاری کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ انہوں نے وفاقی حکومت کے کسی وزیر یا وزیراعلیٰ اور گورنر کے ہدف کو پورا کرنا ہوتا ہے، وہ دن رات اپنے کھیتوں میں محنت کرتا ہے بلکہ اپنی فصلوں کیلئے وہ کولہو کے بیل کی طرح گرمی اور سردی کی پروا کیے بغیر کھیت میں جتا رہتا ہے اور یہ سوچتا رہتا ہے کہ اس فصل سے وہ اپنی فیملی کی خوراک‘ بچوں کی تعلیم‘ علاج معالجے اور ان کی شادیوں کیلئے درکار اخراجات پورے کرے گا اور درپیش دوسری ضروریات کی فراہمی کیلئے یہیں سے سرمایہ حاصل کرے گا۔
اس وقت پنجاب میں صورتحال یہ ہے کہ کسان کھاد کے لیے در بدر دھکے کھاتے پھر رہے ہیں اور اگر انہیں کہیں سے کھاد ملتی ہے تو وہ حکومت کے مقرر کردہ نرخوں سے دگنی قیمت پر۔ بڑے بڑے زمینداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کی بات مت کیجئے‘ کیونکہ یہی حکومتوں کے اصل چہیتے ہوتے ہیں اور ان سب کو مقررہ قیمت پر بیج اور ہر قسم کی اچھی اور معیاری کھاد ان کی فصلوں اور ڈیروں تک پہنچا دی جاتی ہے لیکن وہ کسان جو ایک‘ دو ایکڑ سے پچیس یا پچاس ایکڑ کے قطعے کے مالک ہیں‘ ان کے لیے اپنی فصل کے لیے کھاد کا حصول ایک انتہائی مشکل ٹاسک بن چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ستمبر میں ہی کھاد کی کمی کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا اور اس کے لیے وفاقی حکومت کو باقاعدہ طور پر آگاہ بھی کیا گیا تھا لیکن اس یاددہانی کے باوجود مرکز میں نگران حکومت ڈائی ایمونیم نائٹریٹ (ڈی اے پی) اور یوریا کی بروقت اور یقینی فراہمی کو ممکن بنانے میں ناکام رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کھا دکی نایابی اور بلیک مارکیٹنگ کی وجہ سے اس سال گندم کی پیداوار میں پندرہ سے بیس فیصد تک کی کمی ہو سکتی ہے۔ 1947-48ء میں ملک میں تقریباً چھبیس لاکھ ٹن گندم پیدا ہوتی تھی مگر اب یہ پیداوار بہ آسانی ڈھائی کروڑ ٹن کی حد عبور کر جاتی ہے۔ امسال گندم کی پیداوار کے لیے تین کروڑ ٹن کا ہدف مقرر کیا گیا ہے مگر کھاد اور بیج کی عدم فراہمی کی صورتحال یونہی رہی تو ہدف کے مطابق پیداوار حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔
زمین کو گندم کی بوائی کے لیے تیار کرتے ہوئے فی ایکڑ ڈی اے پی کے کم ازکم ایک تھیلے کی ضرورت ہوتی ہے اور جیسے ہی گندم کی فصل بڑھنا شروع ہوتی ہے تو پھر فی ایکڑ یوریا کے تین تھیلوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ آٹا‘ چینی اور ڈالر کی سمگلنگ کا تو سب نے سن رکھا ہے لیکن جس قدر کمائی یوریا کھاد کی سمگلنگ سے کی جا رہی ہے اس کا شاید کسی کو اندازہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی ضرورت کی تمام یوریا کھاد کی تیاری مقامی طور پر ہی ہوتی ہے اور اگر سمگلنگ پر قابو پا لیا جائے تو پاکستان کو قطعاً یوریا درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پی ٹی آئی کے 'نااہل‘ دورِ حکومت میں یوریا کے ایک تھیلے کی قیمت 1800 ر وپے تک تھی اور آج یہ تین سے چار ہزار میں بھی بڑی مشکل اور تگڑی سفارشوں سے دستیاب ہو پا رہی ہے۔ جن چھوٹے کسانوں کی کوئی سفارش نہیں ہے‘ وہ یوریا کی ایک بوری پانچ‘ پانچ ہزار روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں۔ یوریا کھاد کی پاکستان سے باہر سمگلنگ کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں یوریا کھاد کا ایک تھیلا آٹھ ہزار روپے سے بھی زیادہ قیمت میں فروخت ہوتا ہے۔
ڈی اے پی کی سرکاری قیمت بارہ ہزار آٹھ سو روپے فی من ہے لیکن مارکیٹ میں اگر خریدنے کے لیے جائیں تو یہ پندرہ سے سولہ ہزار روپوں میں بھی بڑی مشکل سے دستیاب ہے۔ اب یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ چھوٹے کسان‘ جن کی زمینیں پانچ ایکڑ سے پچاس اور سو ایکڑ تک ہیں‘ ان کے لیے گندم کی یہ فصل ایک امتحان بن کر کیوں رہ گئی ہے۔ کسانوں کے ساتھ لوٹ مار صرف کھادوں میں ہی نہیں ہو رہی بلکہ گندم کے بیج کی مد میں بھی انہیں جی بھر کے لوٹا جاتا ہے۔ پچاس کلو گندم کے بیج کی قیمت 8 ہزار روپے ہے اور دو‘ تین سال قبل تک اسی نسل کے بیج کے پچاس کلو تھیلے کی قیمت پینتیس سو روپے تھی لیکن جب پی ڈی ایم حکومت آئی تو یہ قیمت پانچ ہزار پانچ سو روپے پر جا پہنچی اور اب آٹھ ہزار روپے ہو چکی ہے۔ سادہ سا سوال ہے کہ جب حکومت گندم کی پیداور کا ہدف مقرر کر رہی تھی تو اس وقت یہ کیوں نہیں دیکھا کہ کسان کی جیب میں کیا ہے اور حکومت کے بازاروں اور مارکیٹوں میں گندم کی فصل کیلئے درکار ضروری اشیا کس مقدار میں دستیاب ہیں اور ان کی قیمتیں کہاں تک پہنچ چکی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو خدائے بزرگ و برتر نے بہت سے اقتصادی و معاشی ذرائع اور وسائل عطا کر رکھے ہیں جن میں معدنیات اور زرخیز و سرسبز زمین سرفہرست ہے لیکن یہ بتانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا ڈھکا چھپا معاملہ کہ معدنیات اور زراعت کے ساتھ ہم نے ہمیشہ سوتیلی مائوں جیسا سلوک کیا ہے۔ سب کے سامنے ہے کہ ہماری معدنیات بین الاقوامی سازشوں کا شکار ہو چکی ہیں۔ جو بھی ریکوڈک اور دیگر معدنی ذخائر کے بارے میں سنجیدہ ہوتا ہے‘ عالمی مافیا اس کے خلاف یکجا ہو جاتا ہے۔ اگر زراعت کی بات کریں تو ہر کسی کی زبان پر ایک ہی فقرہ مچلتا رہتا ہے کہ زراعت ہمارے ملک کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن یہ کہتے ہوئے اب زبان بھی الفاظ کا ساتھ نہیں دیتی اور اس حقیقت پر غور کر کے سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ زراعت ہمارے ہاں شروع سے ہی بے رخی اور بے اعتنائی کا شکار رہی ہے۔ کل تک جب پاکستان کی بات ہوتی تھی تو فخر سے کہا جاتا تھا کہ یہ چاول کی پیداوار میں دنیا کا ساتواں اور گندم کی پیداوار میں دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے لیکن اس وقت صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ گندم کی پیداوار میں کل تک آٹھویں پوزیشن رکھنے والا ملک اپنی ضروریات کا بمشکل پچاس فیصد پیدا کر پا رہا ہے۔ اس تنزلی کی وجہ کیا ہے؟ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی زراعت کی زبوں حالی کے پیچھے اصل کردار کون ہیں؟ کیا ہمارا کسان پہلے جیسا جفاکش اور محنتی نہیں رہا یا کسان کو دربدر بھٹکانے میں کوئی خاص لطف آتا ہے؟ یہی حال ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ہو چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کوئی ایسا خفیہ ہاتھ کارفرما ہے کہ جسے جونہی پتا چلتا ہے کہ فلاں شعبے سے پاکستان کی معاشی کمر مضبوط ہو رہی ہے تو وہ ایک جھٹکے سے سارے کس بل نکال دیتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved