تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     09-11-2023

سرمایہ کاری سہولت کونسل کے معیشت پر مثبت اثرات

خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (آئی ایس ایف سی)کے تحت چولستان میں 50 ہزار ایکڑ رقبے پر گندم، کینولا، باجرہ اور کپاس کی کاشت کا پروگرام ہے۔ اس مقصد کے لیے 37 ارب 55 کروڑ روپے کی رقم درکار ہوگی اور اس پروگرام کا مقصد ملک سے غذائی قلت کے خاتمے کو یقینی بنانا، ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنا اور درآمدی بل کم کرنا ہے۔ اسی طرح لائیو سٹاک کے سیکٹر میں 20 ہزار جانوروں کی استعداد کے کارپوریٹ ڈیری فارمز قائم کیے جائیں گے جن پر تقریباً 72 ارب روپے کا خرچہ آئے گا۔ اس کے علاوہ کارپوریٹ فیڈلاٹ فارم میں 30 ہزار جانور رکھے جائیں گے جو مقامی ضروریات کو پورا کرنے اور برآمد کرنے کے لیے سالانہ 15 ہزار ٹن گوشت فراہم کرسکے گا۔ اس پروجیکٹ پر 58 ارب کے اخراجات آئیں گے۔ ایک منصوبہ 10 ہزار اونٹوں پر مشتمل کیمل فارم قائم کرنے کا ہے جس پر لاگت کا تخمینہ 37 ارب 70 کروڑ روپے ہے اور یہ سالانہ 20 لاکھ لیٹر دودھ کے ساتھ 450 ٹن گوشت بھی فراہم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ ملک کے سات شہروں میں ٹیکنالوجی زونز کا قیام عمل میں لانے کا منصوبہ بھی ہے۔ راولپنڈی سے کراچی اور گوادر تک 75 ہزار کلومیٹر فائبر نیٹ ورک کا قیام اور متحدہ عرب امارات کے تعاون سے کلاؤڈ انفراسٹرکچر کے لیے سرمایہ کاری کو راغب کیا جانے کا بھی منصوبہ ہے۔ ملک میں سمارٹ فونز کی تیاری کے لیے75 ہزار افراد کو ٹریننگ دی جائے گی تاکہ سمارٹ موبائل فونز تیار کرکے انہیں خلیجی ممالک، افریقہ اور وسطی ایشیا کی مارکیٹوں میں فروخت کیا جاسکے۔ اسی طرح کان کنی کے میدان میں بلوچستان کے ضلع چاغی میں تانبے اور سونے کے ذخائر، خضدار میں سیسہ اور جست (زنک) کی تلاش کے لیے لائسنس کے اجرا کے علاوہ تھرپارکر میں کول فیلڈ کی اَپ گریڈیشن، گلگت بلتستان میں مختلف دھاتوں کے لیے کان کنی اور مائننگ مشینری کی اسیمبل کرنے کے پلانٹس کا قیام بھی اس کے مقاصد میں شامل ہے۔ توانائی کے شعبے میں حکومت اس کونسل کے ذریعے کوئلے سے چلنے والا 1320 میگاواٹ کا پاور پلانٹ، دریائے پونچھ پر 132 میگاواٹ کے ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، دیامیر بھاشا پروجیکٹ، پنجاب میں سولر پاور پروجیکٹس اور 500 کلو واٹ کے ڈبل سرکٹ ٹرانسمیشن لائن کے قیام کے منصوبے مکمل کرنا چاہتی ہے۔ ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے بیرونی سرمایہ کاری، ٹیکس مراعات، درآمدی اشیا پر ڈیوٹی میں نرمی، منافع باہر منتقل کرنے میں سہولت، سپیشل اکنامک زونز میں کام کرنے والوں کو دس سال تک انکم ٹیکس چھوٹ سمیت تنازعات کے حل کے لیے مختلف ضمانتیں وغیرہ فراہم کی جائیں گی۔
سرمایہ کاری کی سہولتوں کے لیے قائم کی گئی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا مینڈیٹ اور اس کے مقاصد واضح ہیں۔ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کا انحصار معیشت سے جڑے مسائل حل کرنے پر ہے۔ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے پی ڈی ایم کے دورِ حکومت میں‘ امسال جون میں ایس آئی ایف سی قائم کی گئی تھی ۔ یہ درحقیقت بورڈ آف انویسٹمنٹ (بی او آئی) کی ایک نئی ترقی یافتہ اور بااختیار شکل ہے۔ اس سے قبل بی او آئی پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری لانے اور اس کے لیے بہتر ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہا اور ملک میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی نہ لائی جاسکی۔ اس کی بنیادی وجہ ملک کے غیر موزوں معاشی اور سیاسی حالات ہیں۔ ایس آئی ایف سی کا قیام بورڈ آف انویسٹمنٹ کی ناکامی کا ایک اعتراف بھی ہے۔ اگرچہ قانونی طور پر ایس آئی ایف سی‘ بی او آئی ہی کا ایک ذیلی ادارہ ہے لیکن اس کے مینجمنٹ آپریشنز بی او آئی سے مختلف ہیں۔ بی او آئی کی ناکامی کی وجوہات تلاش کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی؛ تاہم اب ایس آئی ایف سی سے امید ہے کہ وہ اس معاملے میں اصل مسائل کو حل کرنے کا طریقہ کار وضع کرے گا۔ اگر دیکھا جائے تو حکومتی ضابطے، نوکر شاہی کی رکاوٹیں اور ادارہ جاتی اصلاحات نہ ہونے اور حکومتی نااہلیوں کے باعث اس وقت ملک میں اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے۔ اسی طرح حکومتی ضابطے پیچیدہ اور بوجھل ہیں جن سے نہ صرف کاروبار کے قیام میں تاخیر ہوتی ہے بلکہ متعلقہ اخراجات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ملک میں کاروبار کرنے کے لیے متعدد حکومتی اداروں اور اتھارٹیز سے منظوری لینا پڑتی ہے اور اس عمل میں تاخیر سے ملک میں انٹرپرنیورشپ کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر برآمد کنندگان کو سامان باہر بھیجنے کے لیے تقریباً 13 ایجنسیوں سے نمٹنا پڑتا ہے جبکہ درآمد کنندگان کو سامان منگوانے کے لیے لگ بھگ 60 ایجنسیوں کو دستاویزات جمع کرانا پڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کا ٹیکس نظام انتہائی پیچیدہ ہے۔ ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے اور ایف بی آر کے ساتھ کاروبار رجسٹرڈ کرنے کے لیے پیشہ ور ٹیکس ماہرین کی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے کے لیے بھی پیشہ ورافراد کی ضرورت پڑتی ہے۔ عوامی مسائل کے حل اور خدمات تک رسائی کے لیے ڈیجیٹلائزیشن تک نہیں ہو سکی حالانکہ دنیا بھر کے ممالک نے کئی دہائیوں پہلے ہی عوامی خدمات کو ڈیجیٹلائز کردیا تھا۔
پاکستان میں معاشی پالیسیاں بڑی تیزی سے تبدیل ہوتی ہیں۔ ان تبدیلیوں سے ملک میں ایک غیر یقینی کا ماحول پیدا ہوتا ہے جس سے نہ صرف ملکی سرمایہ کاری بلکہ کاروبار کی توسیع اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک جیسی پالیسیوں کی تکرار سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ اس بار مختلف نتائج نکلیں گے۔ شرحِ مبادلہ کی پالیسیوں، محصولات اور ٹیکسز میں متواتر تبدیلیوں نے ملک کے اقتصادی ماحول میں ایک غیر یقینی کی صورتِ حال پیدا کر رکھی ہے۔ یہ پالیسیاں ماضی میں بار بار ناکام ہوئیں لیکن حکومت ہر بار مختلف نتائج کی توقع رکھتے ہوئے انہی پالیسیوں کا سہارا لیتی ہے۔ ان پالیسیوں سے پیدا ہونے والا بگاڑ بہت زیادہ ہے اور اس سے لوگ اپنی سرگرمیاں غیر دستاویزی انداز میں جاری رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے ایس آئی ایف سی کی صلاحیت کا انحصار ملک کے ساختی مسائل کے حل پر ہے۔دوسری جانب مقامی تاجر برادری کو اس عمل میں شریک کرنے سے پالیسیاں مزید مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں۔ حکومت نے بیوروکریسی کی طرف سے ڈالی جانے والی رکاوٹوں اور سرخ فیتے کا اعتراف کیا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مسائل کے حل کی کوششیں ہوتی بھی دکھائی دیں۔ جب تک حکومت پالیسیوں میں تبدیلی اور انتظامی کنٹرول کے ذریعے پابندیاں نافذ کرتی رہے گی‘ سرمایہ کاری کے لیے ماحول ساز گار نہیں ہو سکے گا۔
سیاسی حکومتوں پر عوام کا اعتماد بڑھانے اور سیاسی استحکام کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ فیصلہ سازی اور عمل درآمد میں سیاسی ملکیت پر زور دیا جائے۔ معاشی اقدامات کے نفاذ میں اداروں کی مدد لینا اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ حکومت نے ادارہ جاتی اصلاحات کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے ملک کے معاشی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکی۔ ملک میں ہر سال 25 لاکھ بچے جاب مارکیٹ میں آ رہے ہیں مگر ان کے لیے ملازمتوں کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہمارا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس زرمبادلہ نہیں ہے۔ معاشی ساخت ایسی ہونی چاہیے کہ معیشت برآمدات اور ترسیلاتِ زر بڑھا کر زرِ مبادلہ کی کمی پوری کرے۔ اس کے علاوہ ملک میں تیسرا مسئلہ صنعتوں کی پیداوار بڑھانا جبکہ چوتھا مسئلہ ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس کی تیاری ہے۔ ایس آئی ایف سی کا ان مقاصد کے حصول میں کردار ہوسکتا ہے اور اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ معیشت کے پرانے ڈھانچے کو از سر نو تعمیر کیا جائے اور ترجیحات تبدیل کی جائیں تاکہ حقیقی تبدیلی ممکن بنائی جا سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved