سوال اِس لیے ہوتے ہیں کہ ہمارے علم کا دائرہ وسیع ہو، کچھ کرنے کی راہ دکھائی دے۔ ہر سوال ایک الگ دنیا کی راہ دکھا سکتا ہے۔ اہلِ دانش کے نزدیک سوال کی بہت اہمیت ہے کیونکہ سوال کی نوعیت ہی اِس بات کا تعین کرتی ہے کہ ہم کیا اور کتنا جان پائیں گے۔ اچھا سوال ہمارے علم میں اضافہ کرتا ہے۔ بے ڈھنگا سوال ہمارا کھیل بگاڑ بھی سکتا ہے۔ ہر عہد کے اہلِ دانش نے عام آدمی پر بالعموم اور علم کے حصول کی سچی لگن سے ہم کنار لوگوں پر بالخصوص زور دیا ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر سوال کریں تاکہ تشفی بخش جواب ملے اور علم کا دائرہ وسیع ہو۔ ساتھ ہی اِس بات پر بھی زور دیا جاتا رہا ہے کہ کچھ معلوم نہ ہو تو اُس کے بارے میں پوچھنے میں کچھ حرج نہیں۔ اس معاملے میں بے جا جھجھک اور شرم سے صرف نقصان پہنچتا ہے۔
انسان کو اپنے آپ سے بھی چند سوال پوچھنے چاہئیں۔ ہم بہت سے معاملات میں شدید الجھن محسوس کرتے ہیں مگر اپنے آپ سے کچھ پوچھنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ اگر کسی کے مشورے پر یقین نہ ہو یا کسی کی رائے کے مفید ہونے کے بارے میں شبہ ہو تو اپنے آپ سے پوچھ دیکھنے میں کچھ حرج نہیں۔ اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ اپنے آپ سے کیا پوچھنا چاہیے۔ اپنے آپ سے سوال کرنے والی بات ہے بھی تھوڑی سی عجیب۔ کوئی بھی سوال علم کے حصول کے لیے ہوتا ہے۔ اگر ذہن میں کوئی بات پہلے سے موجود ہے تو پھر پوچھنے اور جاننے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
بات کچھ یوں ہے کہ ہم ایسا بہت کچھ جانتے ہیں جس کا ہمیں خود بھی احساس اور اندازہ نہیں ہوتا۔ بہت کچھ ہمارے ذہن میں ہوتا ہے مگر ہم اُس سے باخبر نہیں ہوتے۔ کئی قابلیتیں بھی چھپی ہوتی ہیں مگر ہم اُنہیں کریدنے اور باہر یا بروئے کار لانے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ایسا تساہل کے ہاتھوں بھی ہوتا ہے اور خوف کے نتیجے میں بھی۔ بہر کیف‘ جب ہم اپنے آپ سے کچھ نہیں پوچھتے تب زندگی اٹک سی جاتی ہے۔ ہر طرف صرف بے دِلی دکھائی دینے لگتی ہے۔ ایسے میں کچھ بھی ایسا کرنے کو جی نہیں چاہتا جو بامقصد ہو۔
دنیا کا ہر انسان اپنی مرضی کے مطابق جینا چاہتا ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ مرضی سے کیا مراد ہے؟ کیا مرضی سے یہ مراد لیا جائے کہ جب تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہو تب تک قابلِ قبول ہے اور جہاں ذرا سی کجی پیدا ہوئی تو کچھ بھی ماننے سے انکار کردیا جائے؟ یہ تو میٹھا میٹھا ہپ‘ کڑوا کڑوا تُھو والی سوچ ہوئی۔ ایسی سوچ خالص خود غرضی پر مبنی ہوتی ہے۔ خود غرضی اپنی اصل میں کوئی بُرا یا بہت بُرا وصف نہیں۔ ہر انسان کو اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے اور ہر اعتبار سے استحکام یقینی بنانے کے لیے خود غرض ہونا چاہیے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسروں کے مفادات کو یکسر نظر انداز کردیا جائے یا اُن کے معاملات کو درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا جائے۔ مرضی یعنی سہولت بلکہ زیادہ سے زیادہ سہولت۔ یہ کوئی بُری خواہش نہیں۔ مگر کیا ہم اپنی سہولت یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے آسانی یقینی بنانے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب نفی ہی میں دیا جاسکتا ہے۔ جب انسان اپنے معاملات کو خود غرضی کے حوالے کردیتا ہے تب صرف اپنا بھلا دیکھتا ہے اور دوسروں کے مفاد، سہولت یا آسانی کے بارے میں سوچنا ترک کردیتا ہے۔ یہ بالکل غلط رویہ ہے۔ ایسی طرزِ فکر و عمل انسان کو کنویں کا مینڈک بنادیتی ہے یا پھر بند گلی میں کھڑا کردیتی ہے۔
کیا مرضی کی زندگی تراشی جاسکتی ہے؟ یہ سوال کسی نہ کسی شکل میں ہر انسان کے ذہن میں ابھرتا ہے اور پریشان کرتا رہتا ہے۔ مرضی کی زندگی تراشنا کسی بھی انسان کے لیے ناممکن نہیں مگر آسان بھی نہیں۔ حالات مسلسل بدلتے رہتے ہیں اور اُن سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے انسان کو بھی بدلنا پڑتا ہے۔ جو لوگ حالات کو نظر انداز کرتے ہیں یا اُن سے چشم پوشی کرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں وہ بالآخر بند گلی میں پھنس جاتے ہیں۔ حالات پر نظر رکھنا ہی لازم نہیں، اُن کے مطابق اپنے آپ کو بدلنا بھی لازم ہے۔ بہت کچھ ہے جو ہمیں معاشی سطح پر کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک دیتا ہے اور دوسری طرف بہت سے واقعات اور حالات ہمیں معاشرتی سطح پر بہت کچھ کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔ اگر ہم کچھ کرنے کی تحریک نہ پائیں تو پھر دباؤ کے تحت میدانِ عمل میں اترنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی کام اگر دباؤ کے تحت کیا جائے تو اُس کا حسن غارت ہو جاتا ہے۔
اپنی مرضی کی زندگی تراشنے کا معاملہ کسی بھی انسان کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ عام آدمی کے ذہن میں ایک بے بنیاد تصور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جن کے پاس ڈھیروں دولت ہوتی ہے وہ اپنی مرضی کی زندگی تراشنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ بہت زیادہ دولت اور غیر معمولی شہرت کے حامل افراد کے لیے معاملات زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔ اُن کے شب و روز مختلف ہوتے ہیں۔ اُن کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔ وہ کچھ اور ہی چاہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ دولت سے سب کچھ خریدا جاسکتا ہے۔ دولت سے گیا ہوا وقت واپس نہیں لایا جاسکتا۔ صحت بھی دولت سے خریدنے والی چیز نہیں۔ اِسی طور رشتے اور تعلقات بھی دولت کے محتاج نہیں۔ اگر کوئی تعلق صرف دولت کی بنیاد پر ٹکا ہوا ہے تو سمجھ لیجیے اُس کی کوئی وقعت نہیں۔
مرضی کی زندگی تراشنے کے لیے انسان کو بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے، ایثار سے کام لینا پڑتا ہے۔ دوسری طرف بہت سے اوصاف بھی اپنانا پڑتے ہیں۔ یہ ہر اُس انسان کے لیے ناگزیر ہے جو اپنی مرضی کے مطابق جینا چاہتا ہے۔ ایسی زندگی کچھ قیمت مانگتی ہے۔ یہ قیمت وقت اور ایثار‘ دونوں صورتوں میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ آپ کو اپنے ماحول میں بہت سے لوگ بہت حد تک اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرتے ہوئے ملیں گے۔ آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ اُنہوں نے اِس کی کچھ نہ کچھ قیمت ضرور ادا کی ہے۔ یہ قیمت ادا کی نہیں جاتی بلکہ ادا کرنا پڑتی ہے۔ زندگی اس معاملے میں کسی کے لیے رعایتی مارکس کا فارمولا نہیں رکھتی۔ اپنی مرضی کو تمام معاملات میں مقدم رکھنے کی قیمت کبھی کبھی بہت بھاری نکلتی ہے۔ بالعموم چھوٹے معاملات میں بھی اپنی مرضی کو ترجیح دینا کوئی آسان بات نہیں۔
اپنی مرضی کی زندگی تراشنے پر بہت زیادہ وقت ضائع کرنے کے بجائے تطبیق کی عادت ڈالیے۔ جب آپ لوگوں کی ضرورتوں کے مطابق ایڈجسٹ کرنا سیکھیں گے تب اندازہ ہوگا کہ زندگی بسر کرنے کا یہ انداز زیادہ آسان اور مفید ہے۔ کسی کی مرضی کا تھوڑا سا خیال رکھا جائے تو وہ نہال ہو جاتا ہے۔ انسان کی فطرت میں یہ امر ودیعت کردیا گیا ہے کہ کوئی اُس کی مرضی کو اہم سمجھے تو اظہارِ مسرت کیا جائے اور اُس کا احترام کیا جائے۔ یہ دنیا صرف اور صرف تطبیق کے ذریعے چلتی ہے۔ کسی کی خواہش کا احترام کیجیے، اُس کی ضرورت کے مطابق اپنا منصوبۂ عمل تھوڑا سا بدل لیجیے، اپنی خواہش پر بہت زیادہ زور دینے کے بجائے فریقِ ثانی سے اُس کی خواہش معلوم کیجیے اور اُسے قدر کی نگاہ سے دیکھیے تو زندگی آسان ہوتی چلی جائے گی۔
معاشرہ ایسے لوگوں کو زیادہ پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا جو ہر معاملے میں اپنی مرضی کو تمام معاملات پر مقدم رکھتے ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ اُن کی پسند و ناپسند کا بھی خیال رکھا جائے۔ جو لوگ صرف اپنی مرضی کی بات کرتے ہیں وہ بالآخر اکیلے رہ جاتے ہیں۔ اِس طور بسر کی جانے والی زندگی بہت حد تک کھوکھلی ہو جاتی ہے کیونکہ حقیقی احترام کی منزل سے بہت دور رہتی ہے۔ اپنی مرضی کے معاملے میں جامد نقطۂ نظر کے حامل افراد کو رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ اور ایسا ہے بھی۔ جو لوگ غیر لچکدار سوچ کے حامل ہوتے ہیں اور ہر معاملے میں صرف اپنی مرضی کا احترام چاہتے ہیں وہ یا تو مقبول ہو ہی نہیں پاتے یا پھر مقبولیت سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں۔
دانش کا تقاضا یہ ہے کہ ہر معاملے میں اپنی مرضی کا سودا بیچنے سے گریز کرتے ہوئے ایسی راہ پر چلا جائے جس پر سب کو ساتھ ملانا آسان ہو۔ ایسی حالت ہی میں زندگی کا حسن نکھرتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved