تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     08-10-2013

مذہبی اصلاحات کی ضرورت

رومن کیتھولک چرچ کے نئے سربراہ پوپ فرانسس نے کلیسا کے فرسودہ نظام کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اِس تبدیلی کی پیش گوئی اُسی دن سے کی جارہی تھی جب انہوں نے کیتھولک کلیساکی قیادت سنبھالی اوراپنے لیے فرانسس کا لقب اختیار کیا۔ سینٹ فرانسس تیرہویں صدی کے عظیم مسیحی راہنما ہیں ۔بعض مورخ کہتے ہیں کہ مسیحیت کی تاریخ میں وہ سید نا مسیحؑ کے بعد سب سے اہم آ دمی ہیں۔ایک آ سودہ حال گھرانے کا یہ نو جوان ویسا ہی تھا جیسے اس پس منظر کے لوگ ہوتے ہیں۔پر آسائش زندگی اورلذتِ کام ودہن کی آرزو اوران ہی کے حصول کے لیے سرگرداں۔اچانک تبدیلی آئی اور مہاتما بدھ کی طرح عسرت کی زندگی کواختیار کر لیا۔اس تبدیلی کے بارے میں بہت سی کہا نیاں ہیں۔یہ نو جوان زندگی کی لذتوں سے بھرپور اجتماع میں دوستوں کے بیچ بیٹھا تھا کہ ایک بھکاری نے ہاتھ پھیلایا۔دیکھا تو حالت بدل گئی۔لگا ،وقت تھم گیا ہے۔جیب میں ہاتھ ڈالا اور جو کچھ تھا،اُسے تھما دیا۔یہ ایک واقعہ تھا جو زندگی کا چلن بن گیا۔باپ معترض ہوا تو گھر چھوڑا اور اٹلی کے غاروں میں جا بسیرا کیا۔ جو ملا کھا لیا اور جو بچا تقسیم کر دیا۔ایک کہانی اور بھی ہے۔ایک مجلس میں انجیل کا درس سنا۔بیان ہوا :’’نہ سونا زیر جامہ لپیٹنا ،نہ چاندی نہ پیسے۔راستہ کے لیے نہ جھولی لینا نہ دو دو کرتے نہ جوتیاں نہ لاٹھی کیونکہ مزدور اپنی خوراک کا حق دار ہے‘‘(متی ۱۰:۹)۔سنا تو زندگی کا ڈھنگ بدل گیا۔عام لباس اور ننگے پاؤں کے ساتھ نکل پڑے اور پھر عمر بھر یہی وتیرہ رہا۔غربت اور افلاس کو مو ضوع بنا یا۔ خدا سے محبت، مسیح سے تعلق اور انسانوں ہی سے نہیں، جانوروں اور ماحول سے محبت۔ وہ اس پیغام کو لے کر قریہ قریہ پھرے اور لوگوں نے انہیں اپنا محبوب بنا لیا۔ لوگوں ہی نے نہیں،تذکرہ نگار کہتے ہیں کہ پرندے اور درخت ان کی آ واز سنتے۔وہ سینٹ کہلائے اور مسیحیت میں ایک نئی تعبیر کے بانی۔ سینٹ فرانسس آج کی مسیحیت کے لیے ایک قصۂ پارینہ ہیں۔ویٹی کن پاپائیت کے ایک ایسے نظام میں ڈھل گیا جہاں اہلِ مذہب نے خود کو ایک بیوروکریسی میں بدل ڈالا۔آج بھی اس کا نظام انہی اصولوں پہ قائم ہے جو1588ء میں اختیار کیے گئے۔پوپ کا پروٹو کول ایک سربراہ ِ مملکت سے کسی طرح کم نہیں۔غریب تو دور کی بات، نمایاں لوگ بھی اس منصب تک رسائی نہیں رکھتے۔ مغرب کے جمہوری اور سیکولر معاشرے میں کوئی منصب اور ادارہ ’’مقدس گائے‘‘ نہیں۔ویٹی کن اور پوپ دونوں مسلسل اعتراضات کی زد میں رہے۔ نئے پوپ نے جب یہ منصب سنبھالا اور فرانسس لقب کیا تو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ اب اصلاحات کا ایک عمل شروع ہو نے والا ہے۔اس سے پہلے بھی ان کی زندگی سادہ تھی۔آج بھی وہ اپنا بیگ خود اٹھاتے اور ایک ہو سٹل میں رہتے ہیں۔انہوں نے مذہبی راہنماؤں کی ایک نئی کو نسل بنا دی ہے جس نے اصلاحات کے لیے غور شروع کر دیا ہے۔وہ ایک بارپھر کلیسا کو غریب اور عام آ دمی سے وابستہ کر نا چاہتے ہیں۔پوپ غربت کو اپنا ہدف بنا نا چاہتے ہیں۔اسی لیے ان کے اس اصلاحی پروگرام کو مسیحیت کی تاریخ میں گزشتہ دس صدیوں میں سب سے اہم قدم کہا جا رہا ہے۔(ہیرالڈ ٹریبیون۔5 اکتوبر)۔ مسیحیت کو مغرب میں لبرل ازم کا چیلنج درپیش ہے۔اس کے ساتھ عام آ دمی مذہب سے دور ہو تا جا رہا ہے۔اس کی وجہ سادہ ہے۔ عام آ دمی زندگی میں اُس مذہب کی ضرورت اب محسوس نہیں کر تا، مسیحیت جس کی علم بردار ہے۔مادی زندگی اس کی پہلی اور آخری ترجیح ہے۔مذہبی لوگ اسے آسودہ حال نظر آتے ہیں جنہیں سماج کے اخلاقیات سے زیادہ دلچسپی نہیں۔اس پس منظر میں مسیحیت کو اگر عام آ دمی کی زندگی میں زندہ رہنا ہے تو اسے اپنی افادیت ثابت کر نا ہو گی۔اسے بتا نا ہوگا کہ مذہب اس کے لیے کیوں ضروری ہے۔یہ قدیم مذہبی نظام میں اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔پوپ فرانسس کو اس کا ادراک ہو چکا اور انہوں نے تاریخ ساز اقدامات کی بنیاد رکھ دی ہے۔ میرے نزدیک آج ہر مذہب کے راہنماؤں نے اپنے اپنے مذہب کے پیرو کاروں کے لیے شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔عام سوال یہی ہے کہ اگر مذہب وہ ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں یا جو ان کی زندگیوں میںدکھا ئی دیتا ہے تو اس کی ا فادیت کیا ہے؟اسے قبول کر نے میں نجات ہے یااس سے نجات میں عافیت ہے؟مسیحیت تو اپنے مذہبی پیش واؤں کے ہاتھوں بار ہا نقصان اٹھا چکی۔اسلام کو ان دنوں یہ چیلنج درپیش ہے۔اس وقت جو گروہ اور شخصیات اسلام کی نمائندگی کرر ہے ہیں،اگر انہیں معیار مان لیا جائے توپھر اسلام کو سلامتی اور انسان دوستی کا مذہب ثابت کرنا آسان نہیں رہتا ۔اگر چرچ پر حملہ شریعت کی رو سے جائز قرار پائے گا تواس شریعت کا دفاع کیسے ممکن ہوگا؟بدھ مت کے جو خدو خال برمااورتھائی لینڈوغیرہ میں اس مذہب کے راہنماؤں کے توسط سے سامنے آئے ہیں،ان کی موجودگی میں نیا پڑھا لکھا آ دمی شاید اس مذہب میں کوئی کشش محسوس نہ کرے۔ پوپ دوسرے مذہبی راہنماؤں کے مقابلے میں زیادہ ہوش مند ثابت ہوئے۔انہوں نے جان لیا ہے کہ مسیحیت کو اگر ایک مذہب کے طور پر باقی رہنا ہے اور کسی مارٹن لوتھر کے ’’نزولِ ثانی‘‘ کو روکنا ہے توویٹی کن کو خود پہل کر نا ہو گی۔اگر اصلاحات کی آوازباہر سے اٹھے گی تو تبدیلی کی باگ پھر وقت کے ہاتھ میں ہوگی اور کلیسا اپنا دفاع نہیں کر پائے گا جیسے پہلے نہیں کر سکا جب مارٹن لوتھر نے علم ِ بغاوت بلند کیا تھا۔کیتھولک چرچ کو اس وقت نظریاتی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اسقاطِ حمل،ہم جنس پرستی اور عورتوں کی مذہبی قیادت جیسے مو ضوعات پر کلیسا کو بہت سے سوالات کے جواب دینے ہیں۔مجھے معلوم نہیں کہ وہ لبرل ازم کے چیلنج کا سامناکس طرح کر پائیں گے۔اگر وہ ان مسائل پر عزیمت نہیں دکھاتے تو مذہب کا مقدمہ کمزور پڑ جائے گا جو انسان کے اخلاقی وجود کی حفاظت کرتا ہے۔تاہم کلیسا کے سماجی کردار کووہ تبدیل کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔اس میں لگتا ہے کہ وہ کامیاب رہیں گے۔ اسلام کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں کوئی چرچ نہیں ہے۔یہ بات نظری اعتبار سے درست ہے لیکن تاریخی حوالے سے نہیں۔اسلام میں چرچ نہیں لیکن مسلمانوں میں ہے۔مسلمان سماج آج بھی مذہب کی تعبیر کا حق روایتی علما ہی کو دیتا ہے۔اس روایت سے ہٹ کر کوئی مو لانا ابو الکلام آزاد، مولانا مودودی یا علامہ اقبال جیسا جلیل القدر عالم ہی کیوں نہ ہو،وہ ان کی مذہبی رائے یا بالفاظِ دیگر فتوے کو کوئی اہمیت دینے کوتیار نہیں۔ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل مشرف جیسے لبر ل حکمران بھی مذہب کے باب میں روایتی علما ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔اسی کو پاپائیت کہتے ہیں۔مجھے اس روایت میں کسی تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔میں اپنے علما کی سوچ میں بھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھتا۔دوسرے لفظوں میں ہمارے درمیان کوئی فرانسس نہیں۔یہ میرے نزدیک تشویش کی بات ہے۔یہی وہ جگہ ہے جہاں سے سیکولرازم کا راستہ نکلتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved