غزہ کے شمال میں جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی حملوں نے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ مغربی غزہ پہ بمباری میں سینکڑوں شہریوں کی شہادت اور شمالی غزہ سے لاکھوں فلسطینیوں کے انخلا کے باوجود اب بھی چار لاکھ کے قریب شہری وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ امریکہ بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی کے درمیان شٹل ڈپلومیسی میں سرگرداں ہے‘ تاہم اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو ایک بار پھر تمام یرغمالیوں کی رہائی کے بغیر کامل جنگ بندی کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے غزہ کی شہری آبادیوں پر بمباری جاری رکھنے کا اعادہ کر چکا ہے۔ سات اکتوبر سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں کم از کم گیارہ ہزار فلسطینی شہید اور 70ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ اسی عرصہ میں مرنے والے اسرائیلیوں کی تعداد 1400 کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ رائٹرز کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان امریکی تعاون سے قطر کی ثالثی میں لڑائی میں چند دنوں کے وقفہ کے عوض حماس کی طرف سے پندرہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی پیشکش پہ بات چیت ہو رہی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق مذاکرات تین دن کے انسانی بنیادوں پر توقف کے بدلے 12مغویوں کی رہائی کے گرد گھوم رہے ہیں‘ تاہم اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی صدر جوبائیڈن سے بات چیت کے بعد تمام 240 اسیران کو رہائی کے بغیر عارضی جنگ بندی سے انکار کر دیا ہے۔ واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد یہ امر بھی سامنے آیا کہ حماس کے زیر حراست چار اسیروں کی حوالگی کے لیے بات چیت نتیجہ خیز ہونے جا رہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جب یرغمالیوں کی رہائی کی بات آتی ہے تو امریکیوں کی طرف سے لڑائی میں حکمت عملی سے توقف کی حمایت دوچند ہو جاتی ہے لیکن الجزیرہ نے بتایا کہ نیتن یاہو نے اس سے قبل یہ کہہ کر تجویز مسترد کر دی کہ جنگ بندی تبھی ہو گی جب تمام قیدی رہا ہوں گے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر صرف چند قیدی رہا ہوئے تو اسرائیل کے اندر سے اس پر دباؤ مزید بڑھ جائے گا لیکن تاحال تمام قیدیوں کی رہائی بارے مذاکرات شروع ہی نہیں ہو سکے۔
مصری سکیورٹی ذرائع کے مطابق کچھ مغویوں کی رہائی کے بدلے اگلے ہفتے لڑائی میں 24سے 48 گھنٹے کا وقفہ یا جنگ کا دائرہ محدود ہونے کی توقع ہے۔ بدھ کو ٹیلی ویژن خطاب میں حماس کے کمانڈر ابو عبیدہ نے کہا کہ اسیروں کی مکمل رہائی کی ضمانت دینے کا واحد راستہ قیدیوں کا مکمل اور دو طرفہ تبادلہ ہے۔ الاقصیٰ ٹیلی ویژن پر خطاب میں القسام بریگیڈ کے کمانڈر نے کہا کہ اسرائیل نے مسلم خواتین کے علاوہ بیمار‘ بوڑھوں اور دیگر شہریوں کو اپنی جیلوں میں قید رکھا ہوا ہے۔ حماس نے قیدیوں کے تبادلے کی پیشکش کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے کی اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینیوں کو رہا کرے‘ تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ اس مسئلے کو صرف چند قیدیوں کی رہائی کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ صلح جامع اور ہمہ گیر عمل ہے جس میں سب کو شامل ہونا پڑے گا۔ ادھر اسرائیل میں پہلی بار عوامی حلقے غزہ میں قید اپنے پیاروں کی رہائی کی خاطر نیتن یاہو پر دباؤ ڈالا رہے ہیں کہ وہ ایسے معاہدے پر غور کریں جسے انہوں نے ''سب کے لیے‘‘ کا نام دیا یعنی اس فریم ورک میں تمام فلسطینی مسلمان اور یہودی قیدیوں کی رہائی کے لیے وسیع پیمانے پر قومی حمایت حاصل کی جائے۔ مذاکرات کی تازہ ترین رپورٹوں کے بعد یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کے فورم نے کہا کہ وہ دونوں جانب قید ہر ایک مغوی کی واپسی کا خیرمقدم کریں گے لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں کہ نیتن یاہو قیدیوں کی رہائی کو کتنی ترجیح دیتا ہے کیونکہ وہ غزہ پر زمینی‘ سمندری اور فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان حملوں میں 4324بچوں سمیت تقریباً گیارہ ہزار افراد شہید ہو چکے ہیں۔ حماس کے خلاف اسرائیل کے زمینی حملے سے قبل اسرائیلی افواج نے غزہ شہر کا محاصرہ کرکے جنوبی غزہ سے گنجان آباد علاقوں کو کاٹ دیا۔ حماس کے مطابق ان کی مؤثر زمینی مزاحمت نے اسرائیل کے زمینی حملوں کو کند کر دیا۔ حماس کے جنگجوؤں نے طویل مزاحمتی جنگ کی خاطر خود کو زیر زمین تعمیر کردہ دفاعی ڈھانچے کے اندر مورچہ زن رکھا ہوا ہے۔ مصر کے مطابق اسرائیل نے وقتاً فوقتاً انسانی بنیادوں پہ جنگ میں توقف کی اپیلوں کو مسترد کرنے کے الرغم روزانہ ایک سو امدادی ٹرکوں کو علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دینے پر اتفاق کر لیا ہے۔ اسرائیل لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ راکٹوں کا تبادلہ جاری رکھنے کے علاوہ شام میں مبینہ طور پر ایران سے منسلک اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ایران کے حمایت یافتہ کئی گروہوں نے عراق اور شام میں امریکی فوجی ٹھکانوں پر حملے کیے جبکہ یمن کے حوثی اسرائیل پر میزائل داغ کر میدانِ جنگ میں داخل ہوچکے ہیں۔
75سال پرانے اسرائیل فلسطین تنازع کی بنیاد 1947ء میں اقوامِ متحدہ کی منظور کردہ ایک قرار داد کے ذریعے رکھی گئی جسے پارٹیشن پلان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ جس میں برطانیہ نے فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی سکیم کے تحت 14مئی 1948ء کو اسرائیلی ریاست کا قیام یقینی بنایا اور امریکہ نے اسی منصوبہ کو پہلی عرب اسرائیل جنگ کا محرک بنا کر اس پُراسرار جنگ کو 1949ء میں اسرائیل کی فتح تک پہنچا کر نوزائیدہ صہیونی ریاست کو مڈل ایسٹ کی زمینی حقیقت اور علاقائی طاقت کے طور پہ منوا لیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں 7لاکھ 50ہزار فلسطینیوں کے بے گھر ہونے کے علاوہ فلسطین تین حصوں میں منقسم بھی ہو گیا جس میں اسرائیل‘ مغربی کنارا (دریائے اُردن کا) اور غزہ کی پٹی شامل تھی۔ دوسری جنگِ عظیم کے اُجڑے ہوئے خطے میں مغربی طاقتوں نے اگلے چند برسوں میں بتدریج کشیدگی بڑھائی۔ خاص طور پر اسرائیل‘ مصر‘ اُردن اور شام کے درمیان 1956ء کے سوئز بحران اور جزیرہ نما سینائی پر اسرائیلی حملے کے بعد مصر‘ اُردن اور شام نے اسرائیلی فوجیوں کے مبینہ طور پہ متحرک ہونے کے تراشیدہ خدشے کے پیش نظر باہمی دفاعی معاہدات پر دستخط کیے تھے۔ جون 1967ء میں مصری صدر جمال عبدالناصر کی طرف سے بغیر کسی منصوبہ بندی کے اسرائیل سے غیرضروری طور پہ جنگ چھیڑی گئی۔ چھ روزہ بے مقصد جنگ نے مصری اور شامی حکومتوں کو مزید کمزور کر دیا۔ عالمی طاقتوں کی خفیہ اعانت کے باعث اسی جنگ میں اسرائیل نے مصر سے جزیرہ نما سینائی اور غزہ کی پٹی پرکنٹرول حاصل کرنے کے علاوہ اُردن سے مغربی کنارا اور مشرقی یروشلم اور شام سے گولان کی پہاڑیاں چھین کر پورے مڈل ایسٹ پہ بالادستی حاصل کر لی۔ چنانچہ چھ سال بعد 1973ء میں‘ جسے یوم کپور (حزن و ملال) جنگ کہا جاتا ہے‘ مصر اور شام نے اپنے کھوئے ہوئے علاقے دوبارہ لینے کی خاطر اسرائیل کے ساتھ پھر دو محاذوں پہ جنگ چھیڑ دی جس میں فریقین کوکوئی فائدہ تو نہیں ہوا تاہم مصری صدر انور السادات نے جنگ کو اس لیے مصر کی فتح قرار دیا کیونکہ اسرائیل نے مصر اور شام کو پہلے سے دیے گئے علاقوں پر مذاکرات کی اجازت دے دی۔ آخر کار 1979ء میں جنگ بندی اور امن مذاکرات کے ایک سلسلے کے بعد مصر اور اسرائیل کے نمائندوں نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ پر دستخط کیے جو ایک ایسا امن معاہدہ تھا جس کے بعد مصر اسرائیل کو تسلیم کرنے والی پہلی مسلم ریاست بن گیا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے اگرچہ پڑوسی ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات بہتر ہوئے لیکن فلسطینیوں کا حقِ خود ارادیت اور خود مختاری کا سوال سودے بازیوں کی نذر ہو گیا۔ 1987ء میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے لاکھوں فلسطینی انتفادہ کے نام پر اسرائیلی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ اسی انتفادہ کو روکنے کی خاطر 1993ء میں اوسلو نے ثالثی کرکے فلسطینیوں کے لیے مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی اتھارٹی قائم کرکے الفتح سے اسرائیل تسلیم کرا لیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved