اچھے اور برے لوگ ہر قوم، ہر معاشرے اور ہر مذہب میں موجود ہوتے ہیں۔ اس وقت ایک طرف اسرائیل بربریت اور سفاکیت کی انتہا کرتے ہوئے غزہ کے ایک ایک انچ پر بم برسا رہا ہے اور فلسطینی بچوں کی باقاعدہ نسل کشی کی جا رہی ہے مگر دوسری طرف دنیا بھر میں اور خود اسرائیل کے اندر بھی ہزاروں کی تعداد میں یہودی سڑکوں پر نکل کر غزہ پہ اسرائیلی حکومت کی بمباری کے خلاف سراپا احتجاج بنے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ انتہائی سخت الفاظ میں اسرائیلی وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ظلم و جبر اور بربریت کو کسی ایک قوم یا مذہب سے مشروط نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کہنا سراسر غلط ہو گا کہ کرۂ ارض پر بسنے والا ہر یہودی قابلِ مذمت ہے۔ زیادہ دور مت جایئے‘ چند روز قبل شام میں داعش نے شامی مجاہدین پر حملہ کر کے اسرائیل کے خلاف لڑنے والے بیس جانبازوں کو گھات لگا کر قتل کر دیا۔ خود کو مسلمان کہلانے والے داعش کے یہ لوگ جو اسرائیل کے خلاف لڑنے والوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں‘ کیا یہ اچھے الفاظ اور رحم کے مستحق ہو سکتے ہیں؟ چند روزہوئے یہودیوں کے ایک بڑے ربی نے کھل کر اعلان کیا ہے کہ غزہ پر بر بریت ڈھانے والے معصوم بچوں کے ہسپتالوں، آبادیوں اور سکولوں پر بمباری کرنے والے اسرائیلی جنگی مجرم اور انسانیت کے قاتل ہیں۔ کیا اس سوچ کے حامل یہودیوں کو ہم صہیونیوں کی قطار اور فہرست میں شامل کر سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں! جس طرح پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے والے اور معصوم لوگوں کو خود کش حملوں میں شہید کرنے والے دہشت گردوں کو مسلمان نہیں کہا جا سکتا‘ اسی طرح امن کی بات کرنے والے اور فلسطینیوں کے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل سے فلسطین کی حدود سے نکل جانے کا مطالبہ کرنے والے یہودی کس طرح ظالم کہلا سکتے ہیں؟
غزہ پر حملے کے بعد سے مسلمان اسرائیل کو نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں مگر اسرائیل پر حملہ کر کے ہی اسے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں سے باہر نکالا جائے‘ یہ ضروری نہیں۔ اگر دنیا کے سبھی باشعور اور دردمند حلقے متحد نہیں ہوتے تو کم از کم مسلم ممالک کی اکثریت یکجا اور متحد ہو کر آواز اٹھائے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت اسرائیل کے حامی اور پشت پناہ یورپی ممالک پر دبائو بڑھاتے ہوئے سفارتی اور دفاعی ڈپلومیسی اپنائی جائے۔ سب اکٹھے ہو کر اپنے وسائل اور سرمائے کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کے پُرامن حل اور اس مسئلے کی وجہ سے آئے روز کی جھڑپوں اور لڑائیوں کے پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے اپنے ساتھ ملا یا جائے۔ یقین کریں کہ عرب قوم پرستی کا نعرہ لگانے والوں نے اگر یہ اقدامات کیے ہوتے تو فلسطین کا مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا لیکن بد قسمتی کہ مسلم ممالک اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکہ اور برطانیہ سے اس قدر خوف زدہ رہتے ہیں کہ ہمہ وقت ان سے سہمے رہتے ہیں۔
پورے کرۂ ارض پر یہودیوں کی کل تعداد دو کروڑ کے لگ بھگ بتائی جا تی ہے۔ ان میں سے ایک کروڑ یہودی امریکہ،پچاس لاکھ ایشیا، چالیس لاکھ برطانیہ اور روس سمیت پورے یورپ اور لگ بھگ ایک لاکھ افریقہ میں آباد ہیں۔ دوسری طرف پورے کرہ ارض پر آج مسلمانوں کی آبادی دو ارب کے قریب ہے۔ جن میں سے ایک ارب سے زائد ایشیا اور مڈل ایسٹ،چالیس کروڑ افریقہ، لگ بھگ پانچ کروڑ یورپ اور اسی لاکھ سے زائد امریکہ میں بستے ہیں۔ اس وقت دنیا کا اوسطاً ہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔ دنیا کی آبادی کے تنا سب میں ایک ہندو کے مقابلے میں تین مسلمان جبکہ ایک یہودی کے مقابلے میں100 مسلمان ہیں۔ لیکن آج کی افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ دو کروڑ سے بھی کم یہودیوں کے سامنے دو ارب سے زائد مسلمان بے بس، محکوم، لاچار اور محتاج ہیں جو بکریوں کے گلے کی طرح اس انتظار میں ہیں کہ بھوکا بھیڑیا کب انہیں اپنا اگلا شکار بناتا ہے۔
اسلام کی آمد کے بعد ساتویں صدی عیسوی میں اس سنہرے دور کا آغاز ہوا کہ جب تاریخ، فلسفہ، طبیعیات، کیمیا، فلکیات اور ریاضی سمیت سبھی اہم علوم میں مسلمانوں کے نام کا ڈنکا بجتا تھا لیکن آج وہ دور‘ کئی صدیاں ہوئیں‘ ایک دلکش خواب بن کر رہ چکا ہے۔ آج مسلمان سب کچھ ہونے کے باوجود ہاتھ پھیلائے غیروں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔ آج جد ھر نظر اٹھائیں‘ ہر طرف یہودی چھائے ہوئے ہیں۔ دنیا کے وہ لوگ جن کے خیالات اور اثرات آج کے سیا سی اور اقتصادی میدانوں پر غالب ہیں‘ ان میں اکثریت یہودی النسل لوگوں کی ہے۔ البرٹ آئن سٹائن، سگمنڈ فرائیڈ، کارل ماکس اور ملٹن فرائیڈ مین اس ضمن میں قابلِ ذکر ہیں۔ انسانی صحت اور میڈیکل سائنس سے متعلق ہر شعبے میں یہودیوں کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔ میڈیکل سائنس کی دنیا کے بڑے بڑے ناموں کی طرف دیکھیں تو ویکسی نیشن سرنج ایجاد کرنے والا بینجمن روبن ایک یہودی تھا۔پولیو کی ویکسی نیشن دریافت کرنے والا جونس سالک یہودی تھا۔ خون کے سرطان لیکیمیا کا علاج دریافت کرنے والا گرٹریوڈ اِیلین یہودی تھا۔ ہیپاٹائٹس بی کا علاج دریافت کرنے والا بارچ بلمبرگ یہودی تھا۔ سائفلز ڈرگ بنانے والا پال ایرچ یہودی تھا۔ نیرو مسکلر تیار کرنے والا ایلی میچنکوف یہودی تھا۔ انڈوکرینالوجی کا موجد اینڈر یو شیلی یہودی تھا۔ کاگنیٹو تھراپی کا موجد ایرون بیک یہودی تھا۔ ''انڈر سٹینڈنگ آف ہیومن آئی‘‘ کا خالق یہودی تھا۔ ایبرولوجی کا موجد سٹینلے کوہن یہودی تھا جبکہ گردوں کے ڈائیلیسز کا طریقہ دریافت کرنے والا ولیم لاف کیم بھی یہودی تھا۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی وہ ایجادات جنہوں نے دنیا کی معاشی، سماجی اور تخلیقی ترقی میں ایک تہلکہ مچا دیا ان میں سے بیشتر کے موجد یہودی تھے۔ مائیکرو پروسیسنگ چپ کا موجد سٹینلے میزر یہودی تھا۔ نیوکلیئر چین ری ایکٹر کا موجد لیوسزیلینڈ یہودی تھا۔ آپٹیکل فائبر کیبل کا موجد پیٹر شلز یہودی تھا۔ ٹریفک لائٹس متعارف کرانے والا چارلس ایڈلر یہودی تھا۔ سٹین لیس سٹیل کا موجد بینو سٹراس یہودی تھا۔ مائیکرو فون کا مو جد ایملی برلینر یہودی تھا۔ وڈیو ٹیپ ریکارڈر کا خالق چارلس جنسبرگ یہودی تھا۔ دنیا کے بڑے بڑے کاروباری اداروں اور کمپنیوں میں سے پولو کا مالک رالف لان، لیویز جین کا لیوی سٹراس، سٹار بکس کا مالک ہاورڈ شلز، گوگل کا مالک سرجی برن، کمپیوٹر کمپنی DELL کا مالک مائیکل ڈیل، اوریکل کا مالک لیری ایلیسن، باسکن اینڈ رابن کا مالک رابن، فیس بک اور وٹس ایپ کی میٹا کمپنی کا مالک مارک زکر برگ بھی یہودی ہے۔1901ء سے اب تک مٹھی بھر یہودیوں نے 214 نوبیل پرائز حاصل کیے ہیں یعنی کل نوبیل انعامات کا لگ بھگ ایک چوتھائی، اور ان کے مقابلے میں اس کرہ ارض پر بسنے والے دو ارب مسلمانوں نے صرف سولہ نوبیل انعامات حاصل کیے ہیں جن میں سے زیادہ تر امن اور لٹریچر کے حوالے سے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں صرف تین۔
آخر کیا وجہ ہے اقوام عالم میں مسلمان یہودیوں اور دوسری قوموں کے مقابلے میں کمزور ترین ہیں۔ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اس وقت کرہ ارض پر چھائی پوری مسلم دنیا میں کل 600 کے قریب یونیورسٹیاں ہیں جبکہ صرف امریکہ میں اس وقت چار ہزار سے زائد یونیورسٹیاں ہیں‘ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی اکثریت امریکہ ہی میں ہے۔ بھارت میں بھی گیارہ سو سے زائد اعلیٰ تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ مزید شرمناک بات یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں جن پانچ سو یونیورسٹیوں کو ٹاپ ترین کا درجہ دیا گیا ہے ان میں پاکستان سمیت کسی مسلم ملک کی یونیورسٹی کا نام شامل نہیں ہے۔ پوری عیسائی دنیا میں لٹریسی ریٹ90 فیصد جبکہ مسلم دنیا کا لٹریسی ریٹ40 فیصد کے لگ بھگ ہے۔مسلم ممالک میں سائنسدانوں کا تناسب دس لاکھ افراد میں صرف ایک سائنسدان ہے جبکہ ہر طرح کے وسائل سے مالا مال عرب ممالک میں ہر دس لاکھ افراد میں سے صرف پچاس سائنسدان ہیں۔ اس کے بر عکس امریکہ میں یہ تناسب ہر دس لاکھ میں پانچ سو ہے۔ مسلم ممالک ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر اپنےGDPکا صرف0.2 فیصد جبکہ اسرائیل5 فیصد خرچ کرتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved