تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     12-11-2023

ساری نظریں‘ نواز شریف پر

جناب نواز شریف پاکستان واپس آ کر سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر چکے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ وہ دوسری سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں سے رابطے بھی کر رہے ہیں۔ان سے ملنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے‘ایم کیو ایم سے تو باضابطہ تعلق قائم ہو چکا ہے لیکن بلوچستان اور سندھ سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات اور جماعتیں بھی ان کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہیں ‘اگرچہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ نواز شریف خود عام انتخابات میں حصہ لے سکیں گے یا نہیں‘ لیکن یہ تاثر عام ہے کہ وہی آئندہ وزیراعظم ہوں گے۔ان کے حریف کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ سے اُن کی تاحیات نااہلی برقرار رہے جبکہ قانون دانوں کی ایک بڑی تعداد اس رائے کا اظہار کر رہی ہے کہ پارلیمینٹ کی طرف سے نااہلی کی مدت پانچ سال مقرر کرنے کا اطلاق ان پر بھی ہو گا اور سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکے گا۔ امکان یہی ہے کہ معاملہ پھر سپریم کورٹ میں جائے‘ اور اس قانونی گتھی کو وہیں سلجھایا جا سکے۔
نواز شریف انتخاب میں حصہ لے سکیں گے یا نہیں اس بحث سے قطع نظر یہ بات تو واضح ہے کہ سیاست اُن کے گرد گھوم رہی ہے‘اُنہیں سیاست سے اور سیاست کو اُن سے علیحدہ کرنے کی تدبیریں ناکام ہو چکی ہیں وہ طیب اردگان کی طرح رکاوٹ عبور کریں یا براہِ راست سپریم کورٹ سے پروانۂ آزادی حاصل کر لیں‘ان کے حریفوں کو مات ہو چکی۔سابق وزیراعظم عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا تعاقب کرنے والے سرگرم ہیں‘ نہ وہ چین سے بیٹھے ہیں‘اور نہ خان صاحب کو چین سے بیٹھنے کی اجازت دینے پر تیار ہیں۔ان کے متعلقین و لواحقین کے بارے میں جو کچھ منظر عام پر آ رہا ہے‘اُس سے اور کچھ واضح ہو یا نہ ہو‘ اتنا بہرحال واضح ہے کہ راوی چین نہیں لکھ رہا۔ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو سکتے ہیں۔نیب حکام ان کے معاملات کا بغور جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچنے والے ہیں۔پاکستانی سیاست میں خواتین کے ساتھ رعایت کرنے کی روایت اگرچہ مستحکم نہیں ہے‘ اور مختلف اوقات میں مختلف خواتین کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑی ہیں‘اس کے باوجود اگر بشریٰ بی بی کی گرفتاری تک نوبت پہنچی‘تو اس پر اظہارِ مسرت نہیں کیا جا سکے گا۔محترمہ کی حیثیت خاتونِ خانہ کی ہے‘ اپنے شوہر کے معاملات سے اُن کی جو بھی دلچسپی ہو‘ وہ عملی سیاست میں حصہ نہیں لے رہی تھیں‘نہ ہی کوئی حکومتی عہدہ ان کے پاس تھا‘ان کے خلاف کی جانے والی کارروائی ہماری سیاست کے گدلے پن ہی میں اضافہ کرے گی۔ایک زمانہ تھا مسلم لیگ(ن) کے اکثر رہنما نیب قانون کے تحت گرفتاریوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ یہ بات زور دے کر کہی جاتی تھی کہ کسی بھی شخص کو گرفتار کر لیا جائے‘اس کو آزادی سے محروم کرنے کے بجائے اس کے خلاف مقدمہ چلانے کو ترجیح دی جانی چاہیے۔الزامات کی تفتیش کر کے معاملہ عدالت میں پیش کر دیا جائے‘وہاں سے فیصلہ آنے تک کسی کی آزادی سلب نہ کی جائے۔اس بات میں کل بھی وزن تھا‘اور آج بھی ہے۔ اگر کوئی شخص تفتیش میں تعاون نہ کر رہا ہو تو اس کی گرفتاری کو برداشت کیا جا سکتا ہے‘لیکن جو تفتیش کرنے والے اداروں کے طلب کرنے پر حاضر ہو رہا ہو‘ اور سوالوں کے جواب دے رہا ہو‘ اُس کی گرفتاری کی کوئی تُک ہے نہ جواز۔
بشریٰ بی بی کی گرفتاری سے قانون اور انصاف کو تو کوئی فائدہ نہ پہنچے گا‘ لیکن نگران حکومت کے بارے میں سوالات اُٹھیں گے۔ نیب کو بھی ایسے کسی اقدام سے پہلے ایک سو نہیں ایک ہزار مرتبہ غور کرنا چاہیے۔عمران خان کے حریفانِ سیاست بھی اگر آواز بلند کریں‘تو اس سے بڑھتی ہوئی کشیدگی اور محاذ آرائی میں کمی کا آغاز ہو سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف اس وقت پاکستان کے سب سے تجربہ کار سیاستدان ہیں‘اُنہوں نے تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ان کے خلاف کارروائیوں نے پاکستانی سیاست کے چہرے کو بدنما اور داغدار ہی بنایا ہے۔اُنہیں پہلی بار مرحوم صدر غلام اسحاق خان نے اپنے صوابدیدی آئینی اختیار کے ذریعے ایوانِ اقتدار سے باہر نکالا‘ دوسری بار جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء نے یہ رسوائی اپنے نام کی‘اور تیسری بار سپریم کورٹ کے ذریعے اُنہیں محرومِ اقتدار کیا گیا۔ اب یہ سب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے لیکن نواز شریف پورے قد سے ہمارے سامنے کھڑے ہیں‘ان کے حریفوں کو منہ کی کھانا پڑی‘غلام اسحاق خان اور پرویز مشرف تو اس دنیا میں نہیں رہے‘لیکن جو اس دُنیا میں موجود ہیں‘اُن کے لیے بھی منہ چھپانا مشکل ہو رہا ہے۔ان کے سب سے بڑے حریف عمران خان جیل میں ہیں‘ان پر الزامات کی یلغار جاری ہے‘مقدمات قائم ہو رہے ہیں‘اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون سا مقدمہ ان کے ساتھ کیا کر گزرے۔ان کی سیاسی جماعت بھی آزمائش سے دوچار ہے‘ان کے پرانے رفقا ٹوٹ رہے ہیں۔تحریک انصاف کے بطن سے دو نئی سیاسی جماعتیں تو جنم لے چکیں‘لیکن جو جو ابھی تک پارٹی کے ساتھ ہیں‘ان میں سے کون کب ساتھ چھوڑ جائے‘اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔انتخابات کا اعلان ہو چکا لیکن تحریک انصاف کے متعلقین و متاثرین ''لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کے مطالبے کر رہے ہیں۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی ان کی شکایات نگران وزیراعظم کو بھجوائی ہیں‘لیکن ابھی تک سنوائی نہیں ہو پائی۔نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے انہیں ''جانبداری‘‘ کا طعنہ ضرور دے دیا ہے۔کوئی کچھ کہے اور جو کرے‘ نواز شریف پر لازم ہے کہ وہ ایک مدبر سیاستدان کے طور پر اپنا کردار ادا کریں‘عمران خان سے جو بھی شکایات ہیں اور انہوں نے اپنے دور میں جو کچھ بھی انتہائی کارروائیاں کی ہوں ان کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے‘ اسے انتخابی مہم چلانے کی پوری آزادی ہونی چاہیے۔2018ء کے انتخابات کے دوران نواز شریف حوالہ ٔ زنداں کر دیئے گئے تھے‘ اُن سے وزارتِ عظمیٰ کا منصب چھینا جا چکا تھا‘ لیکن مسلم لیگ(ن) نے انتخابات میں حصہ لیا تھا‘ اور اپنا وجود منوایا تھا۔ تحریک انصاف پر جو بھی افتاد پڑی ہو اور اس کا جو بھی سبب ہو‘اُسے عوام کے پاس جانے اور ان سے ووٹ طلب کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہیے۔
پاکستانی سیاست میں بہت کچھ ایسا ہو چکا ہے جو نہیں ہونا چاہئے تھا‘لیکن ماضی کی غلطیوں کو دہرا کر مستقبل کی تعمیر نہیں کی جا سکتی۔اس وقت ساری نظریں نواز شریف پر ہیں‘اُنہیں مستقبل کو سنوارنا اور پاکستان کو مشکلات سے نکالنا ہے‘اس بڑے کام کے لیے دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے‘ بہت بڑا‘ بہت ہی بڑا۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved