عام انتخابات8 فروری 2024ء کو ہیں‘ سیاسی جماعتوں کے پاس انتخابات کی تیاری کیلئے تین ماہ سے کم کا وقت بچا ہے مگر ماضی میں جیسی انتخابی تیاریاں اور ماحول دیکھنے کو ملتا تھا وہ ابھی تک دکھائی نہیں دے رہا ‘ البتہ سیاسی جماعتیں اندرونِ خانہ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سیاسی اتحاد انتخابات کی حکمت عملی کا حصہ ہے جس پر تقریباً سبھی جماعتیں عمل پیرا ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتیں ان چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملانے کیلئے اقدامات کر رہی ہیں جن کو ملانے سے انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح صوبائی سطح کی چھوٹی جماعتوں کی کوشش ہے کہ وہ اس جماعت کیساتھ اتحاد قائم کریں جس کی کامیابی کی آثار نمایاں ہوں۔7 نومبر کو متحدہ قومی موومنٹ کے وفد کی نواز شریف سے ملاقات کے بعد دونوں جماعتوں کا مل کر عام انتخابات لڑنے کے فیصلے نے سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کیلئے مشکلات کا اشارہ دے دیا ہے کیونکہ کراچی اور حیدرآباد کی شہری آبادی میں ایم کیو ایم کے سیاسی اثر رسوخ سے انکار ممکن نہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق کراچی کی قومی اسمبلی کی 22نشستیں جبکہ صوبائی نشستیں47 ہیں۔ کراچی کی دوسری اہمیت بندرگاہ اور تجارتی مرکز کی وجہ سے ہے‘ بعض معاشی ماہرین کے مطابق کراچی ملک کو 60 فیصد سے زائد ریونیو دیتا ہے۔ ایم کیو ایم ماضی میں متعدد بار مسلم لیگ (ن) کی اتحادی رہ چکی ہے مگر اتحاد زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ دونوں جماعتوں کے درمیان اب کی بار قائم ہونے والے اتحاد میں کیا مختلف ہو گا اور دونوں جماعتوں نے ماضی سے کیا سیکھا ہے یہ اہم ہے۔ سندھ میں گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) جمعیت علمائے اسلام اور مسلم لیگ (ن) ایک پیج پر اکٹھی ہو رہی ہیں۔ یہ اتحاد سندھ میں پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک پر اثر انداز ہو گا۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی پاکستان پیپلزپارٹی کی اتحادی بن سکتی تھیں مگر بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی بھی پاکستان پیپلزپارٹی سے دور ہوتی دکھائی دی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی مرتضیٰ وہاب کو کراچی کا میئر منتخب کرانے میں تو کامیاب ہو گئی تاہم قیادت عام انتخابات کے معاملے پر پارٹی کا دائرہ بڑھانے کا ادراک نہ کر سکی۔ پاکستان پیپلزپارٹی اپنے تئیں یہ سمجھ رہی ہے کہ شہری علاقوں میں بھی اس کی اثر پذیری میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی بھی اس کی مخالف سمت کھڑی ہوں گی۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کیلئے سیاسی فضا سازگار ہونے کے باوجود پارٹی کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے کیونکہ محمد زبیر جیسے دیرینہ پارٹی رہنما بشیر میمن کو سندھ میں پارٹی صدر بنائے جانے کے فیصلے پر سوال اٹھا رہے ہیں‘ جنہیں پارٹی جوائن کئے ہوئے محض ایک ماہ ہوا ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی چند روز قبل انتخابات میں (ن) لیگ کیساتھ اتحاد کا اعلان کیا ہے۔بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کا ووٹ بینک موجود ہے۔ پچھلے چار پانچ انتخابات میں یہ دونوں پارٹیاں قومی اور صوبائی سطح پر نمایاں رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان مصلحتاً خاموش ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ بلوچستان میں بھی جے یو آئی مسلم لیگ (ن) کی اتحادی ہو گی۔ ہماری اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے الیکٹ ایبلز مسلم لیگ (ن) کی طرف دیکھ رہے ہیں‘ اگلے چند روز میں میاں نواز شریف کے دورہ ٔبلوچستان کے دوران الیکٹ ایبلز باقاعدہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کر سکتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کی صورتحال دیگر تمام صوبوں سے یکسر مختلف ہے‘ فی الحال کسی ایک جماعت کی مقبولیت کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ نو مئی واقعات کے بعد خیبرپختونخوا کی سیاسی پوزیشن اس حوالے تبدیل ہو چکی ہے کہ بسیار کوششوں کے باوجود پختونخوا میں پرویز خٹک کو پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔ پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے قیام کے وقت چند رہنماؤں کے علاوہ اب تک کوئی بڑی سیاسی شخصیت ان کی پارٹی میں شامل نہیں ہوئی اسی طرح انہوں نے صوبے میں سیاسی جلسے کئے جس میں عوام کی بڑی تعداد شریک نہیں ہوئی۔ اس لئے خیبرپختوخوا کا ووٹ متعدد سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ امیر مقام اور سردار یوسف نے پی ٹی آئی کے نو سالہ دور میں مشکل حالات کے باوجود پارٹی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ہزارہ بیلٹ‘ سوات‘ چترال اور چند ایک شہروں میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک موجود ہے۔ ماضی میں انہی علاقوں سے مسلم لیگ (ن) کو کامیابی حاصل ہوئی۔ عوامی نیشنل پارٹی کا صوبے کے شہری اور دیہی علاقوں میں ووٹ بینک ہے۔ الیکشن 2008ء میں عوامی نیشنل پارٹی نے پاکستان پیپلزپارٹی کے اشتراک سے صوبے میں حکومت بنائی تھی‘ ماسوائے الیکشن 2018ء کے تقریباً ہر الیکشن میں عوامی نیشنل پارٹی کو صوبے سے قومی اسمبلی کی سیٹیں ملتی رہی ہیں۔ الیکشن 2018ء میں صرف ایک سیٹ حاصل ہوئی تھی۔ خیبرپختونخوا میں جے یو آئی کے ووٹ بینک میں اضافہ دکھائی دیتا ہے۔ لکی مروت‘ بنوں‘ قبائلی اضلاع میں جے یو آئی کا سب سے زیادہ ووٹ بینک موجود ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ نو مئی کے واقعات کے باوجود خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک متاثر نہیں ہوا‘ اس مفروضے کو اگر درست تسلیم کر لیا جائے تو بھی پی ٹی آئی کو صوبے میں امیدوار کھڑے کرنے میں مشکل کا سامنا رہے گا۔ علی محمد خان اور اسد قیصر کے علاوہ کوئی نمایاں امیدوار پی ٹی آئی کو صوبے میں میسر نہیں۔ ایسی صورتحال میں الیکشن میں حصہ لینا پی ٹی آئی کیلئے پریشانی کا باعث ہو گا۔ عوامی نیشنل پارٹی کا جھکاؤ مسلم لیگ (ن) کیساتھ اتحاد کی طرف ہے‘ تاہم صوبے میں سیاسی اتحاد قائم ہوتا ہے تو وہ جے یو آئی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ہو گا۔ نگران وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا اعظم خان کے انتقال کے بعد صوبائی کابینہ تحلیل ہو گئی ہے‘ اس مرحلے پر جبکہ انتخابی شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے‘ صوبے کے اختیارات گورنر کے پاس چلے گئے ہیں۔آئین کے تحت ایک ہفتہ کے اندر نئے نگران وزیراعلیٰ کی تعیناتی ہونی چاہئے تاکہ شفاف انتخابات کے انعقاد میں جانبداری کے اعتراضات نہ اٹھیں۔
پنجاب کو مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے کیونکہ پچھلے تین انتخابات کے دوران مسلم لیگ (ن) سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنیوالی جماعت رہی ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق قومی اسمبلی کی کل 266 نشستوں میں سے 141 نشستیں پنجاب کی ہیں جو دیگر تینوں صوبوں سے زیادہ بنتی ہیں‘ شاید اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ جو پارٹی پنجاب میں اکثریت حاصل کرے گی وہی وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گی۔ پنجاب میں سیاسی اتحاد کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کو مسائل کا سامنا ہے‘ مقبولیت کے تاثر کے پیش نظر مسلم لیگ (ن) کسی کے ساتھ اتحاد نہیں چاہتی مگر ماضی کے وعدے وعید سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرنا آسان بھی نہیں ۔ دسمبر 2022ء میں وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد علیم خان‘ جہانگیر ترین اور چوہدری شجاعت حسین کے تعاون سے لائی گئی تھی‘ اب مسلم لیگ (ن) ان اتحادیوں کو یکسر نظر انداز کرتی ہے تو تب مسئلہ۔ صوبے میں بڑے پیمانے پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے تو سیاسی نقصان ہو گا۔ پنجاب کی سطح پر مسلم لیگ (ن) ماضی کے اتحادیوں سے کیا ڈیل کرتی ہے اور خود کو سیاسی نقصان سے کیسے بچاتی ہے یہ اہم ہو گا‘ تاہم صوبائی سطح کی علاقائی و قوم پرست جماعتوں کا مسلم لیگ (ن) کی طرف جھکاؤ اور الیکٹ ایبلز کیلئے مسلم لیگ (ن) پہلی ترجیح ہونے سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت کا تاثر بن چکا ہے۔ یہی پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان فاصلے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ہے اور بلاول بھٹو زرداری لیول پلینگ فیلڈ کا معاملہ اٹھا کر اسے بیانیہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved