پاکستان میں موجود آئی ایم ایف وفد کے نگران حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ اس دوران باہمی مشاورت سے کلائمیٹ فنانسنگ پالیسی کو جلد از جلد حتمی شکل دینے اور مزید تین اہم سرکاری اداروں کو وزارتِ خزانہ کے سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ کی نگرانی میں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان اداروں میں پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن‘ پاکستان پوسٹ اور پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کی ٹیم نے اپنا تکنیکی جائزہ جمعہ کو مکمل کر لیا ہے جبکہ پالیسی سطح پر بات چیت نگران وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی سربراہی میں پیر کو شروع ہوگی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر عملدرآمد کر لیا ہے اور امید ہے کہ آئی ایم ایف جلد ہی جائزہ مکمل کرکے اگلی قسط جاری کر دے گا۔ ماضی کی حکومتیں بھی اسی قسم کے دعوے کرتی تھیں لیکن ہر بار آئی ایم ایف کی رضا مندی میں کئی ماہ کی تاخیر ہوتی رہی ہے۔ کیا موجودہ حالات میں آئی ایم ایف پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن ہے یا مزید شرائط سامنے رکھی جا رہی ہیں؟ آئی ایم ایف کے اس معاہدے میں پانچ بنیادی مطالبے شامل تھے جن میں سے چار پر حکومت عمل کر چکی ہے البتہ ایکسٹرنل فنانس گیپ کو پورا کرنا ابھی باقی ہے۔ جولائی سے ستمبر کی سہ ماہی میں بجٹ سرپلس رہا ہے۔ ڈالر اور روپے میں انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں فرق کم ہو گیا ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ایف بی آر جولائی سے ستمبر کے دوران دو ہزار 41ارب روپے ٹیکس جمع کرنے میں کامیاب رہا ہے جو ہدف سے تین فیصد زیادہ ہے۔ اب معاملہ صرف بیرونی ادائیگیوں کا ہے جو کہ 28ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہیں جن میں سے ساڑھے چار ارب ڈالرز کا حصول باقی ہے۔ موجودہ حالات میں اس مقصد کے لیے حکومت کو کچھ مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ وہ یورو بانڈ کا اجرا نہیں کر پائے گی اور شرحِ سود زیادہ ہونے کے سبب کمرشل بینکوں سے تین ارب ڈالر کا حصول بھی مشکل ہو گا۔ اس مقصد کیلئے حکومت بیرونی مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کیلئے چین اور خلیجی دوست ممالک سے بات چیت کر رہی ہے۔ چین کیساتھ چھ سو ملین ڈالرز کے قرض پر بات چل رہی ہے جو کہ دسمبر کے آخر تک ملنے کی امید ہے۔ ممکنہ طور پر چین کے دو بینکوں سے یہ قرض ملنے کی امید ہے لیکن اس کی شرحِ سود ماضی کی نسبت زیادہ ہو سکتی ہے۔
قرضوں کے حوالے سے پاکستان کا چین پر انحصار روز بروز بڑھتا جا رہا ہے جو ملک کیلئے نقصان دہ ہے۔ پاکستان کا کل قرض تقریباً 125ارب ڈالر ہے جس میں سے تقریباً 68ارب ڈالر چین کو واجب الادا ہے۔ یعنی پاکستانی قرضوں میں 50فیصد سے زائد چینی قرض ہیں۔ چین کا پاکستان میں 2000ء سے 2021ء تک پورٹ فولیو صرف دو فیصد گرانٹس پر مشتمل رہا ہے جبکہ باقی فنانسنگ قرض کی صورت میں ہے۔ چینی قرضوں پر اوسط سود کی شرح 3.72فیصد‘ اوسط میچورٹی کی مدت 9.84سال اور رعایتی مدت 3.74سال تھی۔ پاکستان میں 2000ء سے 2021ء کے دوران سب سے زیادہ ترقیاتی فنانسنگ توانائی کے شعبے نے حاصل کی جس کا حصہ 40فیصد یا 28.4 ارب ڈالر رہا۔ توانائی کا 28.4ارب ڈالر کا پورٹ فولیو دنیا میں سب سے بڑا ہے۔ 2000ء سے 2021ء تک انتظامی لحاظ سے چینی ترقیاتی فنانسنگ کو دیکھا جائے تو 21 سالہ مدت کے دوران مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے (2013-18ء) سب سے زیادہ 36.2ارب ڈالر فنانسنگ کو راغب کیا۔ تحریک انصاف نے 19.6ارب ڈالر‘ پیپلز پارٹی نے 10.4 ارب ڈالر اور مشرف کی حکومت کے دوران 4.1 ارب ڈالر آئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں سب سے زیادہ توانائی کے شعبے میں فنانسنگ (52.8 فیصد) ہوئی جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے سب سے زیادہ حصہ(61.3فیصد) بجٹ سپورٹ کی مد میں حاصل کیا۔ 2012ء سے چین پاکستان کا واحد سب سے بڑا غیرملکی ترقیاتی فناسنگ فراہم کنندہ رہا ہے‘ جس نے 2013ء میں امریکہ کے مقابلے میں 1.6 گنا‘ 2016ء میں 7.7 گنا اور 2021ء میں 22.4 گنا زیادہ فنانسنگ کی۔2021ء تک چینی فنانسنگ سے شروع کیے گئے 82فیصد منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اور مزید 13فیصد پر کام جاری ہے۔ 50 کروڑ ڈالر سے زیادہ مالیت کے حامل 47منصوبوں میں سے زیادہ تعداد عام بجٹ سپورٹ منصوبوں کی تھی۔ اس کے بعد توانائی‘ بینکنگ اور مالیاتی خدمات کی تھی۔ فنانسنگ کے سالانہ حجم کی شرح مشرف دور میں 50کروڑ 90لاکھ ڈالرز سے بڑھ کر پی پی پی کی حکومت میں 2.1ارب ڈالرز تک پہنچ گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں یہ 7.2ارب ڈالرز سالانہ تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں یہ اوسطاً سالانہ 4.9 ارب ڈالرز رہی۔ اس وقت 68.9ارب ڈالرز کے کل 161قرضوں کیساتھ پاکستان کا پورٹ فولیو روس اور وینز ویلا کے بعد دنیا میں چین کے تیسرے سب سے بڑے غیر ملکی سطح کے قرضوں کے پورٹ فولیو پر مبنی ہے۔ 28.13ارب ڈالرز کیساتھ پاکستان کو چین کی جانب سے دیے جانے والے امدادی قرضے دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ اس کے بعد ارجنٹائن‘ ایکواڈور اور وینزویلا کا نمبر آتا ہے۔ اب آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کے لیے چین سے پھر چھ سو ملین ڈالرز کا قرض مانگ لیا گیا ہے۔
پاکستان نے جو قرض لیے ان کا شفاف استعمال بھی ایک بڑا سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے بھی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کبھی چین کے قرضوں سے نکل پائے گا؟ میرے مطابق پاکستان کا چینی قرضوں کے جال سے باہر نکلنا فی الحال ناممکن ہے۔ ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر تقریباً ساڑھے 12ارب ڈالر ہیں اور چینی واجب الادا قرض تقریباً 68 ارب ڈالر ہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے پاس چھ ٹریلین ڈالرز کے معدنی ذخائر موجود ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ان ذخائر سے ملک کا ایک ارب ڈالر قرض بھی اتارا نہیں جا سکتا۔ ایسا صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر چین کسی معاہدے کے تحت ان قرضوں کو گرانٹس میں بدل دے۔ ان شرائط میں ملکی جی ڈی پی بڑھانا اور معاشی طور پر خودمختار ہونا بنیادی شرائط ہو سکتی ہیں۔ پاکستان نے سی پیک کی شکل میں چین پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ یہ اس کا بدلہ بھی ہو سکتا ہے۔ چین سی پیک سے بھی فائدہ اٹھا رہا ہے اور قرض پر سود بھی لے رہا ہے۔ پاکستان امریکہ سے تعلقات خراب کر کے پہلے ہی چینی دوستی کی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر چین کے قرضوں کو ری شیڈول کیا جا سکتا ہے۔ ری شیڈولنگ بہتر حل ہے۔ دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ پیرس کلب کی مثال سب کے سامنے ہے لیکن اس حوالے سے چین نے ابھی تک رضا مندی ظاہر نہیں کی ہے۔ جب سری لنکا ڈیفالٹ کیا تھا تو آئی ایم ایف کی چھتری میسر ہونے کے بعد بھارت نے فوری سری لنکا کا قرض ری شڈیول کر دیا تھا لیکن چین ایک سال تک ٹال مٹول سے کام لیتا رہا جبکہ قرض بھی صرف چار سے پانچ ارب ڈالر تھا۔ کمرشل قرضوں اور آئی پی پیز پر تو چینی حکومت پاکستان سے کسی طرح کے ریلیف کی بات ہی نہیں کرے گی۔ قرضوں کی ری شیڈولنگ باہمی قرضوں پر ہوتی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے ری شیڈولنگ نہیں کرتے۔ پاکستان کے لیے یہ نیا نہیں ہے۔ پاکستان ماضی میں پیرس کلب سے قرض ری شڈول کروا چکا ہے۔ اگرچہ سی پیک کے مختلف منصوبوں میں چین اور اس کے کمرشل بینکوں کی جانب سے پاکستان کو قرضہ دیا گیا تھا تاہم اصل مسئلہ چین اور اس کے کمرشل بینکوں کی جانب سے ایکسٹرنل فنانسگ‘ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے اور زرِمبادلہ ذخائر کو بڑھانے کے لیے دیے گئے قرض ہیں۔ آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کو اس حوالے سے تشویش ہے۔ آج تک کسی ملک کو چینی قرضوں سے نکلتے نہیں دیکھا گیا۔ اگر حکومت پاکستان آج ہی اس قرض کے چنگل سے نکلنے کا ارادہ کرے تو بھی اسے شاید پچاس سال درکار ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved