مشیتِ ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرکے اپنے چار یتیم بچوں اور نوے سالہ بوڑھے سسر کے ساتھ رہنے والی بیوہ کی کیا مجال کہ وہ دم مار سکتی کیونکہ فنا ہونے والی اس دنیا کی ہر چیز اپنی مقررہ مدت پر فنا ہو جائے گی اور دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا شہنشاہ بھی رب کریم کے فیصلے کے آگے ٹک نہیں پائے گا۔ نمرود اور فرعون بھی اپنی موت کو نہ ٹال سکے اور عبرتناک موت کا نشانہ بنے۔ سیالکوٹ سے ہیڈ مرالہ کی جانب جانے والی سڑک کے بائیں کنارے پر واقع کچی بستی ماچھی کھوکھر کی ایک بیوہ کی داستان میں نے اپنے ایک کالم بعنوان ''اللہ تعالیٰ کا قرض‘‘ میں پہلے بھی لکھی تھی جس پر بہت سے لوگوں نے اس کی مدد کرنے کی حامی بھری لیکن سوائے ایک نیک دل فرد کے نہ جانے کیا وجہ بنی کہ دوسروں نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ شاید اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ اس نے جسے پسند کیا‘ اسی کو اپنے وعدے کے مطابق کسی بھی صورت میں وہ قرض لوٹانے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ اس بیوہ کا تیرہ سالہ بیٹا ماچھی کھوکھر میں ہی کسی ورکشاپ پر کام سیکھنے کے لیے جاتا تھا جہاں ہر روز اسے استاد سے بیس روپے مل جاتے تھے۔ ماں کا خواب تھا کہ اس کا یہ بیٹا چار پانچ سال استادوں کی مار کھانے کے بعد اپنی بیوہ ماں‘ ضعیف دادا اور تین بہنوں کی کفالت کے قابل ہو جائے گا۔
پھر ایک دن اس بیوہ کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ اس کی لیہ میں رہنے والی نند ایک بچی کو جنم دینے کے بعد انتقال کر گئی ہے جس کا شوہر پانچ ماہ قبل ہی انتقال کر گیا تھا۔ اس کے بوڑھے ضعیف سسر کی یہ بیوہ بیٹی لیہ سے آگے ایک چوک جو شاید کونان کہلاتا ہے‘ سے کچھ فاصلے پر واقع ٹبہ نام کی ایک آبادی میں رہتی تھی۔ یہ اطلاع ملتے ہی اُس کا باپ اور بھاوج سیالکوٹ سے لیہ جانے کے لیے نکل پڑتے ہیں کیونکہ بوڑھے باپ کے آنے پر ہی اسے دفنایا جانا تھا۔ اس وقت اس بیوہ کے تیرہ سالہ بیٹے کو بخار تھا لیکن لیہ جانا بھی ضروری تھا‘ اسے اکیلا کہاں چھوڑتی۔ اب ظاہر ہے کہ یہ سب کسی اے سی بس یا کوچ کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے‘ اس لیے عام سی بسوں میں یہ لیہ جانے کے لیے سوار ہو گئے۔ راستے میں لڑکے کی حالت بخار سے خراب ہونے لگی۔ لیہ سے ٹبہ پہنچ کر سب رونے دھونے اور تجہیز و تکفین میں لگ گئے۔ دوسرے دن جب بچے کی حالت زیادہ بگڑنے لگی تو اسے نزدیکی کسی چھوٹے سے ہسپتال لے جایا گیا جہاں پتہ چلا کہ بچے کو ڈینگی ہو چکا ہے۔ اب علاج اور ٹیسٹوں کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی‘ لیکن ان مفلسی و بے چارگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چار روز بعد اس بیوہ اور تین چھوٹی بہنوں کا سہارا بننے کے لیے صبح سے رات گئے تک ورکشاپ پر محنت اور مار کھانے والا تیرہ سالہ لڑکا بغیر علاج کے ڈینگی کا شکار ہو کر لقمۂ اجل بن گیا۔ بیوہ ماں اور ضعیف دادا کی کیا حالت ہوئی ہو گی۔ بیوہ ماں کا اکیلا بیٹا اور ضعیف دادا کی اپنے پوتے کی شکل میں مرحوم بیٹے کی آخری نشانی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منوں مٹی تلے چلی گئی۔ لیہ میں بچی کو جنم دینے کے بعد انتقال کرنے والی اس کی نند کے پہلے سے چار بیٹے ہیں اور سب سے بڑے بچے کی عمر نو سال ہے۔ اب نوزائیدہ بچی‘ اس کے یہ چار یتیم بچے‘ ماچھی کھوکھر کی بیوہ اور اس کی تین بچیاں اور بوڑھا سسر آسمان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ میری اس بیوہ سے بات ہوئی تو اس کی درد ناک اور کلیجہ چیرنے والی داستان سن کر مشیتِ ایزدی کے سامنے سر جھکاتے ہوئے کہا کہ ''اے خدا ہر فیصلہ تیرا ہمیں منظور ہے‘ سامنے تیرے کھڑا بندہ بہت مجبور ہے‘‘۔ یہ دونوں برپا ہونے والی قیامتیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایک جانب بیوہ اور تین بہنوں کا رب کریم کے بعد واحد سہارا اس کا تیرہ سالہ بیٹا ڈینگی سے لقمۂ اجل بن جاتا ہے تو دوسری جانب لیہ کے ایک ٹبہ پر رہنے والی بیوہ‘ ایک بچی کو جنم دینے کے بعد اپنے چار معصوم بیٹوں کو اکیلا چھوڑ کر موت سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ ان دونوں قیامتوں میں ہمارے رب کی کیا مصلحت ہے‘ یہ ہم میں سے کسی کو نہ تو معلوم ہے اور اور نہ ہی اس وقت ہم میں سے کوئی اس کا اندازہ کر سکتا ہے اور یقینا میرے یہ الفاظ پڑھنے والے اس کسک اوردکھ کا اندازہ نہیں کر سکیں گے کہ ایک بیوہ اپنی دو سے دس سال کی تین معصوم بیٹیوں‘ بوڑھے سسر اور مرحومہ نند کی نوزائیدہ بچی اور چار معصوم بیٹے‘ جن کی نہ تو کوئی جائیداد ہے اور نہ ہی کوئی پنشن وغیرہ کا سوال‘ کا خیال کیسے رکھے گی۔
مایویسی اور نا امیدی کفر کے قریب لے جاتی ہے‘ اس لیے مجھے رب کریم کے نازل کیے گئے قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ کے ایک ایک لفظ پر کامل ایمان کے ساتھ یقین ہے کہ اس نے ہر ذی روح کا رزق مقرر کر رکھا ہے‘ اس نے کیسے اور کہاں سے دینا ہے‘ یہ سب اس نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ جب رازق وہی خدا ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا‘ جو ہم سب کو مارنے کے بعد پھر زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے‘ تو نا امیدی کس بات کی۔ جب وہ ماں سے بھی ستر گنا زیا دہ پیار کرنے والا ہے تو پھر وہ ان آٹھ معصوم اور یتیم بچوں سے کس طرح نظریں پھیر سکتا ہے۔ جب بحیثیت مسلمان ہم سب کا ایمان اور یقین ہے کہ رب کریم کی مرضی اور اجازت کے بغیر ایک پتہ بھی حرکت میں نہیں آ سکتا تو پھر اس کے سامنے سر جھکا دینا ہی عبادت ہے۔ جس طرح اس کائنات میں لاکھوں کروڑوں بے سہارا یتیموں‘ بیوائوں‘ مفلسوں اور ناداروں تک وہ رزق پہنچاتا ہے‘ جب چرند‘ پرند اور درندوں کے لیے ان کی خوراک اور دانے پانی کا بندو بست کرتا ہے تو وہ ان آٹھ یتیم بچوں‘ ایک بیوہ اور ضعیف و نادار سسر کے لیے بھی رزق کا وسیلہ بنائے گا‘ بالکل اسی طرح جیسے پہلے بنایا تھا۔
تین چار ہفتوں سے سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی جا رہی ہے کہ فاسٹ فوڈ کی وہ ملٹی نیشنل کمپنیاں جن کا اسرائیل کے ساتھ تعلق ہے‘ ان کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اس مہم کے بعد بہت سے ملٹی نیشنل فوڈ چینز کے ریستوران ویرانی کا شکار بھی ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صرف لاہور میں ہر روز فاسٹ فوڈ کا پچاس کروڑ کا بزنس ہوتا ہے۔ یہ تو صرف فاسٹ فوڈ کی بات ہے‘ اگر بڑے بڑے ریستورانوں کی بات کریں تو وہاں دن رات لگنے والا رش دیکھ کر یہ رقم بے شک ایک ارب تک جا پہنچتی ہو گی۔ ان میں سے کسی ایک فرد نے بھی اپنے ارد گرد مشیتِ ایزدی سے یتیم ہونے والے بچوں اور بے سہار بیوائوں کا کبھی سوچا ہے؟ یقین کیجئے ایک متمول گھرانے کا کسی ہوٹل‘ ریستوران یا فاسٹ فوڈ پوائنٹ پر ایک وقت کا کھانا‘ ایک بے سہارا خاندان کے لیے مہینے بھر کی خوراک کا متبادل بن سکتا ہے۔ غریب نے تو صرف سبزی اور عام سی دال روٹی کھانی ہے۔ یہی بے سہارا اور غریب بچے جیسے ہی بڑے ہوں گے ہم سب کو ''چھوٹے‘‘ کی صورت میں ہوٹلوں‘ ورکشاپوں اور دکانوں پر جا بجا کام کرتے دکھائی دیں گے۔ بس اس وقت تک کہ جب یہ بچے بارہ تیرہ سال کی عمر تک پہنچ کر کسی ورکشاپ‘ کسی فیکٹری‘ کسی گودام کے چھوٹے نہیں بنتے‘ ان کے لیے اپنے دل کے دروازے کھول دیجئے۔ آپ انہیں سہارا دے کر تو دیکھیے‘ ان کے لیے اپنی چند تعیشات کو ترک کرکے تو دیکھیے‘ ان کے لیے اپنی باہیں کھول کر تو دیکھیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved