دنیا عجیب موڑ پر کھڑی ہے۔ امریکہ اور یورپ نے کم و بیش ایک صدی تک مل کر جو شاندار اور روک ٹوک سے پاک عالمگیر حکمرانی یقینی بنائی تھی‘ اب اس کا خاتمہ ہوتا دکھائی دینے لگا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امریکہ اور یورپ کے عالمگیر اقتدار یا سلطانی کی بساط لپیٹی جا چکی ہے۔ ہاں‘ دونوں کے لیے مختلف محاذوں پر انتہائی پریشان کن صورتحال ضرور پیدا ہو چکی ہے۔ کئی طاقتیں تیزی سے پنپ کر اب امریکہ اور یورپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہی ہیں۔ چین کی شکل میں انتہائی طاقتور حریف سامنے کھڑا ہے۔ روس بھی بچی کھچی طاقت جمع کرکے‘ لنگوٹ کَس کے میدان میں آچکا ہے۔ بھارت اگرچہ اب تک مغرب نواز ہے اور مغرب کی حاشیہ برداری کے ذریعے ہی آگے بڑھ رہا ہے تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بھی مغرب کے لیے ایک بڑے حریف ہی کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس میں دوستی حتمی و دائمی ہوتی ہے نہ دشمنی۔
امریکہ اور یورپ کے لیے سب سے مشکل فیصلہ یہ ہے کہ اب اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے صرف عسکری مہم جوئی کا سہارا لینے کی روش پر گامزن رہا جائے یا پھر نرم قوت کو بھی زحمتِ کار دی جائے۔ یورپ نے اپنی راہ بہت حد تک الگ کر لی ہے۔ وہ نرم قوت پر بھی یقین رکھتا ہے یعنی علم و فن اور تہذیب و تمدن کے ذریعے بھی آگے بڑھ رہا ہے۔ اس نے مالیاتی معاملات کے ذریعے بھی اپنی طاقت میں اضافے کی راہ ہموار کرنے کا سلسلہ شاندار انداز سے جاری رکھا ہے۔ امریکہ اس معاملے میں تنہا سا ہوگیا ہے۔ امریکی قیادت بہت کچھ جانتی اور سمجھتی ہے مگر پھر بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ کیا امریکی قیادت کو چین اور روس کی اجتماعی طاقت کا درست اندازہ نہیں؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کون یہ مانے گا کہ کمزور خطوں کی طاقت اور کمزوری کا پورا پورا حساب رکھنے والا امریکہ اپنے حریفوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہو گا؟
امریکی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کے لیے حقیقی خطرہ اگر ہے تو چین ہے۔ روس اور چند دوسرے ممالک بھی خطرے کی درجہ بندی میں ہیں تاہم ان سے امریکی برتری کو براہِ راست اور زیادہ خطرات لاحق نہیں۔ چین اپنی بھرپور معاشی قوت اور تیزی سے پنپتی ہوئی عسکری قوت کی بدولت امریکہ کے لیے حقیقی خطرے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہائی ٹیک میں چین تھوڑا پیچھے ضرور ہے مگر یہ معاملہ ایسا بگڑا ہوا نہیں کہ امریکہ سکون کا سانس لے سکے۔ امریکیوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ چینی جدید ترین ٹیکنالوجیز میں مہارت بھی حاصل کر رہے ہیں اور قومی معیشت کے ساتھ ساتھ فوج کو بھی زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ تعلیم و تربیت کے معاملے میں بھی چین ایسا کمزور نہیں کہ اسے نظر انداز کرکے سکون کا سانس لیا جائے۔ بہت سے ممالک کے نوجوان چین اور روس میں تعلیم پا رہے ہیں۔ ایسے میں امریکہ اور یورپ کے لیے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے مطمئن ہو جانا کسی بھی درجے میں کوئی بہت اچھا آپشن نہیں۔امریکہ اور یورپ کو حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کا جائزہ لینا ہے۔ چین کی طاقت اور کمزوریوں کا پورا پورا حساب رکھنا ہے۔ کیا امریکہ اور یورپ ایسا کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب ملا جُلا ہو سکتا ہے۔ یورپ کی پالیسیاں الگ ہیں۔ وہ کسی سے ٹکرانے کے موڈ میں نہیں۔ یورپ میں اندرونی سطح پر اختلافات‘ مخاصمت اور کشیدگی کا گراف خاصا بلند ہے۔ برطانیہ نے باقی یورپ سے خود کو الگ تھلگ کر رکھا ہے۔ فرانس اور جرمنی پوری قوت کے ساتھ ابھرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ ایسے میں یورپ کی سربراہی کا مسئلہ زیادہ پیچیدگی اختیار کر سکتا ہے۔ جرمنی بھی یورپ کا قائد بننا چاہتا ہے اور فرانس بھی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس حوالے سے پائی جانے والی کشیدگی باضابطہ محاذ آرائی کی شکل اختیار کر لے۔
یورپ اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود خاصی ذہانت اور مہارت سے عالمی سیاست میں اپنے لیے ایک باوقار مقام برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ آج دنیا بھر میں یورپ کے لوگوں کو بہت حد تک قابلِ قبول سمجھا جا رہا ہے۔ امریکیوں کا معاملہ بہت مختلف ہے کیونکہ ان کے مزاج سے خود کو ہم آہنگ پانے والے دنیا میں کم ہی لوگ اور خطے ہیں۔ امریکیوں نے اپنے آپ کو سات عشروں کے دوران جس بے ڈھنگے انداز سے برتا ہے اور جس طور دنیا بھر میں خرابیاں پیدا کی ہیں‘ ان کے باعث ان کے بارے میں اچھی رائے رکھنے والے کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ آج بھی دنیا بھر کے پسماندہ ممالک اور خطوں کے لوگ امریکہ میں آباد ہونے کا خواب دیکھتے ہیں تو محض معاشی امکانات کے تناظر میں۔ امریکی تہذیبی اقدار کو مثالی قرار دینے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں۔ امریکہ کھلا معاشرہ ہے اور بے لگام بھی۔ یورپ میں بہت سے معاملات اب تک سات پردوں میں ہیں۔ عام امریکی کے نزدیک زندگی صرف اس قدر ہے کہ اس سے بھرپور حظ اٹھایا جائے اور اس معاملے میں جائز و ناجائز کے پھیر میں نہ پڑا جائے۔
یورپ نے ایک زمانے تک امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ امریکی پالیسیوں کی ہم نوائی کرتے ہوئے یورپ نے اپنی بہت سی اقدار کو بھی نظر انداز کیا۔ اسکے نتیجے میں یورپ کو دنیا بھر میں حقارت کی نظر سے بھی دیکھا گیا؛ تاہم ایک ڈیڑھ عشرے کے دوران یورپ نے راہ بدل کر عسکری مہم جوئی سے توبہ کی ہے اور یوں دنیا بھر میں اس کیلئے قبولیت بڑھی ہے۔ امریکہ کی سُوئی البتہ اب تک عسکری مہم جوئی پر اٹکی ہوئی ہے۔ اس وقت بھی امریکا غزہ کی لڑائی میں اسرائیل کا ساتھ دے کر مسلم دنیا کو پیغام دے رہا ہے کہ اس کی پالیسیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے اور آج بھی اسرائیل کے مفادات اسے باقی دنیا کے مفادات سے عزیز تر ہیں!
امریکا کہاں پھنس گیا ہے؟ اس کی طاقت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ یہ عمل ابھی سست رفتار ہے مگر کسی بھی وقت بہت تیز بھی ہو سکتا ہے۔ دنیا میں ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔ ماضی کی بہت سی سپر پاورز ناقابلِ شکست دکھائی دیتی تھیں مگر پھر ان کی طاقت اچانک کم ہوئی اور ان کا وجود تاریخ کی کتابوں میں محض تذکرے کے طور پر رہ گیا۔ طاقت کے معاملات ایسے ہوتے ہیں۔ ضیاء جالندھری مرحوم نے خوب کہا ہے ؎
اُفتادِ طبیعت سے اس حال کو ہم پہنچے
شدت کی محبت میں شدت ہی کے غم پہنچے
امریکا کا معاملہ بھی تو یہی ہے۔ اس نے سپر پاور کا درجہ حاصل کرنے کے بعد یہ سمجھنا شروع کر دیا تھا کہ اب تاریخ کا سفر ختم ہو چکا ہے یعنی وہ اور یورپ مل کر جو کچھ بھی دیں گے اور کریں گے وہی دنیا بھر کے لوگوں کا حتمی مقدر ہے۔ یہ بات خیر ماننے والی ہے کہ بہت سے معاملات میں امریکہ اور یورپ نے ٹرینڈ سیٹر کا مقام پایا ہے اور دنیا کو بہت کچھ دیا ہے تاہم دنیا کو باپ کی جاگیر سمجھ لینا اور اپنے سوا سبھی کو جاہل و غیر متمدن گرداننا کسی بھی درجے میں قابلِ قبول نہیں۔ اب جبکہ چین اور دیگر حریف فیصلہ کن حد تک طاقت کے حامل ہوتے جارہے ہیں‘ امریکہ کی بدحواسی بڑھ رہی ہے۔ محض بدحواس ہونے سے کیا ہوگا؟ اس سے تو معاملات مزید بگڑیں گے۔ چین کی معاشی اور عسکری قوت کے بڑھنے سے امریکا اور یورپ کو حاصل بہت سے ایڈوانٹیج کم ہوتے جارہے ہیں۔ یورپ کی طرح امریکا کو بھی محض بدحواس رہنے سے گریز کرتے ہوئے کچھ ایسا کرنا ہوگا جس کے نتیجے میں معاملات بہتری کی طرف جائیں‘ بے جا کشیدگی اور محاذ آرائی کی راہ مسدود ہو اور عالمی سیاسی و معاشی نظام ڈھنگ سے چلانے کی راہ ہموار ہو۔ امریکہ تمام معاملات اپنے ہاتھ میں نہیں رکھ سکتا۔ اقوامِ متحدہ کو گھر کی لونڈی بناکر رکھنے سے اس کا بھی وہی حال ہوا ہے جو لیگ آف نیشنز کا ہوا تھا۔ اقوامِ متحدہ کی اوور ہالنگ ناگزیر ہو چکی ہے۔ سلامتی کونسل میں مستقل ارکان تعداد بڑھانا ہو گی یا پھر ویٹو پاور ختم کرنا ہوگا۔ بہر کیف‘ امریکی پالیسی میکرز کو بدحواسی ترک کرتے ہوئے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ چین کی راہیں بند کرنے کے بجائے مل جل کر دنیا کو چلانے کی راہیں کھلیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved