تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-10-2013

’’سِکّہ خائف الوقت‘‘

ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے۔ اگر ایسا ہو تو کوئی کیسے آگے بڑھے؟ صرف ایک صورت میں ایسا ہوسکتا ہے کہ اِنسان مُنہ پیچھے کی طرف کرلے! مگر ایسا کرنے کی ہمت کوئی کم ہی پیدا کر پاتا ہے۔ اِس وقت پاکستان اور بھارت بازارِ زر کے اُتار چڑھاؤ کے حوالے سے ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ دونوں کی کرنسی ایک قدم آگے بڑھتی ہے اور پھر دو قدم پیچھے ہٹتی ہے یا پسپا ہونا ہی پڑتا ہے۔ اگر کسی نے کبھی کوئی بَھٹّہ بیٹھتے نہیں دیکھا یا سمندر کے جھاگ کو بیٹھتے نہیں دیکھا تو غم نہ کرے، پاکستان اور بھارت کی کرنسی پر ایک طائرانہ سی نظر ڈال لے۔ جب اعتماد کا ریتیلا گھروندہ ڈھے جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ صرف ریت کا ڈھیر رہ جاتا ہے۔ ڈالر نے کچھ ایسا ’’وختا‘‘ ڈالا ہے کہ دونوں پڑوسیوں کا روپیہ اُس کے آگے سجدہ ریز ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ ڈالر پر لوگوں کا اعتماد بڑھتا جارہا ہے اور یہ سب دیکھ کر دونوں ملکوں کی کرنسیوں پر لرزہ طاری ہے۔ یعنی پاکستان اور بھارت کا سِکّہ رائج الوقت ڈالر کے سامنے ’’سِکّہ خائف الوقت‘‘ ثابت ہو رہا ہے! سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں اسٹیٹ بینک کے گورنر یاسین انور نے بازارِ زر کے معاملات کو حَسّاس قرار دیتے ہوئے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں غیر معمولی گراوٹ کی وجوہ بیان کرنے سے انکار کردیا۔ موصوف کا استدلال یہ تھا کہ اگر میڈیا میں ایک لفظ بھی غلط رپورٹ ہوگیا تو روپیہ اوپر نیچے ہوسکتا ہے۔ اُوپر تو خیر اُنہوں نے رسماً ہی کہا ہوگا، اب روپیہ صرف نیچے یعنی مزید نیچے ہوسکتا ہے! یاسین انور کہتے ہیں کہ بازارِ زر کی قیاس آرائیوں (سَٹّے بازی) کے علاوہ تیل کے ایک سودے کی رقم ادا کرنے کے باعث بھی روپے کی قدر میں گراوٹ آئی۔ یہ بھی خوب رہی۔ کیا ہم تیل خریدتے نہیں رہتے؟ اگر تیل کے کسی سودے کے بُھگتان کا اِتنا منفی اثر مُرتب ہوسکتا ہے تو روپے کی قدر میں یومیہ بُنیاد پر گراوٹ آتی رہنی چاہیے! اسٹیٹ بینک کے گورنر کا یہ بھی کہنا تھا کہ مُلک سے یومیہ ڈھائی کروڑ ڈالر کی اسمگلنگ ہو رہی ہے۔ اور یہ کہ اسمگلنگ روکنے کے لیے آئی ایم ایف سے جلد معاہدہ طے پاجائے گا۔ یاسین انور نے سب کچھ تو بیان کردیا، پھر وہ کیا تھا جسے بتانے سے انکار کیا؟ ہمارا دِل تو یہ سوچ کر کانپ اُٹھا کہ جو کچھ سامنے ہے وہ اِس قدر لرزہ خیز ہے تو پھر وہ ’’حقائق‘‘ کیسے ہیبت ناک ہوں گے جن پر اب تک پردہ پڑا ہوا ہے! سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں اسٹیٹ بینک کے حکام کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے نیا قرض لینے سے اسٹیٹ بینک کی خود مختاری متاثر نہیں ہوئی! اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ آئی ایم ایف کو پاکستان میں زرِ مبادلہ کے ذخائر کے بارے میں یومیہ، ہفتہ وار اور ماہانہ بنیاد پر باخبر رکھا جائے گا! دیکھا آپ نے؟ اِس طرح محفوظ رکھی جاتی ہے خود مختاری! جو اپنی ناکامی کو ناکامی سمجھنے کے لیے تیار نہ ہوں وہ تنزل میں بھی ترقی ڈھونڈ لیا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ قومی معیشت کے تنزل کو ’’ترقّیٔ مَعکوس‘‘ قرار دے کر بھی دِل بہلا سکتے ہیں! روپے کی قدر میں گراوٹ کسی طور حیرت انگیز نہیں۔ اپنے آپ کو مکمل طور پر امریکا کے درِ دولت سے وابستہ کرنے کا یہی نتیجہ برآمد ہونا تھا۔ روپے اور ڈالر کے درمیان چوہے بلی کا کھیل ہو رہا ہے۔ اس کھیل میں جیتنا بلی ہی کا مقدر ہے۔ روپیہ پہلے ہی چوہا ہے اور امریکا کے تابع دار حکمرانوں کی بُزدِلانہ پالیسیاں انوکھے تجربات کے ذریعے اِسے شاہ دَولہ کا چوہا بنانے پر تُلی ہوئی ہیں! کیا یہ ممکن ہے کہ چوہے کو دیکھ کر بلی دُم دباکر کونے میں دُبک جائے، بھیگی بلی بن جائے؟ آپ سوچیں گے ایسا تو خیال و خواب کی دُنیا ہی میں ممکن ہے۔ حقیقی دُنیا میں بھی ایسا ناممکن نہیں۔ کبھی آپ نے کانٹوں والا چوہا دیکھا ہے؟ اِس چوہے کو دیکھ کر بڑی سے بڑی بلی کے بھی اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے روپے کو چوہے کی طرح کچلنے، مَسلنے والے امریکی ڈالر کی بلی کے لیے کوئی بھی مضبوط کرنسی کانٹوں والے چوہے سے کم نہیں۔ پاؤنڈ، یورو، ین اور یوآن کو سامنے پاکر ڈالر سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے! اکڑنے کا ڈھونگ رچانے والوں کی یہی نفسیات ہوا کرتی ہے۔ جب تک کمزور کی گردن ہاتھ میں ہے اُس کی ہَڈّی پَسلی ایک کرتے رہو اور جب کوئی ٹَکّر کا حریف سامنے آجائے تو چُپ چاپ، پَتلی گلی سے نِکل لو! اگر یہ بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئی تو ممبئی میں بنائی جانے والی ’’بھائی لوگ‘‘ کی فلمیں دیکھیے۔ جس طرح امریکی پالیسیوں کے لیے فی زمانہ ہر طرف مشکلات ہی مشکلات ہیں بالکل اُسی طرح ڈالر کو بھی عالمی سطح پر شدید مُسابقت کا سامنا ہے۔ ترقی یافتہ معیشتیں مُنہ دے رہی ہیں۔ جاپانی ین، چینی یوآن، برطانوی پاؤنڈ اور یورو نے قدم قدم پر کانٹے بچھائے ہوئے ہیں جن سے بچ کر چلنا ڈالر کے لیے انتہائی دُشوار ہوتا جارہا ہے۔ آپ سوچیں گے امریکی ڈالر تو مضبوط ہو رہا ہے۔ آپ کا ایسا سوچنا غلط اور بے بُنیاد نہیں۔ مگر اِس بات پر بھی تو غور کیجیے کہ ڈالر صرف کمزور کرنسیوں کے مقابلے میں مضبوط ہو رہا ہے۔ ڈالر کی مضبوطی کا مَدار دراصل مشکلات میں گِھرے ہوئے ممالک کی کرنسی کے کمزور ہوتے رہنے پر ہے! ڈالر کا سارا زور صرف کمزور کرنسیوں پر چل رہا ہے۔ یعنی مرے کو مارے شاہ مَدار۔ عالمی بازارِ زر کا یہ شاہ مَدار طاقتور کرنسیوں کو اپنے مقابل پاکر جَھٹ سے شاہ دَولہ کا چوہا بن جاتا ہے! امریکی فوج اسٹریٹجک ایڈوانٹیج یقینی بنانے کے لیے افغانستان جیسی غیر موثر یا ناکام ریاستوں پر زور آزمائی کا آپشن استعمال کرتی ہے اور اُس کی کرنسی صرف کمزور کرنسیوں کے سامنے زورِ بازو دِکھاتی اور آزماتی ہے! عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے اداروں کے ذریعے کمزور کرنسیوں کو مزید کمزور کرنے کا عمل جاری ہے تاکہ ڈالر کی پتنگ کم از کم تھکے ہارے مُلکوں کے معاشی آسمان پر تو اونچی اُڑتی رہے! امریکا اب بھی سُپر پاور ہے مگر یہ معاملہ مگر مچھ کا سا ہے۔ اُوپر سے جس قدر سخت، نیچے سے اُسی قدر نرم اور نازک۔ کسی طور نیچے جاکر حملہ کیجیے تو مگر مچھ کچھ نہیں۔ طاقت کے عالمی جنگل میں امریکا بہت حد تک ڈائنوسار کی سی حیثیت حاصل کرتا جارہا ہے۔ ڈائنوسار اپنے غیر معمولی جُثّے کے لیے انتہائی ناکافی دماغ کے باعث ناپید ہوئے۔ امریکا کے پاس دماغ تو خیر اب تک سلامت ہے مگر وہ اُس کے ذریعے صرف قوت کو بروئے کار لارہا ہے، دانش کو زحمتِ کار نہیں دے رہا! بازارِ زر اصل میں بازارِ خَر ہے۔ جس کرنسی میں تیز دوڑنے کی طاقت اور ہمت نہیں ہوتی وہ گھوڑوں کے بیچ گدھے کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ اور پھر اُس کے ساتھ سُلوک بھی وہی کیا جاتا ہے جو گدھوں کے لیے مختص ہے۔ اُنہیں دوسروں کا بوجھ بھی اُٹھانا پڑتا ہے۔ برِ صغیر کے دو بڑے ممالک کی کرنسیاں وقت اور حالات سے ڈری، سہمی ہوئی ہیں۔ جتنا ڈریں گی، حالات اُتنا ہی ڈرائیں گے۔ آپشن صرف یہ رہ گیا ہے کہ اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لیکر اُن سے نجات حاصل کی جائے۔ اِسی صورت پاکستان اور بھارت کے سِکّہ رائج الوقت کے ماتھے پر سے ’’سِکّہ خائف الوقت‘‘ کا ’’جُھومر‘‘ ہٹایا جاسکے گا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved