کسی بھی دور کی زندگی چاہے جتنی بھی ہنگامہ خیز و ہنگامہ پرور ہو، ہر انسان کو ایسے مواقع ضرور عطا کرتی ہے جب وہ اپنے لیے تھوڑی بہت گنجائش پیدا کر سکتا ہے۔ اپنے لیے گنجائش؟ یعنی سکون کے لمحات اور کچھ نیا سیکھنے اور کرنے کا موقع۔ ہر عہد میں زندگی بھر جدوجہد کے دوران اور آخر میں فراغت کے لمحات بھی انسان کو میسر ہوتے رہے ہیں۔ جن میں شعور ہوتا ہے وہ بھری جوانی میں غیر معمولی معاشی جدوجہد کے دوران بھی اپنے لیے تھوڑی بہت فراغت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہاں‘ عمومی سطح پر بیشتر کا یہ حال ہے کہ جب معاشی جدوجہد میں مصروف ہوتے ہیں تب فراغت کو اپنے لیے کم و بیش توہین کے زمرے میں رکھتے ہیں۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور کِلّے کی طرح گڑ گیا ہے کہ فراغت میسر ہوگی تو صرف بڑھاپے میں۔ فراغت کا بنیادی طور پر بڑھاپے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کسی بھی وقت یقینی بنائی جاسکتی ہے اور اِس سے استفادہ کرتے ہوئے زندگی کی رنگینی بھی بڑھائی جاسکتی ہے۔
کیا فراغت ایسی کیفیت ہے جس سے دامن بچایا اور چھڑایا جائے؟ کیا فارغ بیٹھنا ذہن کے لیے انتہائی خطرناک ہے؟ کیا یہ ناگزیر ہے کہ انسان ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتا رہے، اپنے آپ کو مصروف رکھے؟ کیا یہ تصور حقیقت پر مبنی ہے کہ فارغ ذہن ڈھنگ سے نہیں سوچ سکتا؟ دنیا بھر میں یہ تصور عام ہوچکا ہے کہ انسان کو فارغ نہیں بیٹھنا چاہیے۔ یہ تصور عام کرنے میں بہت سے عوامل نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ فقیدالمثال تیزی سے عبارت ہے۔ ہر طرف صرف تیزی دکھائی دے رہی ہے۔ بجا و بے جا تیزی کو لوگوں نے قبول کرلیا ہے۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ ہر وقت تیزی دکھانے کو زندگی کا بنیادی مقصد سمجھ بیٹھے ہیں۔ سکون سے کام کرنے والوں کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ پُرسکون انداز سے کام کرنے والوں کے بارے میں ایک بنیادی تصور یہ ہے کہ اُن میں کچھ کرنے، آگے بڑھنے کی لگن اور جستجو نہیں۔ ایسا نہیں ہے! دوسروں سے کچھ نہ کچھ زیادہ کرنے کی لگن تو ہر انسان میں کسی نہ کسی حد تک ہوتی ہی ہے۔ لازم نہیں کہ زندگی کو زیادہ بامقصد اور بارآور بنانے کے لیے انسان ہر وقت تیزی کا مظاہرہ کرتا رہے۔ اگر کسی نے اچھی تربیت پائی ہو، زندگی بسر کرنے کے طریقوں سے متعلق شعور پروان چڑھانے میں اُس کی مدد کی گئی ہو تو وہ بڑی عمر میں ڈھنگ سے کام کرتا ہے، عملی زندگی کے تقاضوں کو عمدگی سے نبھاتے ہوئے ایسی طرزِ زندگی اختیار کرتا ہے جس میں اُس کے لیے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ والدین اور خاندان کے بزرگ مل کر بچوں کی بہتر تربیت پر متوجہ ہوں تو وہ عملی زندگی میں بے جا تیزی یا عجلت پسندی کا شکار نہیں ہوتے۔
کبھی آپ نے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ تمام ترقی یافتہ معاشروں میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ انسان کو سال میں کم از ایک بار اِتنا وقت ملنا چاہیے کہ وہ معاشی جدوجہد اور معمولات سے لبریز زندگی سے کنارہ کش ہوتے ہوئے کچھ ایسا کرے جس سے ذہن اور جسم‘ دونوں کی توانائی بحال ہو؟ کامیاب اور خوشحال معاشروں میں سالانہ تعطیلات کا کلچر انتہائی نمایاں ہے۔ عام آدمی سال میں ایک بار ایک آدھ ماہ کے لیے گھر چھوڑتا ہے۔ وہ اہلِ خانہ یا دوستوں کے ساتھ مل کر یہ ایک ماہ اِس طور گزارتا ہے کہ معاشی جدوجہد دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ یہ مکمل فراغت کے لمحات صرف اِس لیے ہوتے ہیں کہ انسان معمولاتِ زندگی سے دور رہتے ہوئے دوبارہ بھرپور انداز سے کام کرنے کے لیے درکار توانائی بحال کرنے میں کامیاب ہو۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب کوئی تعطیلات بھرپور طریقے سے گزار کر دفتر یا ورک پلیس کی طرف پلٹتا ہے تو اُس کے دل و دماغ کا کچھ اور ہی عالم ہوتا ہے۔
حقیقی فراغت یہ ہوتی ہے کہ انسان کے ذہن پر کسی بھی قسم کا دباؤ نہ ہو۔ کام کاج کی فکر لاحق رہے تو تعطیلات کا لطف جاتا رہتا ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں میں کارپوریٹ کلچر کے فروغ کے ذریعے دوسری بہت سی دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا ہے کہ انسان جب سالانہ تعطیلات گزار رہا ہو تو اُسے کام کاج کے بارے میں سوچنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔ عام آدمی بھی اس نکتے کو سمجھتا ہے کہ جب تفریح کی جا رہی ہو تو صرف تفریح ہی کی جانی چاہیے۔ سالانہ تعطیلات بھرپور انداز سے گزارنا اس لیے لازم ہو جاتا ہے کہ سال بھر بدن توڑ محنت کی ہوئی ہوتی ہے۔ ہفتہ وار تعطیل بھی فراغت دیتی ہے؛ تاہم اس کا دورانیہ کم ہوتا ہے۔ لوگ سال بھر محنت کرتے کرتے انتہائی نوعیت کی تھکن سے دوچار ہوتے ہیں اور سالانہ تعطیلات کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے فراغت کے لمحات ناگزیر ہیں۔ زندگی آرام کرنے کے لیے نہیں ہوتی مگر خیر‘ یہ محض کام کرنے کے لیے بھی نہیں ہوتی۔ کامیاب وہی رہتے ہیں جو کام اور آرام میں توازن برقرار رکھتے ہیں۔ انسان صرف کام کرتا رہے تو زندگی سے بہت کچھ رخصت ہو جاتا ہے۔ اِسی طور اگر کوئی محض آرام کو ترجیح دے تب بھی بہت کچھ زندگی سے نکل جاتا ہے۔ زبردستی کی تیزی بھی کسی کام کی نہیں اور بے جا سستی بھی انسان کو مار دیتی ہے۔ بھرپور معاشی جدوجہد کے بعد تھوڑا سا آرام لازم ہے۔ ہفتہ وار تعطیلات فراغت کے چند ہی لمحات عطا کرتی ہیں۔ ایسے میں انسان صرف آرام کرسکتا ہے، اِس سے زیادہ کچھ کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ترقی پذیر اور پسماندہ معاشروں میں ہفتہ وار تعطیل بالعموم کسی کام کی نہیں ہوتی کیونکہ گھر کا چولھا جلتا رکھنے کی خاطر بھرپور معاشی جدوجہد میں مصروف انسان کام پر نہ بھی گیا ہو تو کسی نہ کسی کام ہی میں الجھا رہتا ہے۔ پسماندہ معاشروں میں زندگی بسر کرنے کا طریق ہی کچھ ایسا ہے کہ ہفتہ بھر کام کرنے والوں کو تعطیل کے دن بھی آرام نہیں ملتا۔ اِس کے نتیجے میں تھکن ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔
ہمارے معاشرے میں کام کا کلچر عجیب خصوصیات کا حامل ہے۔ لوگ ہفتہ بھر کام بھی کرتے ہیں اور بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ بھی نہیں کر پاتے۔ کام کے اوقات میں مقامِ کار پر موجود رہنے کا مطلب کام کرنا نہیں ہے۔ آجروں کی ذہنیت یہ ہے کہ اجیر ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہے۔ اُس کے نزدیک یہ بھی کام ہی کی ایک شکل ہے! دنیا بھر میں آجر اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اجیر کہیں بھی ہو، بس کام کرے، مطلوب نتائج دے۔ ہمارے ہاں نتائج سے زیادہ اوقاتِ کار کی پابندی اور باقاعدگی سے کام پر آنے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ نتائج کو ثانوی حیثیت بھی نہیں ملتی۔ کوئی اگر ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے کام پر آئے؛ تاہم وقت پر آنے والوں سے دُگنا کام کرے تب بھی اُس کی کارکردگی کو سراہنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ ستائش اُن کے لیے ہے جو اوقاتِ کار کی پابندی کریں، بس۔ یہی سبب ہے کہ لوگ کام بے دِلی سے کرتے ہیں اور فراغت کے لمحات میں بھی اپنی توانائی بحال کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ فراغت کی اہمیت کو سمجھنا بھی لازم ہے۔ زندگی ہم سے مشقّت کی طالب نہیں ہوتی۔ وقتاً فوقتاً میسّر ہونے والی فراغت اصلاً اس لیے ہوتی ہے کہ ہم اپنی توانائی بحال کریں اور کچھ سوچیں۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے سوچنا لازم ہے۔ ہر معاملے کی طرح پوری زندگی کے لیے ہمارے پاس جامع گیم پلان ہونا چاہیے۔ اِس گیم پلان میں مختلف ناموافق باتوں کو جھیلنے کی گنجائش ہونی چاہیے۔ سب کچھ ہماری مرضی کا نہیں ہوسکتا۔ ایسے میں لازم ہے کہ ہم چند ایک ناخوش گوار واقعات کو ہضم کرنے کے لیے تیار رہیں۔
بہت سوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد شدید الجھن محسوس کرتے ہیں۔ یہ الجھن خواہ مخواہ ہوتی ہے۔ قدرت نے اچھی ملازمت کے بعد فراغت کے لمحات بخشے ہوں اور کوئی مالی الجھن درپیش نہ ہو تو زندگی کو زیادہ معیاری اور بارآور بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کی فراغت اصلاً اس لیے ہوتی ہے کہ معاشی جدوجہد کے دوران جو کچھ نہیں کیا جاسکا تھا وہ اب کرلیا جائے۔ سوال سوچ کا ہے۔ فراغت کو بوجھ نہیں بلکہ نعمت سمجھ کر قبول کرنا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved