مسلم لیگ (ن) کا وفد سندھ میں سیاسی ملاقاتوں میں مصروف ہے۔ ان ملاقاتوں میں مسلم لیگ (ن)‘ جمعیت علمائے اسلام‘ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کو ایک پیج پر دیکھا جا سکتا ہے۔ سندھ میں گرینڈ الائنس تشکیل دینے کے لیے متوقع اتحادیوں کے درمیان مشاورتی عمل جاری ہے۔ جے یو آئی کے راشد سومرو سندھ میں 30نومبر کو سیاسی جلسہ میں میاں نواز شریف‘ مریم نواز اور میاں شہباز شریف کی شرکت کے متمنی ہیں۔ اس حوالے سے انہیں دعوت بھی دی جا چکی ہے۔ لیگی وفد نے پیر پگارا سے ملاقات میں میاں نواز شریف کی جانب سے خیر سگالی اور مسلم لیگ کے تمام ڈھڑوں میں اتحاد کی خواہش کا پیغام پہنچایا ہے۔ لیگی وفد نے کراچی میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی ہے۔ ابتدائی نوعیت کی سیاسی ملاقاتوں میں طے پانے والے معاملات کی تفصیلات تو سامنے نہیں آ سکیں‘ البتہ اتنا ضرور واضح ہو گیا ہے کہ یہ اتحاد سندھ کی بڑی پارٹی کے خلاف قائم ہو رہا ہے۔ کل کے اتحادی آج کے حریف ہیں‘ شاید یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ ہر جماعت اپنے منشور اور ایجنڈے کے ساتھ انتخابی میدان میں اترے۔ اگر پی ڈی ایم میں شامل سبھی جماعتیں عام انتخابات میں بھی اتحادی رہتیں تو انتخابات کا بنیادی مقصد ختم ہو جاتا۔ لیگی قیادت سندھ میں سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہے جبکہ میاں نواز شریف مریم نواز اور میاں شہباز شریف کے ہمراہ 14نومبر کو بلوچستان کا دورہ کریں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان کی قدآور سیاسی شخصیات کی میاں نواز شریف سے ملاقات کے وقت مسلم لیگ (ن) میں شمولیت متوقع ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاہدہ طے پانے کا بھی امکان ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اب تک کی سیاسی حکمت عملی اگرچہ ملاقاتوں تک محدود ہے لیکن کم از کم ان ملاقاتوں سے سیاسی ماحول پیدا ہوا ہے۔ اگلے مرحلے میں سیاسی جلسے اور انتخابی ماحول دیکھنے کو ملے گا۔ ملک کے موجودہ سکیورٹی حالات محدود انتخابی مہم کی ایک وجہ ہیں۔ سیاسی جماعتیں اس اہم ایشو کا ادراک کر رہی ہیں تو یہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ پورے ملک میں سیاسی جلسوں بالخصوص گلی محلے کی کارنر میٹنگز اور سیاسی سرگرمیوں میں سکیورٹی فراہم کرنا آسان کام نہیں ہے‘ سو تمام سیاسی جماعتوں کو صورتحال کے پیش نظر انتخابی مہم کی سٹریٹجی تبدیل کرنا ہو گی۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سکیورٹی چیلنجز کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور سکیورٹی اہلکار مسلسل شدت پسند عناصر کا نشانہ ہیں۔ پولیس اہلکاروں و سکیورٹی فورسز پر مسلسل حملے تشویش ناک ہیں۔
اس بار عام انتخابات کی تیاریاں ماضی سے اس حوالے سے مختلف ہیں کہ اس بار عدم برداشت کے مظاہر کم دیکھنے کو ملیں گے۔ اگر ایک جماعت کی طرف سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر تحفظات اور الزام تراشی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے تو دوسری جماعت خاموش ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں ایک جماعت کے لیڈر کی طرف سے جو لب و لہجہ اختیار کیا گیا تھا‘ قومی سطح کے لیڈر کو وہ زیب نہیں دیتا۔ نو مئی کے واقعات پیش آنے سے پہلے تک اس تلخی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا اور آئندہ انتخابات کے متشدد ہونے کے قوی خدشات موجود تھے۔ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے سے جو تحفظات ہیں‘ مناسب انداز سے اس کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ ہونا بھی یہی چاہیے مگر اچھی بات یہ ہے کہ گریبان پکڑنے کی باتیں نہیں ہو رہی ہیں۔ پختونخوا میں نگران وزیراعلیٰ اعظم خان کے وفات پا جانے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر اگرچہ سابق وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے جسٹس ریٹائرڈ ارشد حسین کو نیا وزیراعلیٰ مقرر کرکے یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے کر لیا گیا ہے‘ تاہم پی ٹی آئی اور عوامی نیشنل پارٹی نے اس تقرری پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں تو نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کے حوالے سے تو آئین واضح ہے مگر نگران وزیراعلیٰ کی وفات کی صورت میں آئین خاموش ہے‘ اس لیے اس حوالے سے قانونی ماہرین کی آرا بھی مختلف ہیں۔ ظاہر ہے صوبے کو وزیراعلیٰ اور کابینہ کے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا‘ اسی کے پیش نظر سابق وزیراعلیٰ محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے گورنر کے خط کی روشنی میں باہمی مشاورت سے نئے وزیراعلیٰ کی تقرری کی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی نے عدالت جانے کا عندیہ دیا ہے جس سے صوبے میں نیا محاذ کھل جائے گا۔
سیاسی جماعتیں انتخابی مہم کا آغاز کر چکی ہیں مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ عوام کے سامنے کیا پیش کریں گی؟ عوام فوری ریلیف چاہتے ہیں جبکہ کسی جماعت کے پاس عوام کو فوری ریلیف دینے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ نگران حکومت نے جو انتظامی بندوبست کیا تھا‘ اس کے کچھ مثبت اثرات مرتب ہوئے تھے۔ لیکن سٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ اضافہ 24کروڑ عوام کے مسائل کا حل نہیں ہے کیونکہ ڈالر کی قیمت میں دوبارہ اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف وفد نے حالیہ دورہ میں 10روزہ تکنیکی سطح کے مذاکرات میں عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ مذاکرات میں کامیابی کی صورت میں ہی 71کروڑ ڈالر کی قسط جاری ہو سکے گی۔ اگر آئی ایم ایف نے مزید سخت شرائط رکھ دیں‘ جس کے قوی امکانات ہیں‘ تو حکومت کے لیے انہیں پورا کرنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ آئی ایم ایف کی ایما پر عوام پر پہلے ہی اضافی بوجھ ڈالا جا چکا ہے۔ اتحادی حکومت میں شامل جماعتیں لاکھ تسلی دیں کہ وہ تو پی ٹی آئی حکومت کا ڈیمج کنٹرول کر رہی تھیں مگر عوام کی غالب اکثریت اتحادی حکومت کو ہی مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیتی ہے کیونکہ عوام سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ چند ماہ مشکل ہوں گے‘ پھر انہیں ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا۔ لیکن اب یہ مشکلات عوام کی زندگی کا مستقل حصہ بن چکی ہیں‘ اس لیے تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم میں بہرصورت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آئی ایم ایف جو قرض دیتا ہے اسے کڑی شرائط عائد کرکے مختصر مدت میں وصول کرتا ہے‘ قطع نظر اس کے کہ عوام اس بوجھ کے متحمل ہو سکتے ہیں یا نہیں؟ دوسری طرف چین ہے جو پاکستان میں سرمایہ کاری کو فروغ دے رہا ہے۔ اگر ہم اس راستے پر چلتے رہے تو بہت جلد خود کفیل ہو جائیں گے۔ چین پاکستان کو نہایت آسان شرائط پر قرض دیتا ہے اور جب ہم ادائیگی سے قاصر ہوتے ہیں تو اسے با آسانی ری شیڈول کرا لیتے ہیں‘ اس کے برعکس عالمی مالیاتی ادارہ‘ جس کے پشت پناہ مغربی ممالک ہیں‘ ہمیں آڑے ہاتھو ں لیتا ہے۔ مغربی ممالک پاکستان اور چین کے بڑھتے تعلقات بالخصوص سی پیک اور اس کے نتیجے میں سرمایہ کاری سے خائف ہیں‘ اس لیے چین کے خلاف حقائق کے برعکس پروپیگنڈا کی باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے جسے سمجھنے اور ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ جونہی سی پیک پر کام کی رفتار تیز ہوتی ہے‘ اس پروپیگنڈا مہم میں بھی تیزی آ جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں اس مہم کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا تھا جب سی پیک پر کام کی رفتار نہایت سست ہو گئی تھی۔ چین قرض دیتا ہے مگر اقتصادی ترقی کے لیے تاکہ ترقی پذیر ممالک آگے چل کر خود کفیل ہو سکیں جبکہ مغربی ممالک قرض دے کر اپنا محتاج بنائے رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ سیاسی جماعتیں اب جبکہ انتخابی مہم کے لیے عوام کی عدالت میں جا رہی ہیں تو انہیں عالمی مالیاتی ادارے سے نجات کا ٹھوس پروگرام بھی دینا چاہیے تاکہ عوام کو یقین ہو جائے کہ واقعی ان کی مشکلات ختم ہونے والی ہیں۔ ووٹ دینے اور ووٹ لینے کا ٹرینڈ تبدیل ہو چکا ہے‘ اب عوام اپنے نمائندوں سے سوال کرنے لگے ہیں‘ سو جس جماعت کے پاس بہتر معاشی پروگرام ہو گا‘ عام انتخابات میں اسی کا پلڑا بھاری رہے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved