ہر وہ چیز جو وزن کمیت کے مطابق تول کر دی جائے‘ اس کے لیے ترازو کا استعمال کیا جاتا ہے؛ تاہم ہمارے ہاں ترازو صرف دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے یعنی کسی دکان یا منڈی کے حوالے سے یا انصاف کے حوالے سے۔ مگر یہ درست نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو ہر قسم کے لین دین میں اختیار کیا جانے والا رویہ اور طریقہ کار بھی ایک ترازو ہی ہوتا ہے۔ یہ ترازو اپنے اردگرد‘ گھر بار‘ دفاتر‘ دکانوں‘ فیکٹریوں اور کارخانوں سمیت ہر تجارتی ادارے میں کارفرما نظر آتا ہے، حتیٰ کہ منبر و محراب پر بیٹھے واعظ سے لے کر سکول‘ کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ اور پروفیسرز تک اور ریاست کے ہر عاقل و بالغ شہری کے ہاتھوں میں بھی ایک اَن دیکھا ترازو ہوتا ہے۔ اگر اپنے روز مرہ کے کاموں اور عائد کردہ فرائض میں کوئی جان بوجھ کر غفلت اور بددیانتی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے میزان کو اپنی یا کسی دوسرے کی مرضی اور مفاد کے لیے تابع کر لیا ہے اور ترازو سے تولتے ہوئے انصاف سے کام نہیں لیا۔
سورۃ الرحمن کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے اپنی لاتعداد نعمتوں میں سے چند کو گنوانے کے بعد جو پہلی بات ذکر فرمائی وہ یہ کہ: ''اسی نے آسمان کو بلند کیا اور میزانِ عدل قائم کر دی۔ کہ اس میزان میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو اور تول کم مت کرو‘‘ (آیات 7 تا 9)۔ شارحین بیان کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کو گنوانے کے بعد جس پہلی بات کا حکم دیا وہ میزان میں حد اعتدال کا حکم ہے کہ اپنا ہر‘ ہر معاملہ انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو‘ اور تول کم مت کرو۔ قرآن کریم میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کا تفصیل کے ساتھ ذکر آیا ہے کہ شرک اور دیگر بہت سی بداخلاقیوں اور نافرمانیوں کے علاوہ جس قبیح عادت نے خصوصیت کے ساتھ ان میں رواج پا لیا تھا وہ خرید و فروخت میں دوسرے کو اس کے حق سے کم دینا اور اپنے لیے حق سے زیادہ لینا تھا۔ ان کے تمام معاملات میں کھوٹ اور دھوکا دہی پائی جاتی تھی۔ دولت و ثروت کی فراوانی‘ زمین‘ کھیتی اور باغات کی زرخیزی اور شادابی نے ان کو اس قدر مغرور بنا دیا تھا کہ وہ تمام دھن دولت کو اپنی ذاتی میراث اور اپنا خاندانی ہنر کا ثمر سمجھ بیٹھے تھے۔ ایک ساعت کے لیے بھی ان کے دل میں یہ خیال نہیں گزرتا تھا کہ یہ سب کچھ خدا کی عطا و بخشش ہے۔ بے فکری اور معاشی آسودگی نے ان میں طرح طرح کی بداخلاقیاں اور قسم قسم کے عیب پیدا کر دیے تھے۔ حضرت شعیب نے اس قوم کو راہِ راست پر لانے کے لیے توحید کے ساتھ اس بات پر بھی خوب زور دیا کہ خرید و فر وخت اور معاملات کے وقت ہمیشہ یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ جو جس کا حق ہے‘ وہ پورا پورا اس کو ادا کیا جائے۔ دنیاوی معاملات میں ناانصافی ہی ایک ایسی بنیاد ہے جو ہر قسم کے ظلم‘ اخلاقی خرابیوں اور بد اعمالیوں کا باعث بنتی ہے۔
آپ جس گلی‘ محلے یا جس بھی سوسائٹی میں رہتے ہیں‘ اپنے اردگرد رہنے والوں کے ساتھ آپ کا سلوک بھی ایک ترازو ہے۔ ہاں‘ یہ ہو سکتا ہے علاقے میں کسی ایک یا دو لوگوں کے ساتھ آپ کی گاڑھی چھنتی ہو اور کسی کے ساتھ بس واجبی سا تعلق ہو لیکن اگر کسی مسئلے پر محلے‘ بلاک یا سوسائٹی کے کچھ لوگوں میں اختلافات پیدا ہو جائیں یا کسی جانب سے کوئی زیا دتی کی شکایت آ جائے تواس کیلئے اگر یہ دیکھ اور یہ سوچ کر اپنی رائے قائم کی جائے یا گواہی دی جائے کہ ایک فریق کے ساتھ رشتہ داری اور بھائی چارہ ہے تو یہ طرزِ عمل بھی ترازو اور تول میں ڈنڈی مارنے کے مترادف ہے کیونکہ قرآن پاک میں فرمانِ الٰہی ہے کہ ''اے ایمان والو! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے‘‘ (المائدہ: 8)۔ اگر ہمارے سامنے ایک فریق صریح غلطی پر ہو لیکن دل اس شش و پنج کا شکار ہو جائے کہ اب کیا کروں‘ بات تو غلط ہے لیکن جس کی غلطی اور خطا ہے‘ وہ میرا ہمسایہ ہے یا یہی وہ شخص ہے جس سے میری گاڑھی چھنتی ہے اور دوسرا فریق‘ جو اگرچہ سچ اور حق پر ہے مگر اس سے کبھی سلام دعا کے علاوہ کوئی تعلق ہی نہیں رہا‘ ایسی صورت میں مجھے اپنے دوست ہی کا ساتھ دینا چاہیے۔ اگر اس قسم کی صورتحال میں آپ کے فیصلے یا رائے سمیت انصاف کا ترازو اس جانب جھکے گا جس سے یاری دوستی ہے تو یہ تول میں ڈنڈی مارنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔ گویا ہم نے رب کریم کے فرمان کو نہیں بلکہ زیادتی کے کاموں میں اپنی ذاتی دوستی یا تعلق یا پھر اپنے کسی غصے یا عناد اور بدلے کو سامنے رکھ لیا۔ اگر اپنے ذاتی انتقام‘ کسی پرانی بات کا بدلہ لینے یا کسی شخص کی اٹھان کو اپنی چودھراہٹ کیلئے خطرہ سمجھتے ہوئے ایسے شخص سے انتقام لیا تو یہ سراسر بے انصافی بلکہ ظلم اور زیادتی ہے۔ ویسے بھی مقابلہ اس وقت ہوتا ہے جب دونوں فریق میدان میں ہوں‘ اگر ایک فریق مسلح اور دوسرا خالی ہاتھ ہو تو یہ مردوں کے شایانِ شان نہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا وہ مشہور واقعہ ہر مسلمان کیلئے ایک سبق ہے کہ جب انہوں نے ایک معرکہ میں اپنے مقابل کافر کے گرا کر زیر کر لیا اور پھر تلوار کے وار سے اس کا کام تمام کرنا چاہا تو اس نے ان کے منہ پر تھوکنے کی جسارت کر دی۔ حضرت علیؓ اس کے سینے سے یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ اگر اب میں نے تمہیں قتل کیا تو اس میں ذاتی غصہ اور انتقام بھی شامل ہو گا جو کسی طور جہاد نہیں ہے۔ ہمارے دلوں کے اندر کیا ہے‘ یہ یقینا خدا کے علم میں ہوتا ہے۔ ہمارے ارادے اور نیتیں‘ سب اس پر عیاں ہیں۔ ہمارا ہر قدم‘ ہر عمل اس کے سامنے ہے۔ رب کریم کا کیمرہ ہماری ایک ایک حرکت پر نظر رکھ رہا ہے۔ آج کل جگہ جگہ لگائے گئے کیمروں کے اردگرد لکھا نظر آتا ہے کہ ''خبردار! کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے‘‘۔ یہ کیمرے تو اکثر خراب بھی ہو جاتے ہیں اور ان کے رزلٹ بھی دیر پا نہیں رہتے، ایک خاص مدت کے بعد تمام ریکارڈ شدہ واقعات ڈیلیٹ ہو جاتے ہیں لیکن اللہ پاک کے کیمرے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہیں۔ ان میں انسان کی نہ صرف ہر حرکت ریکارڈ ہو رہی ہے بلکہ اس کی نیت بھی عیاں ہے۔
جس طرح انصاف یا ناپ تول کیلئے ترازو کے پلڑے برابر ہونے چاہئیں‘ بالکل اسی طرح آج کے معاشرے میں انسان کے لیے اپنے حکمرانوں کا انتخاب بھی ترازو سے تولنے کے مترادف ہے۔ پولنگ بوتھ میں ہاتھ میں موجود ووٹ بھی ایک ترازو ہوتا ہے اور اس ترازو میں عوام نے فرداً فرداً انتخاب میں حصہ لینے والوں کو تولنا ہوتا ہے کہ کون اچھا ہے اور کون برا؟ کس کے ترازو میں بددیانتی‘ طمع‘ لالچ‘ حرص‘ اقربا پروری اور لوٹ مار کے اعمال زیادہ ہیں اور کس کے پلڑے میں کم یا نہ ہونے کے برابر۔ اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ عمومی طور پر دونوں امیدوار‘ یا جتنے بھی لوگ الیکشن میں حصہ لے رہے ہوتے ہیں‘ سبھی ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہوتے ہیں‘ ایسے میں کیا کیا جائے تو اس کا جواب سادہ سا ہے آپ کا انتخاب ہونا چاہیے ''دو گندوں میں گندا کم‘‘۔ اگر ہم ووٹ پر تکڑی کا جھکائو ایسی جانب کر دیتے ہیں جو کسی نرمی یا رعایت کا مستحق نہیں تو یہ بھی میزان اور ترازو کے غلط اور ناجائز استعمال میں آ ئے گا کیونکہ آپ کے غلط فیصلے سے اگر ایسے لوگ آپ کے نمائندے بن جائیں جو اس قابل نہیں تو اس ناپ تول سے کل کو خدانخواستہ نسلیں اور آبادیاں بر باد ہونے کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ووٹ کا استعمال اگر کسی لالچ‘ طمع اور حرص کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے تو سمجھ لیجئے کہ آپ نے انصاف کی کرسی یا ترازو کا درست استعمال نہیں کیا۔ کم تولنا‘ جیسے پہلے بتایا کہ ریا ست اور قرآن کے واضح پیغام کے منافی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آج یہ ترازو کسی کو دکھائی نہ دیتا ہو لیکن عنقریب ہر انسان کو اس ترازو کا حساب دینا ہو گا اور روزِ قیامت عدل کے میزان میں انسان کے اعمال رکھ کر ان کا بدلہ دیا جائے گا۔ اس میزان میں ذرہ برابر نیکی اور ذرہ برابر برائی کا بھی پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کے ساتھ کوئی ظلم اور زیادتی نہ ہو گی۔ اس لیے زندگی کے ہر معاملے میں‘ ہر فیصلے میں اس ترازو کو ملحوظ رکھنا ہو گا اور ذاتی فائدے یا کسی خوف کی وجہ سے دوسرے کے حق میں ڈنڈی مارتے ہوئے ہزار مرتبہ سوچنا ہو گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved