پاکستان کی دفاعی اور خارجہ پالیسی کا مقصد ملک کی آزادی‘ علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا تحفظ ہے تاکہ حکومت قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی اور ملکی سیاسی اور اقتصادی ترجیحات کو تشکیل دے سکے۔ یہ بیرونی فوجی‘ اقتصادی اور سفارتی دباؤ کا مقابلہ کرتی اور حکومت کے لیے پالیسی اختیارات کو بڑھاتی ہے۔
بیرونی سلامتی پاکستان کی سلامتی پالیسی کی اہم خصوصیت رہی ہے ‘ اور یہ سلسلہ اگست 1947ء میں آزادی کے حصول کے بعد کے دنوں سے شروع ہوتاہے۔ بھارتی قوم پرستی ‘ کانگریس پارٹی جس کی وکالت کرتی تھی اور آل انڈیا مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ نے کانگریس پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان بڑے اختلافات پیدا کیے جو آزادی کے بعد کے دور میں ظاہر ہوتے رہے۔برطانوی ہندوستان میں ایک علیحدہ وطن کے حقدار کے طور پر مسلمانوں کا تصور برطانوی ہندوستانی سیاست میں کانگریس پارٹی کی برتری اور آزادی کے بعد کے دور میں جنوبی ایشیا میں بھارتی عظمت کے تصور کی نفی تھی۔ 1947ء کے فرقہ وارانہ فسادات اور بھارت اور پاکستان کے درمیان لوگوں کی دو طرفہ نقل و حرکت نے دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد میں اضافہ کیا۔جب پاکستان اپنا ریاستی نظام قائم کر رہا تھا تو بہت سے اعلیٰ بھارتی رہنماؤں نے کھل کر پاکستان کے فوری خاتمے اور بھارت کیساتھ اسکے اتحاد کی باتیں بھی کیں۔پاکستان کو ایک نا قابلِ عمل منصوبے کے طور پر بھی پیش کیا گیا۔ 1947-48ء میں پہلی کشمیر جنگ نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید خراب کر دیا۔اس طرح پاکستان نے بھارت کو مضبوط فوجی طاقت کیساتھ ایک دشمن پڑوسی کے طور پر دیکھا۔ پاکستان کو افغانستان کی دشمنی کا بھی سامنا کرنا پڑا جس نے پاکستانی سرزمین پر دعوے کیے۔ افغانستان واحد ملک تھا جس نے ستمبر 1947ء کو اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی۔اس کے باوجود پاکستان کو 30 ستمبر 1947ء کو اقوام متحدہ میں شامل کر لیاگیا۔بھارت کا عدم تعاون اور جارحانہ رویہ اور افغانستان کے علاقائی دعوؤں نے نئی قائم شدہ ریاستِ پاکستان کیلئے بیرونی خطرات پیدا کردیے۔ ان بیرونی خطرات کے خلاف بقا کی سعی کی وجہ سے پاکستان نے سلامتی کو سب سے زیادہ ترجیح دی اورپاکستان نے 1954-55ء میں امریکہ کے زیر اہتمام علاقائی سلامتی کے اتحادوں میں شمولیت اختیار کی۔یہ مسئلہ بعد کے برسوں میں پاکستان کو پریشان کرتا رہا کیونکہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات اعتماد کے تعلقات میں تبدیل نہ ہو سکے۔ باہمی عدم اعتماد‘ دشمنی‘ سرحدی تنازعات‘ جنگوں اور معاندانہ پروپیگنڈے نے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو نمایاں کیا۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں نے دوطرفہ تعلقات میں مزید رکاوٹیں پیدا کیں۔ مئی 2014ء میں نریندر مودی کے بھارتی وزیر اعظم بننے کے بعد یہ تعلقات مزید تعطل کا شکار ہو گئے۔ بھارت نے اگست 2014ء میں متنازع مسائل پر پاکستان کیساتھ بات چیت معطل کر دی۔ مودی حکومت نے چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے ایشیا بحر الکاہل کے خطے میں امریکی پالیسیوں کیساتھ مضبوط فوجی اور معاشی روابط استوار کر لیے لہٰذا یہ جنوبی ایشیائی خطے سے باہر بھارت کے کردار کی بات کرنے لگی۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کا ایک اور نکتہ جنوبی ایشیا کے طاقت کے ڈھانچے کے بارے میں بھارت کے متضاد نظریات سے متعلق ہے۔ بھارت جنوبی ایشیا کے انڈیا سینٹرک سکیورٹی ویژن کی بات کرتا ہے اور جنوبی ایشیا کے پورے خطے کو ایک سٹریٹجک یونٹ کے طور پر دیکھتا ہے جس کی کمان اُسکے اپنے پاس ہونی چاہیے اور جنوبی ایشیا کی تمام ریاستوں کو اپنی غیر ملکی پالیسیوں کو بھارت کے پالیسی فریم ورک کیساتھ ہم آہنگ کرنا چاہتا اور یہ چاہتا ہے کہ انہیں ایسی خارجہ پالیسی اختیارنہیں کرنی چاہئے جو بھارت کی خارجہ پالیسی سے متصادم ہو‘ نیز یہ کہ کوئی بڑی بیرونی طاقت کسی جنوبی ایشیائی ریاست کیساتھ تعلقات بھی استوار نہ کر ے جو بھارت کو قابلِ قبول نہ ہوں۔
پاکستان نے جنوبی ایشیا کے بھارت کے بالادستی کے ویژن کو مسترد کیا ہے۔ پاکستان نے جنوبی ایشیاکی ریاستوں کے مابین مشاورت کے ذریعے علاقائی سلامتی اور تعاون کے مشترکہ ویژن پر مبنی جنوبی ایشیا کیلئے ایک کثیر الجہتی طاقت کے ڈھانچے کی بات کی ہے‘ اور اس نے جنوبی ایشیائی ریاستوں کی خودمختار مساوات اور ان کے بیرونی تعلقات کیلئے ان کی خودمختاری کو تسلیم کیا ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ فوجی مساوات کی بات نہیں کرتا۔اس نے اپنا حفاظتی نظام بنایا ہے تاکہ ایک دشمن کی طرف سے پاکستان کے خلاف فوجی کو مشکل بنایا جا سکے۔پاکستان کی ''مکمل سپیکٹرم ڈیٹرنس‘‘ کی حکمت عملی اور ''ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار‘‘پاکستان کے خلاف مختلف سکیورٹی حکمت عملیوں کے استعمال کا جواب دینے کے لیے حفاظتی اقدامات ہیں۔ ان بھارتی حکمت عملیوں میں ''محدود جنگ‘‘، ''کولڈ سٹارٹ‘‘ اور ''سرجیکل سٹرائیک‘‘شامل ہیں۔ پاکستان نے ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے فوجی اور سفارتی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
پاکستان کو 1980 ء کی دہائی میں سکیورٹی کے ایک اور مسئلے کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے افغانستان میں سوویت فوجی مداخلت (1979-1989ء) کے خلاف مزاحمت کیلئے امریکہ اور قدامت پسند عرب ریاستوں کیساتھ شمولیت اختیار کی۔ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو افغانستان اور پاکستان میں غیر ریاستی عسکریت پسند گروہوں کی کا سامنا کرنا پڑا۔ سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں میں بہت سے لوگوں نے کشمیر میں عسکریت پسندی کے کارڈ کے استعمال کی بھی وکالت کی۔ پاکستان کی داخلی سلامتی اور بھارت کیساتھ اس کے تعلقات کیلئے اس کے مضمرات پریشان کن تھے۔ بھارتی حکومت نے پاکستان کو کچھ عسکریت پسند گروہوں کی سرپرستی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور امریکہ نے اس معاملے پر بھارت کی حمایت کی کیونکہ امریکہ نے 1989ء میں افغانستان میں سوویت فوجیوں کے انخلا کے بعد عسکریت پسند گروہوں سے ناطہ توڑ دیا تھا۔ ستمبر 2001ء میں دہشتگردی کے خلاف امریکی سرپرستی میں ہونے والی عالمی جنگ میں پاکستان کے شامل ہونے اور افغانستان میں طالبان کی تحریک سے دوری اختیار کرنے کے بعد دہشت گردی نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہ پاکستان کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی تھی جس نے کچھ فوری مالی فوائد فراہم کیے لیکن طویل عرصے میں اس نے پاکستان کو بہت سے مسائل سے دوچار کیا۔
اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں پاکستان کو داخلی تناظر میں مزید چیلنجز کا سامنا ہے۔ یوں پہلے سے موجود بیرونی خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔ بڑھتے ہوئے سیاسی تنازعات نے سیاسی غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ہے جو معاشرتی اور معاشی مسائل سے نمٹنے کیلئے حکومت کی صلاحیت کو محدود کرتی ہے۔ان حالات میں میکرو اور مائیکرو دونوں سطحوں پر پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مہنگائی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے اور دیگر بنیادی ضروریات کی وجہ سے عام لوگوں پر بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ نے عام آدمی کی سطح پر غصہ پیدا کیا ہے۔
پاکستان کو قومی سلامتی کی ایک جامع پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے جو بیرونی اور اندرونی چیلنجزسے نمٹ سکتی ہو۔ بیرونی سلامتی کو ملکی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی و اقتصادی مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ حکومت کو ان معاشی مسائل کو حل کرکے اور ایک محفوظ اور مستحکم مستقبل کی یقین دہانی کر کے عام لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سیاسی ہم آہنگی کا ماحول اور مستحکم و توسیع پذیر معیشت کے بغیر کوئی ملک بیرونی دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور عالمی اور علاقائی سطح پر ایک فعال کھلاڑی نہیں بن سکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved