مسلم امہ کا ایک بڑا حصہ کڑے وقت کا شکار ہے، اس پر بہت ظلم ہورہا ہے اور جو مسلم ورلڈ کے خوشحال ممالک ہیں‘ وہ ان حالات سے غافل اور بے نیاز‘ اپنے ملکوں میں کھیل تماشوں میں مصروف ہیں۔ جو کچھ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے اگر مسلم امہ مل کر کچھ کرتی تو شاید ان علاقوں میں بھی امن قائم ہوجاتا مگر شاید ایسا کرنا کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ پچاس سے زیادہ مسلم ممالک ان تین‘ چار ممالک کے لیے سٹینڈ نہیں لے سکتے جہاں مسلمانوں پر ایسے ظلم و ستم ہورہے ہیں کہ جن کی مثال نہیں ملتی۔ مجھے یاد ہے کہ میں چھوٹی تھی تو ایک ملک آزاد ہوا تھا شاید نئی نسل میں بہت سے لوگوں کو اس سے واقفیت نہ ہو‘ اس ملک کا نام تھا مشرقی تیمور۔ اس ملک میں رومن کیتھولک لوگوں کی اکثریت ہے۔ آنجہانی پوپ جان پال نے یہاں کا دورہ کیا اور عالمی برادری کو یہ باور کرایا کہ مشرقی تیمور میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ یہ اس وقت انڈونیشا کے زیرِ قبضہ تھا۔ پوری مغربی دنیا اکٹھی ہو گئی اور مشرقی تیمور کو انڈونیشیا سے الگ کرنے کے منصوبے پر کام شروع ہو گیا۔ سبھی ممالک انڈونیشیا کے خلاف متحد ہو گئے اور یہاں ریفرنڈم کرایا گیا جس کے نتیجے میں مشرقی تیمور کو ایک علیحدہ اور آزاد ملک قرار دے دیا گیا۔ اقوام متحدہ اور پوپ نے مشرقی تیمور کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس خطے میں 1999ء میں ہونے والا ریفرنڈم اقوام متحدہ کے زیر سایہ ہوا اور مشرقی تیمور کے باسیوں کی اکثریت نے الگ ریاست کے حق میں ووٹ دیا۔ یوں چند سالوں میں انہیں آزادی مل گئی۔ اصل وجہ یہ ہے کہ جنہیں یہ آزادی چاہیے تھی وہ رومن کتھولک تھے اور جن سے آزادی چاہیے تھی وہ مسلم ملک انڈونیشیا تھا۔ واضح رہے کہ انڈونیشیا آج بھی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک ہے۔
دنیا کے نقشے پر ایک نکتے سے بھی چھوٹا علاقہ آزادی پاگیا لیکن کشمیری اور فلسطینی آج بھی قید میں ہیں۔ دوسری جانب شام‘ عراق‘ لیبیا‘ یمن اور افغانستان جنگ سے نڈھال ہیں۔ مشرقی تیمور کا انتظام ایک طویل عرصہ تک اقوام متحدہ کی امن فوج دیکھتی رہی اور اس نے ہی یہاں جنگ بندی کرائی۔ بعد ازاں یہاں ایک خود مختار حکومت نے کام شروع کیا۔ اس طرح کا انصاف اقوام متحدہ مسلم ممالک کے لیے کیوں نہیں کرتی؟ اس وقت تو ایسے ظاہر کیا جاتا ہے کہ جیسے اس کے اختیار میں ہی کچھ نہیں۔ اقوام متحدہ اتنی بھی بے اختیار نہیں جتنی کشمیر و فلسطین کے معاملے میں نظر آتی ہے۔ 1948ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے مطابق استصوابِ رائے کشمیریوں کا حق ہے لیکن کئی دہائیاں گزر گئیں‘ کشمیریوں کو ان کا یہ حق آج تک نہیں ملا۔ اسی طرح اقوام متحدہ نے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں ایک صہیونی ریاست کے جنم میں بھی کردار ادا کیا۔ 1947ء میں فلسطین کو عرب اور یہودی ریاست میں تبدیل کرنے کی قرارداد پاس کی گئی اور یروشلم کو انٹرنیشنل زون میں شامل کیا گیا۔ 11مئی 1949ء کو اقوام متحدہ نے اسرائیل کو ایک رکن ملک کے طور پر بھی تسلیم کرلیا جبکہ فلسطین آج بھی اقوام متحدہ کا ممبر نہیں۔1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے ہمسایہ عرب ممالک کے علاقوں پر قبضہ کرلیا جن میں لبنان‘ شام‘ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے علاقے شامل تھے۔ 1973ء میں اسرائیل نے شام کے گولان پہاڑی سلسلے اور فلسطینی علاقے غزہ پر بھی قبضہ کرلیا جو2005ء تک اسرائیل کے زیرِتسلط رہا۔ یاسر عرفات کی تنظیم فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے 1988ء میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تو 78 ممالک نے اس کو فوری طور پر تسلیم کرلیا، 2011ء میں فلسطین کے صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کے لیے درخواست جمع کرائی اور 2012ء میں فلسطین کو غیر مبصر ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ اقوام متحدہ نے جس تیزی سے مشرقی تیمور کے لیے کام کیا‘ ویسی ہی تیزی فلسطین کو تقسیم کر کے اسرائیل کے قیام میں بھی دکھائی گئی مگر اس کے بعد وہ کبھی بھی اسرائیل کو روک نہیں سکی‘ اسرائیل اپنی من مانی کرتا رہا اور فلسطین کے بیشتر علاقوں پر قابض ہوگیا۔
اس وقت غزہ میں فلسطینی بچے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ چاروں طرف سے انہیں اسرائیل نے گھیر رکھا ہے۔ وہ خوراک، صاف پانی، ویکسین اور دیگر سہولیاتِ زندگی سے محروم ہیں۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے مسلسل ظلم و ستم نے فلسطینی بچوں سے ان کا بچپن اور روشن مستقبل چھین لیا ہے۔ زمین کی اس جنگ میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ چند روز قبل ایک وڈیو دیکھی جس میں چھوٹی چھوٹی فلسطینی بچیوں کو نامناسب طریقے سے چھو کر اسرائیلی فوجی ان کی تلاشی لے رہا تھا۔ وہ بچیاں ایک طرف اپنے سکارف اور بیگ سنبھال رہی تھیں اور ساتھ ساتھ ان فوجیوں کے چھونے کی اذیت سہہ رہی تھیں۔ یہ ہراسانی بہت تکلیف دہ تھی۔ اب غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے بعد حالات مزید ابتر ہو گئے ہیں۔ رہائشی علاقے مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچوں کی مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔ الشفا ہسپتال میں مریض بجلی نہ ہونے کی وجہ سے دم توڑ گئے ہیں۔ بمباری کے بعد ملبے سے انسان ٹکڑوں کی صورت میں مل رہے ہیں مگر کسی کو پروا ہی نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مغربی ممالک کے نزدیک انسانی خون کی وقعت تب ہوتی ہے جب وہ مشرقی تیمور یا یوکرین کے مسیحیوں کا خون ہو۔ مسلمانوں کے خون کی دنیا کی نظر میں کوئی اہمیت ہی نہیں۔ غزہ کو چاروں طرف سے بند کرکے اسرائیل ان کو لگ بھگ چالیس دن سے مسلسل بمباری کا نشانہ بنارہا ہے مگر اب تک عالمی طاقتوں کا ضمیر نہیں جاگا۔ یہاں تک کہ اسرائیل نے ہسپتالوں، صحافیوں اور عالمی اداروں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ 107 امدای کارکنان کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔اسرائیلی فوج نے ایمبولینسوں تک کو نشانہ بنایا ہے۔ امدادی اداروں نے غزہ کو بچوں کا قبرستان قراردیا ہے۔ وہاں پانی نہیں ہے‘ ادویات نہیں ہیں‘ خوراک نہیں ہے‘ بجلی نہیں ہے‘ انٹرنیٹ نہیں ہے‘ ہسپتالوں پر حملے ہو رہے ہیں‘ رہائشی بلڈنگز اور مہاجر کیمپوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے مگر اقوام متحدہ اور عالمی برادری اپنا وہ کردار ادا نہیں کررہی جو انہوں نے یوکرین کے لیے ادا کیا۔ اُس وقت امریکہ اور یورپی ممالک مسلسل امداد بھیج رہے تھے اور اپنے ملکوں کے دروازے یوکرین کے مہاجرین کے لیے کھول دیے تھے مگر غزہ میں بسنے والوں کو تو مصر کا بارڈر کراس کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ یہاں تک کہ امداد بھی اسرائیل کی چیکنگ کے بعد ہی غزہ میں داخل ہو پاتی ہے۔ اتنا ظلم کہ انسانیت شرما جائے مگر بیانات کے علاوہ کچھ نہیں ہو رہا۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ اپنا کردار ادا کرے‘ جنگ بندی کرائے اور امن کے قیام کے لیے جدوجہد کو تیز کرے۔ ورنہ یہ جنگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
جنگیں بہت بھیانک ہوتی ہیں‘ اپنے ساتھ بھوک‘ افلاس‘ خوف‘ خون اور ڈر کو لاتی ہیں۔ ہم سب کے پاس ایک ہی دنیا ہے جو ہمارا مسکن ہے‘ اس کو گولہ بارود سے پاک کرنا ہوگا۔ اس وقت جتنا نقصان غزہ میں ہوا ہے‘ اس کی تلافی کیسے ہو گی؟ لوگوں کے گھر تباہ کردیے گئے‘ ان کے خاندان کے خاندان مٹادیے گئے۔ یہ ایک منظم نسل کشی ہے جو فلسطین میں جاری ہے۔ فلسطینیوں کو ختم کیا جارہا ہے تاکہ ان کے علاقوں پر قبضہ کیا جا سکے۔ اس پر خاموشی اس سنگین جرم میں شراکت کے مترادف ہے۔ سب کو اس کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی۔ غزہ میں اس وقت 50 ہزار حاملہ خواتین موجود ہیں اور 5500 سے زائد زچگی کے قریب ہیں‘ ان کی دیکھ بھال بہت ضروری ہے۔ اس وقت میڈیکل اور ریلیف کے کاموں کی اشد ضرورت ہے۔پناہ گزینوں تک امداد پہنچنا بہت ضروری ہے ورنہ بیماریاں پھیل جائیں گی۔ اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ اپنا ویسا کردار ادا کرے جیسا ہم نے یوکرین اور مشرقی تیمور میں دیکھا ۔ اس کے ساتھ ترکیہ‘ ایران‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کو بھی چاہیے کہ اپنا فعال کردار ادا کریں تاکہ غزہ میں جنگ بندی ہوسکے اور عوام تک امداد پہنچ سکے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو جنگ اور نفرت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved