ہمارے ہاں اگر کوئی تھوڑی ہوش مندی یا روشن خیالی کی بات کرے تو اسے فوراً دیسی لبرل کا طعنہ دے دیا جاتا ہے‘ حالانکہ کوئی شخص دیسی یا بدیسی لبرل نہیں ہوتا۔ انسان یا لبرل ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ لبرل ہونے کی کچھ بنیادی نظریاتی شرائط ہیں جن پر پورا اُترے بغیر کوئی شخص لبرل نہیں ہو سکتا۔ ان کڑی شرائط کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہمارے ہاں بہت کم لوگ لبرل ازم کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی سیاسی جماعت لبرل جماعت نہیں ہے‘ نہ ہی ایسے افراد کا کوئی منظم گروہ ہے۔ البتہ انفرادی طور پر زندگی کے مختلف شعبہ جات میں لبرل سوچ رکھنے والے لوگ ضرور موجود ہیں‘ جن کی تعداد بہت کم ہے۔ اس اعتبار سے لبرلز کو Endangered speciesمیں شمار کیا جا سکتا ہے۔
لبرل ازم ایک سیاسی اور اخلاقی فلسفہ ہے۔ یہ ہمارے دور کا غالب اور اہم ترین نظریہ ہے۔ یہ نظریہ کئی اخلاقی‘ معاشی اور فلسفیانہ اصولوں پر کھڑا ہے۔ ان میں سب سے بنیادی اور اہم ترین اصول انفرادیت یا انفرادی حقوق کی وکالت ہے جن کو فرد کے حقوق بھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر لبرل دانشور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سیاست کا بنیادی مقصد ہی فرد کے حقوق کا تحفظ ہے جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ آزادی کا حصول ممکن ہے۔ اس طرح انفرادیت لبرل نظریات کے دل کی دھڑکن ہے۔ یہ نظریات فرد کے حق اور ریاست کے ساتھ اس کے تعلق کا احاطہ کرتے ہیں۔ لبرل ازم میں ریاست سے زیادہ فرد پر بھروسا اور اعتماد کرنے پر زور دیا جاتا ہے اور ریاست کی غیرمعمولی طاقت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لبرل ازم کا دوسرا بڑا اصول یہ ہے کہ حکومت کرنے کے لیے عوام کی رضامندی اور منظوری لازم ہے۔ عوام کی مرضی کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کے لیے ریاستی طاقت و اختیار کا ستعمال صرف اس وقت جائز اور قانونی ہے جب عوام نے اس کی منظوری دی ہو۔ عوامی منشا و رضا مندی کی یہ تھیوری تاریخی طور پر مطلق العنانیت اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف استعمال کی گئی تھی لیکن فی الوقت یہ ایک یونیورسل اصول کی شکل اختیار کر چکی ہے۔اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلامیہ کے آرٹیکل 21میں کہا گیا ہے کہ کہ کسی بھی حکومت کی اتھارٹی کی بنیاد عوام کی منشا ہے۔
لبرل ازم کا تیسرا بڑا اصول سیاسی مساوات ہے۔ سیاسی مساوات کا مطلب ہے ایک شخص ایک ووٹ اور قانون کے نزدیک تمام شہریوں کی برابری کا تصور۔ اس تصور کے تحت رنگ‘ نسل‘ مذہب اور معاشی و سماجی اور طبقاتی حیثیت کا لحاظ کیے بغیر سب کے ساتھ مساوی سلوک ہے۔ لبرل ازم کا چوتھا بڑا اصول ذاتی و نجی ملکیت کے حق کا تحفظ ہے۔ لبرل اس حق کو بنیادی انسانی حق میں شمار کرتے ہیں۔ لبرل ازم کا پانچواں اصول قانون کے سامنے سب شہریوں کی برابری ہے۔ ''قانون کے نزدیک سب برابر ہیں‘‘ کا یہ تصور قانون کی حکمرانی کا تصور ہے جو اس وقت دنیا میں مقبول ہے۔ لبرل ازم کا چھٹا اصول آزادی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شہری اہلِ حکم‘ اتھارٹی اور حکومت کی طرف سے غیرضروری طور پر جابرانہ پابندیوں سے آزاد ہو۔ یہ لبرل ازم کے چھ اہم ترین اصول ہیں مگر مختلف ممالک‘ خطوں اور معاشروں میں لبرل اپنے اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق ان اصولوں کی تعبیر و تشریح کرتے ہیں اور ان اصولوں کولاگو یا مسترد کرتے ہیں۔ لبرل ان اصولوں کے بارے میں اپنی سمجھ کی بنیاد پر مختلف نظریات کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں لیکن عام طور پر اکثر لبرل نجی املاک‘ مارکیٹ کی معیشت‘ انفرادی حقوق‘ شہری و انسانی حقوق‘ لبرل جمہوریت‘ سیکولر ازم‘ قانون کی حکمرانی‘ معاشی اور سیاسی آزادی‘ تقریر کی آزادی‘ پریس کی آزادی‘ اسمبلی کی آزادی اور مذہب کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ اکثر دانشور حلقوں میں لبرل ازم کو جدید تاریخ کے غالب نظریے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے بعد روشن خیالی کے عہد میں لبرل ازم ایک جدید تحریک کی شکل میں ابھر کر سامنے آیا جس نے مغربی فلسفیوں اور ماہرینِ اقتصادیات میں مقبولیت حاصل کی۔ لبرل ازم نے موروثی استحقاق‘ ریاستی اور سرکاری مذہب‘ مطلق العنان بادشاہت‘ بادشاہوں کے مقدس حقوق اور روایتی قدامت پسندی کی جگہ نمائندہ جمہوریت‘ قانون کی حکمرانی اور قانون کے تحت مساوات کے نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ لبرل دانشوروں نے تجارتی پالیسیوں‘ شاہی اجارہ داریوں اور دیگر تجارتی رکاوٹوں کو بھی ختم کرنے کی بات کی اور اس کی جگہ فری ٹریڈ اور آزاد تجارت کے نظریات کو عام کیا۔ مشہور فلسفی جان لاک کو اکثر سوشل کنٹریکٹ کی بنیاد پر ایک الگ روایت کے طور پر لبرل ازم کی بنیاد رکھنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ اس نے یہ دلیل دی کہ ہر شخص کو زندگی‘ آزادی اور جائیداد کا فطری حق حاصل ہے اور حکومتوں کو ان حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔ اس طرح برطانوی لبرل روایت نے جمہوریت کو پھیلانے پر زیادہ زور دیا جبکہ فرانسیسی لبرل ازم نے آمریت کو مسترد کرنے کو اہم قرار دیا۔
1688ء کے برطانوی انقلاب‘ 1776ء کے امریکی انقلاب اور 1789ء کے فرانسیسی انقلاب کے رہنماؤں نے لبرل فلسفے کا استعمال کرتے ہوئے بادشاہتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کو درست راستہ قرار دیا۔ 19ویں صدی میں یورپ اور جنوبی امریکہ میں لبرل حکومتیں قائم ہوئیں۔ وکٹورین برطانیہ میں لبرل نظریات کا استعمال سیاسی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے کے لیے کیا جاتا تھا اور عوام کی ایما پر سائنس اور استدلال کی اپیل کی جاتی تھی۔ 19ویں اور 20ویں صدی کے دوران سلطنتِ عثمانیہ اور مشرقِ وسطیٰ میں لبرل ازم کے نظریات نے اصلاحات کے ادوار کو متاثر کیا جس سے آئین پرستی‘ قوم پرستی اور سیکولر ازم کے نظریات کو فروغ ملا۔ ان تبدیلیوں نے دیگر عوامل کے ساتھ اسلامی دنیا کے اندر ایک بحران کا احساس پیدا کیا جو آج تک جاری ہے‘ جس کے نتیجے میں اسلامی احیا پسندی کا آغاز ہوا۔ 1920ء سے پہلے لبرل ازم کے اہم نظریاتی مخالفین میں کمیونسٹ‘ قدامت پسند اور سوشلسٹ شامل تھے لیکن آگے چل کر لبرل ازم کو پھر نئے مخالفین کے طور پر فاشزم کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تھوڑا آگے چل کر مارکسزم‘ لینن ازم نے لبرل ازم کو بڑا نظریاتی چیلنج دیا۔ 20ویں صدی کے دوران لبرل خیالات بڑی تیزی سے پھیلے‘ بالخصوص مغربی یورپ میں کیونکہ لبرل جمہوریتوں نے عالمی اور سرد جنگوں‘ دونوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔
لبرل ازم نے ایک نیا ورلڈ آرڈر قائم کیا جس میں اہم انفرادی آزادیوں جیسے آزادیٔ اظہار اور انجمن کی آزادی‘ ایک آزاد عدلیہ اور جیوری کے ذریعہ عوامی مقدمے کی سماعت اور اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ کرنے پر زور دیا۔ جدید لبرل فکر اور جدوجہد نے شہری حقوق کو وسعت دینے کی ضرورت کو تسلیم کیا۔ ان دانشوروں نے شہری حقوق کو فروغ دینے کیلئے اپنی مہم میں صنفی اور نسلی مساوات کی وکالت کی اور 20 ویں صدی میں عالمی شہری حقوق کی تحریکوں نے دونوں شعبوں میں کئی کامیابیاں حاصل کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں نے یونیورسل حقِ رائے دہی اور تعلیم تک یکساں رسائی جیسے منصوبوں پر کام کیا۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں سماجی لبرل ازم کے نظریات نے فلاحی ریاست کو وسعت دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ یہی وہ کارنامے ہیں جن کی وجہ سے آج لبرل جماعتیں پوری دنیا میں طاقت اور اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔ اس وقت لبرل ازم یا نیو لبرل ازم کو سب سے سنجیدہ فلسفیانہ چیلنج مارکسزم کی طرف سے درپیش ہے‘ اس کے علاوہ ان کا راستہ روکنے والی کوئی سنجیدہ قوت میدان میں موجود نہیں ہے۔ لبرل دیسی ہو یا بدیسی اس کیلئے مذکورہ بالا چھ نظریاتی اصولوں پر یقین رکھنا لازم ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved