سارے کام دھندے بھول کر ایک الگ سے حساب کے کام میں لگا ہوا ہوں۔ کام بھی وہ جو بے مصرف‘ بے صلہ اور بے ستائش ہے۔ وہ کام جس کے بغیر کسی کا کوئی کام نہیں رُکتا۔ پسینہ سوکھنے سے پہلے اجرت مل جانا جن محنتوں کو نصیب ہے‘ میرا یہ کام ان میں سے نہیں۔ پسینہ کیا‘ خون بھی بہہ جائے تو مزدوری میں ایک دمڑی نہ ملے ۔ اظہار الحق نے کہا تھا نا:
مرے ہنر کی تجھے احتیاج کیا ہوگی
کہ میں زمانے ہی گزرے ہوئے بناتا ہوں
حساب کتاب یہ ہے کہ اگر آپ کے سامنے ایک ضخیم رسالہ رکھا ہوا ہو۔ 720صفحات پر مشتمل‘ آٹھ انچ لمبائی اور پونے چھ انچ چوڑائی کے بڑے صفحات والا۔ ایک صفحے میں لمبائی کے رُخ بھرے بھرے بدن کی 27سطریں ہوں۔ چوڑائی کے رُخ اکثر سطروں میں 27سے کم الفاظ نہ ہوں۔ کہیں کم ہوں بھی تو اوسطاً 20 الفاظ فی سطر کا اندازہ کر لیں۔ اگر یہ سب ہو تو پورے رسالے میں کتنی سطریں بنیں؟ کتنے الفاظ ہوئے؟ 20ہزار سطریں؟ چار لاکھ الفاظ؟ یہی بنے نا؟ چار لاکھ الفاظ۔
چار لاکھ کون سے الفاظ؟ کیا چھوٹی بڑی نقرئی سکرینوں پر دن رات جگمگانے والے وہ الفاظ جنہیں لوگ بہت شو ق سے دیکھتے ہیں اور اخبارات اور نیوز چینل ان الفاظ پر بحث کرواتے ہیں۔ سیاسی بازی گروں‘ کھیلوں‘ کاروبارِ نمائش یعنی شوبز‘ معاشیات‘ شماریات یا سماجیات کے بارے میں چار لاکھ الفاظ؟ نہیں ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں۔ کن لوگوں کے لکھے ہوئے چار لاکھ الفاظ؟ ان لوگوں کے جو بولتے آئینوں میں اپنی مبلغ جہالت کے بل پر شہرت‘ مال اور عہدے کماتے ہیں؟ ان لوگوں کے جو ایک چھٹانک سودے کو منوں میں تولتے ہیں؟ نہیں ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں۔ تو پھر کیا ان چیزوں کے بارے میں اگر کوئی لفظ نہیں جو سکہ رائج الوقت ہیں۔ اگر ان لوگوں کے الفاظ نہیں جو لاکھوں کروڑوں لوگوں کی پسندیدگیاں سمیٹ رہے ہیں تو پھر کیا؟ پھر یہ لوگ کس لیے پیدا ہوئے اور یہ الفاظ کیوں پیدا کر رہے ہیں؟
میری نظر ضخیم رسالے کے پشتے پر پڑتی ہے۔ نام لکھا ہے ''کولاژ‘‘۔ لیکن اس سے آگے جلی حروف میں ایک اور سطر بھی لکھی ہے ''دل کی حماقت اور طاقت کا اندازہ ادبی شمارہ نکالنے کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے۔ نیا کولاژ جو کبھی پرانا نہیں ہو گا‘ حاضر ہے۔ اقبال نظر‘‘۔ یہ کولاژ کا شمارہ نمبر 19ہے اور اس کا سرورق ہمہ جہت تخلیق کار گلزار کا بنایا ہوا ہے‘ لیکن اقبال نظر کی بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اگلے صفحات پر بطور مدیر لکھتے ہیں ''کہانی کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ دراصل ہمارے پاس بہت طویل کہانی ہوتی ہے جس کے ہم حصے بخرے کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں نے افسانہ لکھا ہے‘ رپورتاژ لکھا ہے‘ ڈرامہ اور داستان لکھی ہے ۔ سب غیر مطبوعہ اور نیا ہے حالانکہ نیا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کہانی تو روزِ ازل لکھی جا چکی ہے اور اس کا انجام بھی ہر کوئی جانتا ہے‘‘۔کولاژ اور اقبال نظر سے دیرینہ تعلق ہے۔ موجودہ شمارے کے چار لاکھ الفاظ میں سعود عثمانی کا حصہ بھی ہے۔ سابقہ شماروں میں بھی‘ جو ہر ایک اہم دستاویز کی حیثیت کا حامل مجلہ ہے‘ میں شامل رہا ہوں۔ لیکن بات اس سے بھی پہلے کی ہے۔ اقبال نظر چچا نظر کے بیٹے ہیں۔ وہی نظر امروہوی جن کے نام کیساتھ ہماری زبان پر بچپن سے چچا کا لفظ جڑتا تھا اور جنہیں اب بھی صرف جناب نظر امروہوی کہتے برا لگتا ہے۔ جو میرے والد‘ صاحبِ طرز شاعر جناب زکی کیفی کے ایسے دوست تھے کہ ہمارے گھر کا ایک حصہ لگتے تھے۔ کھِلتا شہابی رنگ‘ بکھرے لمبے بال‘ خوبصورت نازک خد و خال‘ شیروانی‘ کھلے پائینچوں کا پاجامہ۔ چچا نظر کمال غزل گو تھے۔ میرے بچپن‘ لڑکپن اور جوانی کی یادیں انکی باتوں‘ انکی غزلوں اور انکے ترنم کے بغیر نامکمل ہیں۔ چچا نظر کے گھرانے کا ہر فرد کسی نہ کسی طور ادب سے جڑا ہوا ہے اور اقبال نظر تو ادارت سمیت کئی جہات رکھتے ہیں۔
سوال لوٹ کر آتا ہے۔ چار لاکھ الفاظ۔ حمد‘ نعت‘ مضامین‘ رپورتاژ‘ سفر ناموں‘ غزلوں‘ نظموں‘ افسانوں‘ کرۂ غنائی اور یادداشتوں میں بکھرے ہوئے لاکھوں الفاظ۔ ان میں کسی ایک سے بھی سرسری نہیں گزرا جا سکتا۔ کلاسیکی شعرا اور اساتذۂ ادب سے لے کر جدید ترین لکھنے والوں تک کے بارے میں سیر حاصل گفتگو۔ میں ایک نظر فہرست دیکھتا ہوں۔ یہ سب منتخب اور چیدہ لوگ ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ‘ مبین مرزا‘ باصر سلطان کاظمی‘ طاہرہ اقبال‘ عرفان جاوید‘ حفیظ خان‘ افتخار شفیع‘ سلمان صدیقی‘ نظر امروہوی‘ سحر انصاری‘ سلیم کوثر‘ انور شعور‘ شاہین مفتی‘ صائمہ زیدی اور خاور احمد۔ اقبال نظر‘ وحید احمد‘ ایوب خاور‘ ڈاکٹر نجیبہ عارف۔ کس کس کا نام لیجیے‘ کس کس کو چھوڑیے۔ ریاضت‘ محنت اور صلاحیت کے بغیر یہاں کوئی نام شامل نہیں کرا سکتا۔ انہوں نے اپنی زندگیاں اس کام کے لیے تجی ہیں۔
ایک حساب کتاب سے کئی سوالات سر اٹھا رہے ہیں۔ کیا اگلے 20‘ 30سال میں یہ اور اس معیار کے لاکھوں الفاظ لکھے جاتے رہیں گے؟ کیا اردو کے بڑے ادبی پرچوں کا دور گزر گیا؟ وہ پرچے جو ماہانہ یا ششماہی بنیادوں پر نکلتے تھے اور ایک پرچے سے دوسرے پرچے تک قہوہ خانوں‘ چائے خانوں میں ان پر گفتگو اور مکالمے ہوا کرتے تھے۔ جو حرف کار غزل‘ نظم‘ افسانے یا مضمون کی شکل میں چھپ جاتا‘ وہ اپنا سربلند کیے محفل میں آتا اور اس دن کا شہنشاہ ہوتا۔ اس کا بس نہ چلتا کہ نیوز پیپر پر چھپے یک رنگہ الفاظ دنیا بھر میں بانٹ دے‘ جہازوں سے پرچیاں بکھیر دے اور شاہراہوں کے کنارے کھڑا ہوکر چلّاچلّا کر کہے کہ اے لوگو! مجھے دیکھو‘ مجھے جانو کہ میں آج فلاں مؤقر جریدے میں چھپا ہوں۔ وہ زیادہ دور کا نہیں‘ ماضی قریب کا زمانہ ہے۔ جب پیسے نے فن کو نگلنا شروع نہیں کیا تھا۔ جب زرق برق نے سیاہ روشنائی کے حروف گہنائے نہیں تھے۔ جب مخلوط نہیں‘ خالص زبان بولنے پر ناز کیا جاتا تھا۔ جب ایکٹر‘ ایکٹریس‘ ٹی وی میزبان فخرسے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ مجھے اردو نہیں آتی۔ جب اوراق‘ نقوش‘ فنون‘ افکار‘ فاران‘ نگار‘ جامعہ‘ آج کل‘ ادب لطیف‘ مکالمہ‘ سویرا‘ نیا دور‘ سیپ اور کتاب وغیرہ کے دفاتر میں محفلیں جما کرتی تھیں اور بڑے شہروں میں دور سے آنے والے یہیں نشست کیا کرتے تھے۔ جب لاہور‘ کراچی‘ دہلی اور لکھنؤ کے بڑے شہروں میں دور دراز سے پہنچنے والے اپنے علاقوں میں فخر سے ان محفلوں کا حال سنایا کرتے تھے۔ میں دنیا کے دورِ آخر کی علامات میں یہ علامتیں بھی ڈھونڈ رہا ہوں جو شاید کہیں مل بھی جائیں۔ جب ننگی شہرتیں بھی بالباس‘ ہمہ جہت تخلیق کاروں سے بڑا قد نکال لیں۔ جب کتابوں‘ تحقیقی مقالوں اور مضامین پر لکھنے والوں کے نہیں‘ لکھوانے والوں کے نام چھپنا شروع ہو جائیں۔ جب شاعر اور شاعرات وہ غزل یا نظم ٹھیک سے وزن میں پڑھ بھی نہ سکیں جو انکے ہاتھ میں ہے۔ جب مالدار اور نیم خواندہ لوگ اپنے خرچے پر کانفرنسوں اور مشاعروں میں اعتبار حاصل کرنے لگیں۔ جب ادبی معیار مشاعروں اور کانفرنسوں میں شرکت کی تعداد سے متعین ہونے لگے۔ جب زبان و بیان کے نقائص اس فرد کا کمال شمار ہونے لگیں‘ تو پھر دنیا اس گابھن اونٹنی کی طرح ہے جو کسی وقت بھی بچہ جَن دے۔ پھر انتظا رکرو محبتوں‘ جذبوں اور احساسات کی موت کا۔ پھر انتظا رکرو دلوں کی موت کا۔ پھر انتظار کرو دنیا کی موت کا۔
میں صفحات پلٹتا ہوں۔ اتنے ضخیم پرچے میں کوئی اشتہار ڈھونڈ رہا ہوں۔ سب سے زیادہ منافع اور سہولت پیش کرتا کوئی بینک‘ کوئی دیسی بدیسی طعام گاہوں کی زنجیر‘ لوگوں کو نئے گھروں کے خواب دکھاتا کوئی رہائشی منصوبہ‘ پُرکشش سرمایہ کاری کی ترغیب دیتا کوئی مالیاتی ادارہ‘ کوئی سرپرست‘ کوئی تھپکی دینے والا‘ کوئی مدد کرنے والا‘ کوئی اشتہار۔ کوئی نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ میں وہ جملہ ایک بار پھر پڑھتا ہوں ''دل کی حماقت اور طاقت کا اندازہ ادبی شمارہ نکالنے کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved