تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     09-10-2013

ہمارے جوتے ہمارا سر

آپ کو اس فقرے کی صداقت پر یقین نہیں آئے گا کہ ’’ورلڈ بینک،ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور وہ عالمی ادارے جو پاکستان کو قرضے دیتے ہیں ان پر برائے نام سود ہوتا ہے جو دراصل وہ اخراجات ہوتے ہیں جو بینک چلانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں‘‘۔ یہ فقرہ گزشتہ کئی برسوں کی ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹوں کا نچوڑ ہے۔ ورلڈ بینک کی 2012ء کی رپورٹ کے مطابق یہ شرح 2.34فیصد تھی۔ بعض قرضوںپر تو یہ ڈیڑھ فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کے باوجود اس ملک میں سود کے پرچم کو بلند کرنے والے دانشور،معیشت دان اورصرف اسلام سے بغض رکھنے والے سیکولر کہتے پھرتے ہیں کہ سود سے کیسے نجات مل سکتی ہے۔ہم تو عالمی طور پر اس نظام میں جکڑے ہوئے ہیں، یہ سود تو اب ہر شخص اور ادارے کی رگ و پے میں سرایت کرچکا ہے۔ میں نے ان سیکولر حضرات کوصرف اسلام سے بغض رکھنے والا اس لیے کہاہے کہ یہ لوگ تمام مذاہب کے رسوم ورواج اور عقیدوں کا احترام کرتے ہیں‘ انہیں بابری مسجد گرانے والے ہندو اچھے لگتے ہیں اور یہ ان کے ہر ڈرامے کے ہر دوسرے سین میںپوجا پاٹ کو مذہب کا بے جا استعمال نہیں کہتے، تمام مشنری سکولوں میںبائیبل کے اسباق اور اخلاقیات پڑھانے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔بدھ، کنفیوشس‘ تائو اور دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ہاتھوں ہزاروں مسلمانوں کاقتل دیکھتے ہیں لیکن کبھی یہ اُس مذہب کو بُرا نہیں کہتے۔ لیکن کسی ڈرامے میں مسجد یا مولوی دکھایاجائے‘ کہیں کسی مسلمان کے ہاتھوں قتل ہو جائے یا نصاب میں اسلام کی تعلیمات پڑھائی جانے لگیں تو ان کے پیٹ میں مروڑاٹھنے لگتا ہے۔ یہ ایک دم چیخنے لگتے ہیں۔ ان کا نشانہ مسلمان نہیں بلکہ سیدھا سیدھا اسلام ہوتا ہے۔یہ ذکر اس لیے کیا کہ گزشتہ چالیس سال سے سود کے مکروہ نظام کے خلاف جو جدوجہد ہو رہی ہے، اس کا مخالف یہی ہراول دستہ ہے۔ یہ دانشور،معیشت دان اور انسانی حقوق کے داعی سود کی مخالفت کو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بتاتے ہیں اور یہ سود کی مخالفت کرنے والے لوگوں کو رجعت پسند، فرسودہ، جاہل اور متشدد جیسے ناموں سے پکارتے ہیں؛ حالانکہ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا معیشت دان خواہ وہ کینز(Kenyes) ہو یا ملٹن فریڈمین(Milton Friedman) کوئی بھی سود کی حمایت نہیں کرتا۔ سب کے سب اسے معاشی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں دنیا کا ہر بڑا معیشت دان صرف ایک ہی نعرہ بلند کرتا ہے کہ اس دنیا کی معاشی تباہی کا سب سے بڑا ذمہ دار سود پر مبنی بینکنگ سسٹم ہے۔ سٹیو کین(Steve Keen)کا لگایا ہوا یہ نعرہ’’آئو بینکوں کو دیوالیہ کرو‘‘(Bankrupt the Banks)اس وقت ایک مقبول ترین پکار بن چکی ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کا سرمایہ 43ہزار ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس ہے جن کو پانچ سو کے قریب بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایک مخصوص گروہ(Core Group) کنٹرول کرتاہے۔ پھر ان سب کو بیس بڑے بینک کنٹرول کرتے ہیں جو عوام کی بچت اور اس بچت سے پیدا شدہ مصنوعی دولت ان ملٹی نیشنل کمپنیوںکو دے کر پوری دنیا کی معیشت پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔ پھر اسی مصنوعی دولت سے دنیا کی سیاست،کاروبار بلکہ معاشرت کو بھی قابو کیے ہوئے ہیں۔انہی بینکوں کی دولت سے جنگیں ہوتی ہیں، ’’اخلاق یافتہ‘‘ میڈیا چلتا ہے اور لوگوں کی معاشرت میں زبردستی چال چلن متعارف اور مقبول کروایا جاتا ہے۔ علامہ محمد اقبال جنہیں اللہ نے قرآن کے علم کا امین بنایا تھا،انہوں نے 1906ء میں اس پورے مکروہ معاشی نظام پر ایک کتاب تحریر کی جس کا نام’’علم الاقتصاد‘‘ ہے۔ یہ کتاب لوگوں کی نظروں سے چھپا دی گئی تھی۔لیکن اب اسے لاہور کے ایک پبلشر نے دوبارہ چھاپا ہے۔ یہ کتاب اُس وقت لکھی گئی جب یہ بینکنگ سسٹم اپنی جڑیں مضبوط کر رہا تھا۔اقبال کا ادراک اس سسٹم اور مصنوعی دولت کے بارے میں اس قدر وسیع تھا کہ وہ لکھتے ہیں: ’’بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بینک کم شرح سودکے عوض ایک سے روپیہ مستعارلیتے ہیں اور دوسرے کو زیادہ شرح سود کے عوض مستعار دے کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بینک کبھی روپیہ قرض نہیں دیتا بلکہ ساکھ کے بل پر اپنی موجودہ زرِنقدکی مقدار سے زیادہ کے اوراق جاری کرکے یا اعتبار کی اور صورتیں پیدا کر کے فائدہ اٹھاتا ہے‘‘۔ یہ ہے وہ ادراک اور علم جو اللہ نے اقبال کو عطا کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ وہ پورے سودی نظام کو صرف ایک شعرمیں سمودیتے ہیں: ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جواء ہے سود ایک کا‘ لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات لیکن اگر ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک جیسے ادارے سودنہیں لیتے تو پھر پاکستان کونسے قرضے اور سود کی لعنت کا شکار ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان بیرونی قرضے اداکرنا چاہے تو اسے سود نہیں دینا پڑے گا‘ اگر دینا بھی پڑا تو بہت ہی کم لیکن ہمارے حکمرانوں کو ملک کے اندر بینکوں سے قرض لینے کا ایک شوق اور جنون ہے۔ اس شوق کی دو وجوہات ہیں… ایک یہ کہ جو قرضہ انہوں نے بیرون ملک سے لیا ہوتاہے وہ اسے بجٹ سے ادا نہیں کرتے بلکہ اسے اللّوں تللّوں میں خرچ کر دیتے ہیں اور اندرون ملک بینکوں سے مہنگے ریٹ پر سودی قرضے لے کر اسے واپس کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان بینکوں کے ساتھ ان کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ان کے مالکان یا ان سے قرضہ لے کر ملیں بنانے والے سرمایہ دار ان کی پارٹیوں کے فنانسر ہوتے ہیں۔یہ لوگ ان بینکوں کے سرمائے سے پل کر موٹے ہوئے ہوتے ہیںاور یہ اس سرمائے سے حکمرانوں کی بھی آڑے وقتوں میں مدد کرتے ہیں۔ خود بینک بھی اس مصنوعی دولت سے مہران بینک کی طرح انہیں سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کا اندرونی قرضہ بیرونی قرضے سے دن بدن کئی گنا بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اندرون ملک بینکوں سے سود پر قرض لے کر ملک کو چلانے کی لت اس قوم کو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے ڈالی۔1972-73ء میں17.8ارب روپے بینکوں سے قرض کے طور پر لیے گئے۔اس مقصد کے لیے پہلے تمام بینکوں کو قومی ملکیت میں لیا گیا اور پھر لوگوں کے جمع شدہ سرمائے کو بے دردی سے خرچ کیا گیا۔ 1977ء میں جب وہ حکومت سے علیحدہ کیے گئے تو اس وقت ان کی مہربانیوں سے یہ ملک 32.7ارب روپے کا مقروض تھا۔ ضیاء الحق کو بیرونی امداد بھی ملتی رہی لیکن پھر بھی اندرون ملک بینکوں سے سود پر قرض لینے کی لعنت سے چھٹکارا حاصل نہ کیا۔1988ء میں جب ان کے طیارے کو حادثہ ہوا تو اُس وقت ان بینکوں کا ملک پر290.1ارب روپے سودی قرضہ تھا۔ بینظیر( پہلا دور)448.7ارب، نواز شریف (پہلا دور)608ارب ، بینظیر(دوسرا دور)908.9ارب ،نوارشریف (دوسرا دور)1389.3ارب، پرویز مشرف 2610 ارب اور زرداری صاحب کے زمانے میں ان قرضوں کو پر لگ گئے اور یہ7637ارب تک جا پہنچے۔ اور اب صرف سودنوں میں ان بینکوں سے لیے جانے والے قرضوں کی مقدار 8795ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔ یہ ہے اس قوم کی بدبختی کی تاریخ۔ پرویز مشرف کے دور میں ان قرضوں میں53فیصد اضافہ ہوا،آصف علی زرداری کے زمانے میں135فیصد اور گزشتہ چند ماہ میں169فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ لوگ ان قرضوں کو اتارنے کے لیے لوگوں پر ٹیکس لگاتے ہیں۔ ان کی بجلی، پٹرول، گیس،تیل، آٹا، چینی مہنگا کرتے ہیں اور پھر یہ سب ٹیکس اکٹھا کر کے اپنے پیارے ،چہیتے، منظورنظر اور مصیبت میں کام آنے والے بینکاروں کو واپس کرتے ہیں۔ ان بینکوں میں سرمایہ بھی عوام کا ہوتا ہے۔عوام سے قرض لیا جاتا ہے،پھر انہی پر ٹیکس لگا کر سود سمیت وصول کیا جاتا ہے اور پھر انہی کھاتے داروں کو واپس کیا جاتا ہے یعنی عوام کا جوتا زبردستی ان کے پائوں سے اُتارا جاتا ہے اور پھر زور زور سے ان کے سروں پر مارا جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved